مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے رحم و کرم پرنہیں چھوڑا جاسکتا

عبید اللہ عابد  جمعـء 6 ستمبر 2019
پاکستان کوجنگ ستمبر کاذمہ دارقراردینے والے دانشور تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فوٹو: فائل

پاکستان کوجنگ ستمبر کاذمہ دارقراردینے والے دانشور تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فوٹو: فائل

جنگ ستمبر1965ء کیوں شروع ہوئی اور اس میں فاتح کون رہا؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن پر آج بھی پورے زورو شور سے مباحث چل رہے ہیں۔

بھارتی حلقے جنگ ستمبر کی ساری ذمہ داری پاکستان پر عائد کرتے ہیں کہ اس نے آپریشن جبرالٹر شروع کرکے بھارت کو مشتعل کیا ۔ پاکستان میں بھی ایک مخصوص طبقہ تاریخ کو درست کرنے کے عنوان سے بھارتی پراپیگنڈا میں شریک ہوجاتاہے۔ بعض غیرملکی نشریاتی ادارے بھی اپنی تمام تر غیرجانبداری پر لات مار کر بھارتی موقف کی تشہیر کرنے میں شبانہ روزمحنت کرتے رہتے ہیں۔

مثلاً ایک برطانوی نشریاتی ادارے کی اردوویب سائٹ ہی دیکھ لی جائے تو درجنوں ایسے مضامین، رپورٹس شائع کرچکا ہے جس میں یہی تاثرعام کیاجاتاہے کہ جنگ ستمبر1965ء کا بنیادی سبب آپریشن جبرالٹر تھا جو پاکستان نے شروع کیا تھا۔ وہ پاکستان کے موقف کی مسلسل تردید کرتے ہیں کہ آپریشن جبرالٹرمیں حصہ لینے والے کشمیری نہیں تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ جنگ ستمبر مقبوضہ کشمیر پر قبضے کی ایک بڑی بھارتی کوشش کے بعد ، اگلے مرحلے کے طور پر شروع ہوئی۔ یہ بات تو سب مانتے ہیں کہ کشمیر کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لئے اقوام متحدہ نے اسی راستے کی نشان دہی کی تھی جو مبنی بر انصاف تھا کہ کشمیریوں ہی سے پوچھ لیاجائے کہ وہ پاکستان کے ساتھ ملناچاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ۔ پاکستان اقوام متحدہ کی ان قراردادوں کا مکمل طور پر حامی تھا لیکن بھارت نے شروع میں یہی راستہ اختیار کرنے کی ہامی بھری۔

اس وقت کے وزیراعظم جواہرلال نہرو نے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان سے ایک ٹیلی گرام کے ذریعے وعدہ کیا کہ جیسے ہی کشمیر میں امن وامان بحال ہوتا ہے، وہ وہاں سے اپنی افواج کو واپس بل الیں گے، اور اس ریاست کی قسمت کا فیصلہ یہاں کے باسیوں پر چھوڑ دیں گے۔ یہ وعدہ صرف آپ کی حکومت ہی سے نہیں ہے بلکہ ریاست جموں وکشمیر کے عوام اور پوری دنیا سے ہے۔جواہرلال نہرو نے یہ ٹیلی گرام 31 اکتوبر1947ء کو بھیجا، اس کا نمبر25 تھا۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے، خود بھارت بھی اسے تسلیم کرتاہے حتیٰ کہ پنڈت جواہرلال نہرو کے سیاسی مخالفین بھی۔گزشتہ دنوں بھارتیہ جنتا پارٹی نے گیارہ منٹ کی ایک پراپیگنڈا ویڈیو جاری کی جس میں اس نے تسلیم کیا ہے کہ پنڈت جواہر لال نہرو ہی کشمیر کے تنازعہ کو اقوام متحدہ میں لے کر گئے تھے۔ ویڈیو میں اسے ایک تاریخی غلطی سے تعبیر کیاگیا ہے۔

یہ بات برصغیرپاک وہند کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ کشمیر کے تنازعے کے تین فریق تھے۔ بھارت کا موقف تھا کہ جموں وکشمیر کے ڈوگرہ حکمران نے ریاست کا بھارت کے ساتھ الحاق کردیا تھا۔پاکستان کا موقف تھا کہ تقسیم برصغیر کی تقسم کے فارمولے کے تحت اسے پاکستان میں شامل ہوناچاہئے تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ برصغیر ریاستوں کے نمائندوں کی موجودگی میں لارڈ ماونٹ بیٹن نے ریاستوں کے الحاق کے رہنما اصولوں پر مبنی جو دو دستاویز تیار کرائیں تھیں اُن میں سے پہلی سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ تھا جو الحاق کے فیصلے کے لئے سوچ بچار کا وقت لینے کے واسطے کسی بھی ریاست نے پاکستان اور بھارت دونوں کے ساتھ کرنا تھا۔ بھارت نے کشمیر کے ساتھ سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ نہیں کیا جبکہ پاکستان نے درخواست موصول ہوتے ہی دستخط کر دیئے تھے۔ دوسری دستاویز ریاستوں کے فرمانرواوں کو اس بات کا پابند بناتی ہے کہ وہ پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرتے ہوئے تین باتوں کا لازماً خیال رکھیں گے۔

اول ریاست کی آبادی میں اکثریت اور اُن کی مرضی، دوئم یہ کہ ریاست کی جغرافیائی محل وقوع، اور سوئم یہ کہ اگر ریاست کی سرحدیں دونوں ملکوں سے ملتی ہوں تو ایسی صورت میں ریاست کس ملک کی فطری جغرافیائی اکائی بنتی ہے۔ کسی ریاستی حکمران کو کوئی حق نہیں کہ وہ محض اپنی مرضی سے ریاست کی قسمت کا فیصلہ کردے۔ عالمی قوانین بھی تقاضہ کرتے ہیں کہ وہاں کے باسیوں سے پوچھ لیاجائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر کی سطور پر بیان کیاگیا ہے کہ بھارت نے اس مبنی پر انصاف اصول کو تسلیم کیا تاہم عملی طور پر اس نے ایک مختلف راستہ اختیار کیا۔

سن1949ء میں جب بھارتی آئین کی تیاری ہورہی تھی، آئین ساز اسمبلی میں دفعہ 370 کا مسودہ پیش کیاگیا جس میں ریاست جموں وکشمیر کو ایک عارضی انتظام کے تحت چلانے کی بات کی گئی تھی،کشمیر کے تنازعہ کو اقوام متحدہ میں لے جانے والے پنڈت جواہر لال نہرو اب اپنے عوام کو باور کرا رہے تھے کہ یہ ریاست جموں وکشمیر کے بھارت سے انضمام کے راستے کا ایک سنگ میل ہے۔

چنانچہ بھارتی عزائم کو بھانپتے ہوئے بھارت کی دستورسازاسمبلی میں موجود جموں وکشمیر سے تعلق رکھنے والے ارکان نے اس کی شدید مخالفت کی تھی۔ تاہم ریاست جموں وکشمیر کے وزیراعظم شیخ عبداللہ اور ان کی پارٹی بھارت کے اس جھانسے(دفعہ 370 ) میں آگئی کہ اس کے نتیجے میں کشمیریوں کو خودمختار زندگی بسر کرنے کی خصوصی حیثیت حاصل ہوگی۔ بعدازاں انہی شیخ عبداللہ کو بھارت نے ایوان اقتدار سے گرفتارکرکے جیل میں پھینک دیا۔ اس سے بخوبی اندازہ کیاجا سکتا ہے کہ بھارت کشمیریوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتا تھا، جواہرلال نہرو اپنے عوام سے کئے گئے وعدے پر مکمل عمل درآمد کر رہے تھے۔

ریاست جموں وکشمیر کا اپنا ایک آئین تھا جو 1956ء میں نافذکیاگیاتھا، اس میں ریاست کا حکمران ’صدر ریاست‘ ہوگا جسے جموں وکشمیر کی اسمبلی منتخب ہوگی اور بھارتی صدر اس کی تعیناتی کا پروانہ جاری کرے گا تاہم 1965ء میں بھارت نے ریاست جموں وکشمیر پر اپنا قبضہ مزید مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا اور آئین میں ایک ترمیم کی کہ اب صدر ریاست کا عہدہ ختم ، اس کے بجائے ایک گورنر ریاست کا نظم ونسق چلائے گا جس کا تقرر بھارتی صدر کرے گا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ بھارت نے ریاست جموں وکشمیر کے شہریوں کو دفعہ 370 کے عنوان سے جو خودمختاری کا جھانسہ دیاتھا، اس کی حقیقت اسی روز کھل گئی تھی جب شیخ عبداللہ کو اٹھا کر جیل میں پھینک دیاگیاتھا، اب گورنر کے براہ راست تقرر کا اعلان کرکے ریاست کی خودمختاری کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان کردیاگیا۔ اس اقدام سے جہاں ریاست کے باسی شدید غم وغصے میں آئے وہاں لازمی طور پر اس تنازعہ کے ایک دوسرے فریق اور تقسیم برصغیر کے فارمولے کے تحت کشمیر پر دعویٰ کرنے والے پاکستان کا مضطرب ہونا ایک فطری امر تھا۔

سوال یہ ہے کہ پاکستان کو اس مرحلے پر کیا کرناچاہئے تھا؟ کیاپاکستان خاموشی سے بیٹھا رہتا؟ کیا وہ ریاست جموں وکشمیر پر بھارت کے علانیہ قبضے کے خلاف مضطرب کشمیریوں کا ساتھ نہ دیتا؟ آپریشن جبرالٹر ایک فطری ردعمل تھا تاہم یہ ایک فوری منصوبہ تھا جس کی پہلے سے تیاری نہیں کی گئی تھی۔

اس کا پاکستان اور کشمیریوں کو شدید نقصان بھی اٹھاناپڑا۔ اس کی ناکامی کے فوراً بعد پاکستان نے ’آپریشن گرینڈسلام‘ شروع کیا، جس کے پہلے مرحلے میں پاکستان کا پلڑا بھاری تھا، جنرل اخترحسین ملک کی کمان میں پاکستانی فوج نے اکھنور پر پاکستان کا پرچم لہرادیاتھا اور وہ سری نگر کی طرف بڑھ رہے تھے، عین اسی وقت بھارت نے بین الااقوامی سرحد پر فوجیں جمع کر کے پاکستان کو کشمیر سے فویں نکال کر دیگر محاذوں کی جانب روانہ کرنے پر مجبور کردیا۔ اس کے بعد بھارت نے چھ ستمبر1965ء کو پاکستان پر حملہ کردیا۔ اس تناظر میں کوئی پرلے درجے کا بد دیانت فرد ہی اس جنگ کا الزام پاکستان پر دھر سکتا ہے۔

٭جنگ ستمبر کون جیتا؟

دنیا کے تمام حلقے قراردیتے ہیں کہ جنگ ستمبر کی بنیاد کشمیر ہی تھا۔ اس سے پہلے پاکستان نے کشمیر ہی کو بھارتی قبضے سے چھڑانے کے لئے ’آپریشن جبرالٹر‘اور ’آپریشن گرینڈ سلام‘ کئے تھے۔ ایسے میں پاکستان پر اشتعال انگیزی کا الزام دھرنے والوں کی عقل پر ماتم ہی کیاجاسکتاہے۔

جو حلقے جنگ ستمبر کا ذمہ دارپاکستان کو قرار دیتے ہیں، وہی اس میں کامیابی کا سرٹیفکیٹ بھارت کو تھما دیتے ہیں۔جنگوں میں ایک دوسرے کی بے شمار ہلاکتوں کا بلند و بانگ دعویٰ ہرکوئی کرتا ہے تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی فوج بھارت کی سرزمین میں بہت اندر تک گھس گئی تھی۔

’انڈو پاکستان وار 1965… اے فلیش بیک‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی کتاب میں جنگ ستمبر کے ایک ایک دن کی روداد بیان کی گئی ہے، کتاب کے مطابق ’انڈیا نے بین الاقوامی سرحد کے خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان پر حملہ کیا تھا جبکہ پاکستان اس جنگ کے لیے بالکل تیار نہیں تھا بلکہ اس کی فوجیں پریڈ کر رہی تھیں، لیکن جب انھوں نے حملہ کیا تو پاکستان نے اس کا جواب دیا۔‘ کتاب کے مصنف بریگیڈئیر محمود شاہ کہتے ہیں کہ ’بھارت کو اس جنگ میں ایک قسم کی شکست ہوئی اور تاشقند معاہدے کے بعد جنگ بندی ہوئی

۔ دنیا بھر کے میڈیا میں یہ لکھا گیا کہ بھارت نے حملہ کیا اور پاکستان نے جواب دیا ہے‘۔ متعدد عالمی ذرائع ابلاغ نے جنگ میں پاکستان کا پلڑا بھاری قراردیاتھا۔ انڈونیشیا بھی اپنی تمام تر قوت کے ساتھ پاکستان کا ساتھ دیتے ہوئے بھارت پر حملہ آور ہونے کے لئے بڑھ رہاتھا اگرجنگ بندی نہ ہوتی تو بھارت چکی کے دوپاٹوں کی طرح پس جاتا۔پاکستان اپنے مشرقی اور مغربی دونوں محاذوں سے بھارت کے ساتھ نبردآزما تھا ، تیسری طرف سے انڈونیشیائی فوج اسے تہس نہس کردیتی۔ اس صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے بھارت نے سلامتی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹایا۔

سوال یہ ہے کہ دنیا میں کبھی کسی ’فاتح‘ نے جنگ بندی کے لئے شورمچایاہے؟ فاتح قوت کبھی ایسا نہیں کرتی۔ہمیشہ شکنجے میں پھنسی ہوئی قوت چیختی چلاتی ہے۔ فاتح مفتوحہ علاقہ چھوڑنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے۔ اس سے بخوبی اندازہ کیاجاسکتاہے کہ اس جنگ کا فاتح پاکستان ہی تھا۔

٭ ایک نئی جنگ کا خطرہ

جوحالات ستمبر1965ء سے پہلے تھے، وہی حالات ستمبر2019ء سے پہلے پیدا ہوچکے ہیں۔ ستمبر1965ء سے قبل بھارتی فوج کی جانب سے درگاہ حضرت بل کی بے حرمتی نے کشمیری مسلمانوں میں شدید غم و غصہ پیدا کردیا تھا جبکہ دوسری طرف مقبوضہ وادی کی حیثیت سے متعلق بھارتی پارلیمان میں پیش ہونے والے قانون کی وجہ سے بھی کشمیری مسلمانوں میں شدید اضطراب کی سی کیفیت تھی، بھارت ایک قابض قوت کے طور پر ننگا ہوکر سامنے آگیاتھا، کشمیریوں پر واضح ہوچکاتھا کہ ’خودمختارانہ حیثیت‘ کے نام پر ان سے بہت بڑا دھوکہ ہوا ہے، اب وہ آزادی کے لیے تیار نظر آتے تھے۔

آج انسٹھ برس بعد بھارت نے اپنے قبضہ کو حتمی شکل دینے کے لئے دفعہ 370ختم کردی ہے تاکہ ریاست جموں وکشمیر کو اپنے قبضے میں لینے کا جو کام جواہرلال نہرو نے شروع کیاتھا، اسے اب مکمل کردیاجائے۔ اسے بھارت کی مودی سرکار اپنی منزل قراردے رہی ہے۔بھارتی وزیراعظم مودی کا کہناہے کہ انہوں نے 70 دنوں میں وہ کام کر دکھایا جو ان سے قبل دیگر حکومتیں 70سال میں بھی نہ کر سکیں۔

پاکستان اس مرحلے پر خاموش نہیں بیٹھ سکتا۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی 1965ء کی نسبت کہیں زیادہ شدید ہے۔1989ء سے اب تک 95ہزارکشمیری مرد وزن بھارتی افواج کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں، جن میں سے سات ہزار سے زائد دوران حراست میں شہید ہوئے، ڈیڑھ لاکھ سے زائد کشمیری جیلوں میں قید ہوئے، 22ہزارکشمیری خواتین بیوہ ہوئیں۔10لاکھ سے زائد بچے یتیم ہوئے جبکہ گیارہ ہزار سے زائد خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ قابض بھارتی افواج کے ہاتھوں اس درندگی کے بعد کشمیری قوم کا درد ناقابل برداشت ہوچکا ہے۔

بھارت کو بھی کشمیریوں کے تندوتیز جذبات کا ادراک ہے ، وہاں ایک لاشہ گرتاہے تو اس کے جنازے میں اس قدر بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوتے ہیں کہ بھارتی پالیسی ساز انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔متعدد بھارتی ماہرین کہہ چکے ہیں کہ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل چکاہے۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد ، لاک ڈاؤن اور اس کے نتیجے میں کشمیر میں جو شدید ردعمل ہے، شاید اس کا اندازہ مودی سرکار کو نہیں تھا۔

یہی وجہ ہے کہ وہ اب سپریم کورٹ کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرے گی۔ کہاجارہاہے کہ مودی سرکار اگلے ایک دوماہ کے دوران کشمیریوں کے ردعمل پر قابو نہ پاسکی تو بھارتی سپریم کورٹ دفعہ 370کے خاتمے کے خلاف فیصلہ دے کر مودی سرکار کو مشکل صورت حال سے نکالنے کی کوشش کرے گی۔ یادرہے کہ اس سے قبل یہی سپریم کورٹ دفعہ 370کے حوالے سے ایک رٹ کو ناقابل سماعت دے چکی تھی لیکن اب وہ اپنا تھوکا چاٹ رہی ہے تو یقینا اسے بھی مقبوضہ کشمیر کی خطرناک صورتحال کا ادراک ہوچکاہے۔

ایسے میں اگربھارت پاکستان پر حملہ کرتا ہے تو اسے یقینی طور پر 1965ء سے بھی زیادہ بری شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں:

اول: پاکستان افواج اس وقت دنیا کا بہترین اسلحہ سے مسلح ہیں۔ ان کے پاس ایسے ہتھیار ہیں جو استعمال ہوئے تو دنیا حیران رہ جائے گی۔

دوم:بھارتی افواج شدید اندرونی بے چینی کا شکار ہیں۔ ہرسال ایک سو کے قریب بھارتی فوج خودکشی کرتے ہیں، وہ اپنے افسران پر حملہ آور ہوتے ہیں، یاپھر اپنی غربت اور مشکل حالات کا رونا روتے ہیں۔ ایسی بے شمار ویڈیوز موجود ہیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستانی افواج کی پوری تاریخ میں خودکشی کرنے والے فوجیوں کی تعداد صفر ہے۔ متعد عالمی عسکری ماہرین بھارتی افواج کی اندرونی خراب حالت پر تجزیے کرچکے ہیں۔ تاہم پاکستانی افواج اب بھی دشمن کے خلاف مکمل طور پر منظم ، پرعزم اور آخری فتح حاصل کرنے کے لئے بے چین ہیں۔

سوم: پاکستانی افواج بالخصوص بری افواج گزشتہ اٹھارہ برس سے حالت جنگ میں ہیں، وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں متحرک رہی ہیں، ایسے میں انھیں بھارتی افواج سے نمٹنے میں تیاری کی ضرورت نہیں ہوگی۔

چہارم: اگرہم مختلف زاویوں سے پاکستانی قوم اور بھارتی قوم کا جائزہ لیں تو بھی پاکستان کا پلڑا بھاری ہے۔ پاکستانی قوم بھی اپنی افواج کے شانہ بشانہ لڑنے کی بہترین صلاحیت رکھتی ہے۔ بھارت اور اس کی حامی عالمی طاقتیں بھی پاکستانی قوم کی خصوصیات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ الزام عائد کرتی ہیں کہ پاکستان میں متعدد ’لشکر‘ اور ’جیش‘ موجود ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں اب کوئی ’لشکر‘ اور ’جیش‘ نہیں ہے تاہم وقت آنے پر پاکستانی قوم ایک بڑے لشکر کی صورت میں بھارت کے اندر داخل ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔