حکومت اور اپوزیشن میں سیاسی محاذ آرائی کیا رنگ لائے گی؟

ارشاد انصاری  بدھ 20 نومبر 2019
سیاسی میدان میں عمران خان کی گورننس کا محور نوازشریف اور پیپلز پارٹی ہے۔

سیاسی میدان میں عمران خان کی گورننس کا محور نوازشریف اور پیپلز پارٹی ہے۔

 اسلام آباد: ملکی سیاست نے ایک بار پھر بھرپور انگڑائی لی ہے اور دنیا گول ہے کے مصداق دوبارہ تبدیلی کے حالات بنتے دکھائی دے رہے ہیں وہیں کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے علاج کے لئے بیرون ملک روانگی کے بعد پاکستان تحریک انصاف کوسیاسی لڑائی میں کچھ سانس میسر آسکے گا اور اقتصادی فرنٹ پر درپیش چیلنجز سے نمٹنے میں تیزی دکھانے کا موقع میسر آسکے گا۔

کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت اپنے سخت گیر بیانیہ کے باعث گذشتہ سوا سال سے اقتصادی مشکلات پر قابو پانے کیلئے کوشاں ہے مگر سیاسی محاذ پر سخت لڑائی کے باعث یہ کوششیں اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانے میں اس قدر ثمر آور ثابت نہیں ہو سکی تھیں جسکا تقاضا تھا اور پچھلے سوا سال میں جو تبدیلی کا حشر ہوا ہے۔

اس نے پاکستان تحریک انصاف اور اسکے قائد عمران خان کی عوامی مقبولیت کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے اسی وجہ سے شیخ رشید سمیت بعض دوسرے سیاستدان عمران خان کو یہ مشورہ دیتے رہے ہیں کہ میاں نوازشریف کو باہر جانے دیں تاکہ سیاسی سطح پر کچھ ٹھہراو آسکے اس کیلئے کئی مرتبہ ایسے حالات بنے بھی کہ شائد اب سیاسی ماحول بہتر ہونے جا رہا ہے اور حکومت و اپوزیشن کی جانب سے رویوں میں نرمی بھی دیکھنے میں آتی رہی مگر پاکستان تحریک انصاف کا ماضی کا دھواں دھار بیانیہ مسلسل ان کا پیچھا کرتا رہا اور ابھی بھی کر رہا ہے اور یہ بیانیہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ورکنگ ریلیشن کو بہتر کرنے کی راہ میں ابھی تک حائل دکھائی دیا ہے۔

اب میاں نواز شریف کی صحت بگڑنے کے بعد سیاسی صورتحال بھی بگڑتی دکھائی دے رہی ہے اور سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ اسٹبیلشمنٹ اور حکومت کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں اور مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ اور دھرنے کا اس طرح ختم ہونا جہاں مولانا فضل الرحمن اور اپوزیشن کے بارے میں بہت سے سوالات اٹھا رہا ہے وہیں حکمرانوں کے مستقبل بارے بھی بہت سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور یہ تک کہا جا رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے کے خاتمے اور پلان بی کے تحت ملک گیر احتجاج و شاہرایہیں بند کرنے کی حکمت عملی اسی کی جانب پیشرفت ہے جسکی یقین دہانیاں کروائی گئی ہیں اور جون تک ماحول بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں اور اس دوران حالات بنیں گے ۔

ان ہاوس تبدیلی کی ہوا بھی چلنے کو ہے یہ تو خیر وقت بتائے گا کہ تجزیہ کاروں کے ان تجزیوں میں کتنی جان ہے مگر پچھلے کچھ عرصے میں جو سیاسی فرنٹ پر تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں وہ اتنا پتہ ضرور دیتی ہیں کہ کچھ نہ کچھ کھچڑی پک ضرور رہی ہے اب کس کا پلڑا بھاری رہتا ہے یہ اگلے کچھ عرصے میں سامنے آجائے گا اور پاکستان مسلم لیگ(ن)کے رہنما خواجہ آصف کا اگلے کچھ عرصے میں بہت سی چیزیں بے نقاب ہونے کے بیان نے بھی سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا رکھی ہے اور پھر جنرل پرویز مشرف کے کیس بارے بھی بڑی ڈویلپمنٹ سامنے آئی ہے کہ خصوصی عدالت نے جنرل مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں حکومت کے دلائل مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ استغاثہ کے تحریری دلائل آ چکے ہیں جو کافی ہیں۔

استغاثہ چاہے تو 26 نومبر تک مزید تحریری دلائل جمع کرا سکتا ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اب اس معاملہ کو مزید لٹکانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ سیاسی و دفاعی امور کے تجزیہ کار وزیراعظم عمران اور آرمی چیف کی ملاقاتوں کے دورانیوں کو بھی جمع خاطر میں رکھے ہوئے ہیں۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف کے درمیان حالیہ ملاقات کوئی ڈیڑھ سے دوماہ کے بعد ہوئی ہے مگر اس ملاقات کے بعد وزیراعظم عمران خان کا اچانک دو دن کی رخصت پر چلے جانا اور تمام سیاسی مصروفیات ترک کر کے اپنے اہل خانہ کے ہمراہ وقت گزارنا سیاسی، سماجی حلقوں اور الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر موضوع بحث رہا ہے اور اس پر طرح طرح کے تجزئے و آراء سامنے آرہی تھیں جس پر وضاحت کیلئے پھر سے ڈی جی آئی ایس پی آر کو سامنے آنا پڑا اور ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ حکومت اور فوج کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، وزیر اعظم اور آرمی چیف مسلسل رابطے میں ہیں اور دونوں کے درمیان ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں ۔

دوسری جانب سابق وزیراعظم نوازشریف کو عدالت سے ریلیف ملنے پر بیرون ملک علاج کیلئے روانہ ہونے پر تحریک انصاف کے بیانیہ سے متعلق خوب تنقید ہو رہی ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ حکومت نے اپنی تمام تر کوشش کی ہے کہ نوازشریف کو بغیر گارنٹی اور انڈیمنٹی بونڈ لئے باہر نہ جانے دیا جائے مگر وہیں ناقدین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر حکومت اس کیلئے پرعزم تھی تو پھر عدالتی فیصلے کو سْپریم کورٹ میں چیلنج کیوں نہیں کیا گیا۔

بہرحال اب اس پر دونوں پارٹیاں سیاست جاری رکھیں گے اور اپنی اپنی پوائنٹ سکورنگ جاری رکھیں گے لیکن اب اس کے بعد حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانا ہے اور اب کپتان کی ٹیم کے سابق اوپنر کھلاڑی اسد عمر بھی ٹیم میں واپس آچکے ہیں اور اپنی نئی ذمہ داریوں کا حلف بھی اٹھا لیا ہے اب یہ کچھ عرصے میں سامنے آئے گا کہ اسد عمر نئی اسائنمنٹ پر کیا کارکردگی دکھاتے ہیں البتہ نئی ذمہ داری ملنے کے بعد منگل کو جو ان کا بیان سامنے آیا ہے اس میں اسد عمر نے کہا ہے کہ مسلسل اقدامات سے پاکستان کی معیشت مستحکم ہونا شروع ہوئی جس کے بعد اب پائیدار ترقی اور نوکریاں مہیا کرنے کا مقصد حاصل ہو پائے گا۔

یہی نہیں نواز شریف کے بیرون ملک روانہ ہونے کے بعد جو وزیراعظم عمران خان اور انکی اقتصادی ٹیم کے سابق اوپنر بیٹسمین اسد عمر اور موجودہ اقتصادی ٹیم کے سربراہ حفیظ شیخ کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جو بیان سامنے آیا ہے اس میں وزیراعظم عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی معیشت اقتصادی اصلاحات کے ذریعے بہتری کی جانب گامزن ہے اور انہوں نے پاکستان کے برآمد کنندگان کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ معاشی اصلاحات کا پھل ملنا شروع ہوگیا۔

دو روز کی رخصت کے بعد وزیراعظم عمران خان نے جس جارحانہ انداز میں کم بیک کیا ہے وہ بھی بہت سے سوالات کو جنم دے رہا ہے اور کچھ لوگ وزیراعظم کے اس خطاب کو مستقبل کی جانب اشارہ قرار دے رہے ہیں اور اس میں جس طرح سپریم کورٹ آف پاکستان کے حالیہ چیف جسٹس اور آنے والے چیف جسٹس کو مخاطب کیا گیا ہے اس پر قانونی ماہرین کی جانب سے بھی بہت سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور وزیراعظم عمران خان پر تنقید کی جا رہی ہے۔

سیاسی میدان میں عمران خان کی گورننس کا محور نوازشریف اور پیپلز پارٹی ہے اور اب پارلیمانی میدان میں خود اپنے فرائض سرانجام دینے کی بجائے عدالتوں پر معاملات ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ناقدین کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے کہ قانون سازی کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے اگر نظام عدل کو بہتر بنانا ہے اور غریب و امیر کے درمیان انصاف کے حوالے سے فرق مٹانا ہے تو کس نے روکا ہے آگے بڑھیں اور موثر قانون سازی کریں لیکن سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے اداروں کو سیاست میں گھسیٹنے سے اجتناب کیا جائے تو بہتر ہوگا کیونکہ اس سے ادارے مضبوط ہونے کی بجائے کمزور ہوتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو سیاسی ماحول کو بھی ٹھنڈا کرنے کی ضرورت ہے اور یہی مشورے حکومت کے اتحادی پرانے سیاسی کھلاڑیوں کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو دیئے جا رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔