جمہوریت تاریک راہوں میں( دوسرا اور آخری حصہ)

نادر شاہ عادل  جمعرات 5 دسمبر 2019

کیاہم ایک سیاسی اور دانشورانہ ابتری کے ہولناک حصار میں ہیں، تاریخ اور اس کے عوامل ایک خاتمہ کی دہلیز پر ہیں، سرد جنگ کے بعدکا منظر نامہ کیا ہوگا ،کیا سچ ہے کہ اقدارکی حکمرانی نڈھال ہوچکی ہے، صداقتوں کی سانس اکھڑی ہوئی ہے، ہم ابتری اور بحران کی کہکشاؤں میں گم ہو رہے ہیں۔ تاریخ، جمہوریت، لبرل ڈیموکریسی، سائنس، ٹیکنالوجی ، اطلاعات کا انقلاب اور آزادی کا کون سا تصور باقی رہ جائے گا۔ سیاسی بحران ، تاریخ کا سفر اور جمہوری انحطاط کیا گلوبل تقدیر ہے؟کیا انسانیت سیاسی، نظریاتی، اقتصادی زلزلوں کی زد میں ہیں۔ عالمی شکست وریخت کا انجام کیا ہوگا؟

جاپانی نژاد امریکی فلسفی اور پولیٹیکل اکنامسٹ فرانسس فوکویاما نے 1989میں اپنی کتاب ’’ تاریخ کا خاتمہ اور آخری آدمی‘‘ لکھ کر سیاسی اور ادبی منظرنامہ پر دھماکا کر دیا تھا۔ تاریخ کے خاتمہ کی پیشگوئی کرتے ہوئے فوکویاما کا تصور تھا کہ یہ پرشور بیسویں صدی اپنے ششدر کرنے والے ’’ دی اینڈ ‘‘ پر پہنچی تو کمیونزم اپنے زوال پر تھا ، عالمی  سیاست اپنی قلب ماہیت پر تھی، فوکویاما نے اس موقع پر ایک سوال کیا کہ کیا یہ جو صدیوں سے فلسفی پوچھا کرتے تھے کہ  نوع انسانی کی کوئی سمت ہے؟ اور اگر ڈائریکشنل ہے تو کس انتہا پر جا رہی ہے اور ہم اس انتہائے تاریخ یعنی End of historyکے کس مقام پر کھڑے ہیں؟

اس دلچسپ اور پرکشش سوال پر فرانسس فوکویاما نے اپنی کتاب میں بہت کچھ پوچھا ہے۔ انھوں نے نیشنل انٹرسٹ نامی جریدے میں اس موضوع کو ابتدائی طور پر چھیڑا، اپنے شواہد پیش کیے کہ دنیا کی انسانی تاریخ میں طاقتور فورسز ہیں ، ایک کو وہ جدید سائنس کی منطق کا نام دیتے ہیں، اور دوسری کو شناخت یا پہچان کی جدوجہد، ان کے نزدیک ایک  وہ جدوجہدہے جو ایک عقلی معاشی کوشش کے تناظر انسانوں کو بڑھتے پھلتے پھولتے ہوئے کچھ حاصلات پر ابھارتی ہے، دوسری صورت پر بحث کرتے ہوئے فوکویاما نے اپنے اور ہیگل کے نقطہ نظرکو بیان کیا ہے، جسے وہ تاریخ کے پہیے سے تعبیر کرتے ہیں۔ فوکویاما نے بڑے سحر انگیز طرز اور مربوط انداز میں دلائل دیے۔

ان کا کہنا تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ جدید سائنس نے شناخت اور پہچان کی جدوجہد کے ساتھ ایک اقتصادی منطق پیش کی جن میں آمریتوں اور ظلم پرستی کے نظام کو سقوط کی شک میں نمایاں کیا، دائیں اور بائیں  بازو میں ڈیموکریسیز نظر آئیں، ان قوتوں نے ثقافتی سطح پر باہم منتشر ، مضطرب اور بے قرار معاشروں کو سرمایہ دار لبرل نظام کے استحکام کو تاریخی پروسیس کے آخری باب کے طور پر پیش کیا، یہ بڑا سوال اس طرح سامنے لایا گیا کہ آزادی اور مساوات دونوں سیاسی اور معاشی حقیقتیں ہیں۔

تاریخ کے خاتمہ کے فرض کرنے کے حالات ایک مستحکم سماج کی تشکیل کرسکتے ہیں جس کے بارے میں یہ کہا جاسکے کہ یہ اطمینان بخش رہے گا یا یہ کہ روحانی صورتحال اس آخری آدمی کی تاریخ میں جدوجہد بے نتیجہ اور لا حاصل رہے گی، اسے اور دنیا کو ایک گہری کھائی اور تاریخ کے قتل عام اور انتشار میں پھنسا دے گی۔ فوکویاما کے معاصرانہ خیالات کا سیاق وسباق  علمی نفاست اور دلآویزی کا مرقع ہیں ، جو تاریخ میں ایک فکر انگیز تحقیق ہے، جس میں انسانی معاشرہ اور انسانیت کے مستقبل کے گہرے سوال پر تحقیق کی گئی ہے۔

فرانسس فوکویاما کی متعدد تصانیف ہیں۔ انھوں نے عوامی مقبولیت ، سیاسی افراط وتفریط، تقطیب polarization  اور قومی شناخت پر بھی بحث کی ہے، اپنی ایک کتاب ’’شناخت : توقیری کی طلب اور مزاحمتی سیاست ‘‘ کے علاوہ سیاسی نظم وضبط پر خامہ فرسائی کی، فوکویاما نے گریٹ ڈسرپشن، ہیومن نیچر، اور ری کنسٹرکشن ، ٹرسٹ : سوشل ورچوز،کری ایشن آف پروسپیرٹی، آور پوسٹ ہیومن فیوچر، اور کنسی کوئنسز آف بایوٹیکنالوجی جیسی اہم کتابیں تصنیف کیں جب کہ سیاسی ترتیب اور سیاسی زوال   Political Order and Political Decayپر بھی کتاب لکھی۔

فرانسس فوکویاما 27اکتوبر1952کو امریکی شہر شکاگومیں پیدا ہوئے، مشہور فلاسفر اور معاشی مبصر ہیں،ان کے والد یوشیو فوکویاما دوسری جاپانی امریکی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، انھیں کانگریز چرچ میں وزارتی تربیت ملی، شکاگو یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی، فرانسس فوکویاما کی والدہ نے جاپان میں کیوٹوکے مقام پر جنم لیا، ان کے والد شیروکاواٹا کیوٹو یونیورسٹی کے اقتصادی شعبہ کے بانی تھے اور اوساکا میونسپل یونیورسٹی کے پہلے صدر تھے۔

فوکویاما نے اپنا بچپن نیویارک میں گزارا۔ کورنل یونیورسٹی سے بیچلر آف آرٹس کی سند لی، ایلن بلوم کی تدریس اور نگرانی میں فلسفہ کی تعلیم حاصل کی ، ہارورڈ سے پی ایچ ڈی کے بعد فوکویاما نے علم دانش اور سیاست وسفارت سے وابستہ نمایاں شخصیات سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا۔

سٹیو وائن برگ اور پال وولفووٹز سے شناسائی ہوئی، اس کتاب میں جیسا کہ قارئین کو معلوم ہوگا وہ صرف سرد جنگ تک محدود نہیں ہوئے، اور مابعد تاریخ پر بحث ہی نہیں کرتے بلکہ تاریخ کے خاتمہ کی بات کرتے ہیں۔ نوع انسانی اور نظریاتی ارتقا ، مغربی لبرل ڈیموکریسی کی اربنائزیشن پر مکالمے کا سلسلہ رواں رکھتے ہیں، اور اس کو وہ ہیومن گورنمنٹ کی آخری شکل قرار دیتے ہیں، فوکویاما کی شہرت ’’ تاریخ کا خاتمہ اور آخری آدمی‘‘ کی اشاعت سے بڑھی،اس کتاب میں انھوں نے یہ نظریہ اور استدلال پیش کیا کہ انسانی تاریخ کی ترقی جو نظریاتی جدوجہد سے شروع ہوئی تھی اب خاتمہ کے قریب ہے۔

یہ ایسی دنیا کی کہانی ہے، جہاں عالمی سماج ایک لبرل ڈیموکریسی کی شکل میں ہے، اور جو سرد جنگ کا منظرنامہ سے معمور ہے،  وہ 1989میں دیوار برلن کا حوالہ دیتے ہیں، فوکویاما نے اپنے نتیجہ ، قیاس اورمستقبل کے امکانات کے ساتھ لبرل ازم کی عالمی فتح کی پیشگوئی کی تھی۔

فوکویاما نے بایولوجیکل سائنسز میں نظریاتی جہتیں تلاش کیں، ان کا کہنا تھا کہ حتمی تجزیہ میں  ایک ایسے ماحول میں سائنس وٹیکنالوجی بذات خود کسی مقصدکو حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں ، بلکہ ان سے ہمارے لیے اخلاقی روایات کے نئے ملبوس تیار ہوئے ہیں اور فوکویاما یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ انفارمیشن عہد کا عطیہ ہے، اور تبدیلی ہے، وہ کہتے ہیں کہ شفٹ نارمل ہے۔ انسان کو جبلی ضرورت کے تحت سوشل اقدار اور قاعدے ملتے ہیں۔ بلاشبہ اپنے ایک مقالے میں انھوں نے جو شہرت حاصل کی۔

فوکویاما کے خیالات اور نظریات کو سیاسی رہنماؤں ، دانشوروں اور سیاسی مفکرین اور مورخین نے دلیرانہ قراردیا ، بعض مبصرین کے مطابق ان کے تاریخ کے خاتمہ کے تصور نے بڑا ہنگامہ برپا کیا، بعض  کے نزدیک ان کی کتاب پروفیسر سیموئل ہنٹنگٹن کی کتاب ’’کلیش آف سولائزیشنز‘‘کے معیار جیسی کاوش ہے، چارلس کراتھیمرنے کہا کہ اب تک تو مغرب کی فتح بظاہر ایک حقیقت ہے مگر فوکویاما نے اسے ایک گہری اوربہت ہی اعلیٰ سطح پر ایک معنویت دے دی۔ اپنی کتاب سے انھوں نے جو شہرت حاصل کی وہ کسی دوسرے کے حصے میں نہیں آئی ، فوکویاما سے اختلاف رائے کا بھی اپنی ایک اہمیت ہے، مکالمہ کا در کھلا ، مغرب میں تاریخ پر بحث ہونے لگی۔

بعض نے اسے ’’مجذوب کی بڑ ‘‘ کہا ، ڈاکٹر مبارک علی کا انداز نظر سامنے آیا، ملکی فلاسفر نے استدلال کے انبار لگا دیے، لیکن اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے فوکویاما کے جو فیڈ بیک ملا ، اس پر بھی یہ کہا گیا کہ واشنگٹن کو اس مرد خرد مند نے بہت کچھ سوچنے پر مجبورکیا۔ فکری حلقوں کے مطابق کتاب کا اختتامیہ جذبات میں ہلچل مچانے والا اور سنجیدگی سے سوچ وبچارکرنے کے قابل کرنا ہے، فوکویاما کے بارے میں کہا گیا کہ اس نے نوع انسانی کے لیے جدوجہد کے موضوع پر دل  جیت لیے، مگر اس سوال  پر بھی غور ہوا کہ یہ چیز انسانیت کی روح کے لیے لازمی نہیں کہ بہتر بھی ہو۔ جارج ایف ول نے کہا کہ فرانسس فوکویاما ایک بڑی روایت کاقابل قدر نمونہ ہیں ، انھوں نے اس موضوع کو ’’چھیڑا‘‘ جسے فرانس کے فلسفی تاکویل نے ’’چھوڑا ‘‘ تھا۔ جہاں وہ اس بات پر حیرت کرتے تھے کہ آیا لبرل ڈیموکریٹک کلچر انسانیت کو بربریت سے، فرسودگی سے ایک کھلی حقیقت کی سطح پر بلند کرتی ہے یا  وہ عدم استحکام پیدا کرتی ہے اور ایکٹیوازم اور تاریخ کے دیگر زخموںاور مصائب کی آفرینش کا سبب بنتی ہے؟

ٹام وولف نے کہا کہ فوکویاما نے نے ایک دلچسپ منظر نامہ اکیسویں صدی کے تناظر میں پیش کیا ہے، ان نظریاتی خیالات اورآئیڈیاز بہت اہمیت کے حامل ہونگے، ارونگ کرسٹل نے تاریخ کا خاتمہ کو اثر انگیز تصنیف قرار دیا، بہترین شاندار تخلیقی کارنامہ ہے، ایلن بلوم کے مطابق فوکویاما نے بتایا کہ ہم کیا تھے۔ کہاں ہیں، اور اہم ترین سوال اٹھاتے ہوئے قیاس آرئی کی کہ ہم آخر کہاں ہونگے؟

کتاب کے مصنف وضاحت ، تخیل اور تاثرات کے ساتھ انتہائی حیران کن انداز میں تاریخی عوامل کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ کتاب میں ان کی سیاسی کمانڈ اور سیاسی حقائق پر ان کی نظر ہمیں ماورائے حیات معاملات پر لے جاتی ہے، بات اخباری روزناموں سے بلند تر ہوتی ہے، وہ صوررتحال کی حقیقی تفہیم تک چلے گئے۔سابق وزیر خارجہ ایڈورڈ شوارناڈزے کا کہنا تھا کہ  فوکویاما کی کوشش مغرب کو مغربی سیاسی خیالات سے آراستہ کرنا ہے، وہ نئے بنیادی تصورات کے ذریعے عملی اقدامات کے لیے تقویت دینا چاہتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک ناکام کوشش نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔