یہ کون ہیں

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 5 دسمبر 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

محنت مزدوری کرنے والے انسان کو اتنی اجرت ملتی ہے کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ بھوکا پیاسا زندہ رہ سکتا ہے۔ دوسری طرف اربوں ڈالرکی ملکیت ہے انھی اربوں ڈالرزکے مالکوں میں سے دنیا کے امیر ترین انسان چنے جاتے ہیں۔ اربوں غریب لوگ انصاف کی امید لگائے بیٹھے ہیں، یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔

آپ یعنی قارئین کرام حیران ہوں گے کہ یہ بیدری صاحب کو کیا ہوگیا ہے ہمیشہ غریب امیر دولت اور غربت کا پہاڑا سناتے رہتے ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ احساس کا معاملہ ہے ، دنیا کے 7 ارب انسانوں میں سے لگ بھگ 90 فیصد غریب اور مفلوک الحال ہیں ، اگر ان 90 فیصد کو یہ احساس ہو جائے کہ ان پر دو فیصد ٹولہ ظلم کر رہا ہے۔

اس سے نجات حاصل کرنا ان کا حق ہے تو دو فیصد غبارکی طرح ہوا میں اڑ جائے گا۔ لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟ مشکل ہے بہت غیر معمولی منظم اور منصوبہ بند لڑائی لڑنی پڑے گی۔ ویسے دنیا میں اب ظلم اور نا انصافی کے خلاف مزاحمت کا ’’ بالواسطہ ‘‘ سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ کرپشن کے خلاف درجنوں ملکوں میں پرتشدد مظاہرے ہو رہے ہیں پاکستان کے حکمران طبقے نے اربوں کی لوٹ مار (کرپشن) کی ہے لیکن پاکستانی عوام صبر کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ ایسا کیوں؟

دنیا بلا شبہ امتحان گاہ ہے ، خاص طور پر دولت مند طبقات کے لیے کہ کیا وہ اپنی لوٹی ہوئی دولت جائز اور ایماندارانہ طریقہ سے خرچ کرتے ہیں؟ دنیا میں یہ ’’مزاج‘‘ عام ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت کمائی جائے خواہ وہ جائز ہو یا ناجائز؟ اس طریقہ کو ظلم سمجھتے ہوئے حکما نے بجا طور پر کہا ہے کہ جمع کیا ہوا سونا چاندی جمع کرنے والے کو سانپ اور بچھو بن کر ڈسیں گے سونا اور چاندی بلاشبہ ایسی چیزیں ہیں جن سے دنیا کی ’’ہر چیز‘‘ خریدی جاسکتی ہے اب سوال یہ ہے کہ دولت کی تقسیم منصفانہ ہے؟ اس سوال کا جواب بڑا مایوس کن ہے۔

سب سے پہلے اس بات پر غور کیا جائے کہ دنیا میں غریبوں اور امیروں کا تناسب کیا ہے۔ اس سوال کا جواب انتہائی افسوس ناک ہے، یعنی ایک اندازے کے مطابق غریب طبقات کی تعداد 90 فیصد سے زیادہ ہے اور امیر طبقات کی تعداد صرف مشکل سے دو فیصد ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غربت اور امارت کا تناسب کس قدر ناجائز نامنصفانہ ہے۔ انسان خواہ محل میں پیدا ہو یا جھونپڑے میں خدا کا بندہ ہی ہوتا ہے پھر اتنی بڑی تفریق؟ اس کا کوئی جواز؟ اب ذرا کام کی نوعیت ملاحظہ ہو۔ 90 فیصد کے لگ بھگ انسان محنت مزدوری کرتے ہیں اور 5-10 فیصد انسان ’’نوابی‘‘ کرتے ہیں۔

دنیا میں پڑھے لکھے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں جو اپنے اپنے حساب سے روزی کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں ، ان لاکھوں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد میں دو فیصد بھی وہ لوگ نہیں ہیں جنھیں دانشور، مفکر، ادیب، شاعر کہتے ہیں، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو دنیا میں ظلم اور ناانصافی کے خلاف لوٹ مار اور کرپشن کے خلاف عوام میں مزاحمت یا جہاد کا جذبہ پیدا کرتے ہیں ، لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی بہتر اور اعلیٰ زندگی کی جستجو نے انھیں نکما یا طبقاتی بے ایمان بنا دیا ہے۔

یہ کیسی عجیب بات ہے کہ دنیا کی دولت کا 60 فیصد سے زیادہ حصہ مشکل سے دو فیصد ایلیٹ، مراعات یافتہ طبقات کے ہاتھوں میں جمع ہے اور یہ عوام دشمن طبقہ کھلے عام جنت کے مزے لوٹ رہا ہے۔ یہاں اصلی جنت کی طرف بھی توجہ دلانے کی ضرورت ہے کہ اس جنت میں جانے کے لیے نیک کام اور نیکیوں کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ لٹیرے طبقات اس قسم کی تمام شرائط سے آزاد ہیں۔ اچھی زندگی گزارنا ہر فرد کا حق ہے اور یہ حق ایک چھوٹا سا طبقہ اس لیے دبائے بیٹھا ہے کہ حصول دولت کے تمام جائز و ناجائز ذرایع اسے حاصل ہیں۔ ظالمانہ وحشیانہ طریقہ کو کیا یوں ہی جاری رہنا چاہیے؟

پاکستان میں 22 کروڑ عوام رہتے ہیں۔ بھوک بے کاری ان کا مقدر ہے ہم نے بار بار اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ دولت اور غربت میں 2/98 کا تناسب ہے۔ ایک سوال اس حوالے سے ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایلیٹ کی تعداد صرف دو فیصد ہے تو وہ 98 فیصد سے اپنا جائز حق کیوں نہیں لیتا؟ سوال مناسب بھی ہے باموقع بھی ہے۔

دیکھیے جن ’’اکابرین‘‘ نے سرمایہ دارانہ نظام تخلیق کیا تھا انھیں فطری طور پر اس بات کا علم تھا کہ ایک نہ ایک دن 98 فیصد مظلوم عوام 2 فیصد ظالموں کے خلاف تلوار سونت کر کھڑے ہوجائیں گے۔ سو انھوں نے اس حوالے سے پہلے ہی تمام احتیاطی تدابیر تیار کرلی تھیں۔ کوئی سرمایہ دار کروڑوں اربوں روپے گھر میں نہیں رکھتا۔ سو انھوں نے انتہائی محفوظ بینک سسٹم کا آغاز کیا جس میں بڑی سے بڑی دولت محفوظ ہوتی ہے پھر ’’خواص کو خاص طور پر نجی ملکیت کا حق دیا۔‘‘ جس پر بینک سرمایہ کار کو سود بھی دیتا ہے۔ بینکوں میں لاکر ہیں جہاں سرمایہ کار کا سرمایہ محفوظ رہتا ہے اور نجی ملکیت کے حق کی حفاظت کے لیے سرکار ہر وقت تیار ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔