حالیہ سروے میں پاکستانی نظام تعلیم کی خامیوں کی نشاندہی

ستارہ ارشد  جمعـء 21 فروری 2020
41 فیصد بچے بنیادی زبانوں میں سادہ سی کہانی بھی پڑھنے کے قابل نہیں، سروے رپورٹ

۔ فوٹو:فائل

41 فیصد بچے بنیادی زبانوں میں سادہ سی کہانی بھی پڑھنے کے قابل نہیں، سروے رپورٹ ۔ فوٹو:فائل

کراچی: حالیہ شماریاتی رپورٹ (ASER) میں پاکستانی نظام تعلیم پائی جانے والی خامیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ 

حال ہی میں تعلیم کے حوالے سے جاری ایک حالیہ شماریاتی رپورٹ (ASER) میں کہا گیا ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے تعلیم ہمیشہ سے ایک اہم مسئلہ رہا ہے اور اس حوالے سے پائی جانے والی خامیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے کیلیے حکومتی کوششوں اور بین الاقوامی فنڈنگ کے باوجود اس مسئلے کے حل کے بہت کم ہی کچھ ہو پایا ہے، خاص طور پر پاکستان کے دیہی علاقوں میں کہ جہاں تعلیم کا انفرا اسٹرکچر انتہائی ابتر حالت میں ہے۔

یہ رپورٹ ادارہ برائے تعلیم و آگہی نے جاری ہے۔ سروے کے دوران پاکستان کے 155 دیہی جبکہ 20 شہری اضلاع کا جائزہ لیا گیا تاکہ پانچ سے سولہ سال کی عمر کے بچوں میں تعلیمی نتائج کو جانچا جاسکے۔

اس سروے میں اقوام متحدہ کی جانب سے مقرر کردہ ترقی کے اہداف کو بھی پیش نظر رکھا گیا تھا، اور اس سروے میں ادارے سے وابستہ افراد نے منتخب اضلاع میں گھرگھر جا کر سوالات کیے اور اپنی رپورٹ مرتب کی۔

رپورٹ میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ سال 2019 میں سیکھنے اور علم حاصل کرنے کے بہتر ذرائع موجود ہونے کے باوجود ملک کا دیہی علاقہ بحران کا شکار نظر آتا ہے کیونکہ دیہی علاقوں میں پانچویں کلاس جانے والے 41 فیصد بچے بنیادی زبان میں ایک سادہ سی کہانی بھی پڑھنے کے قابل نہیں ہیں یعنی سندھی، اردو اور پشتو زبانوں میں۔ لوئر سیکنڈری اسکولوں میں زیر تعلیم 14 فیصد بچے سادہ کہانی بھی نہیں پڑھ سکتے۔

اس حوالے سے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے نیشنل ایجوکیشن اسسمنٹ سسٹم کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر سید کمال کا کہنا تھا کہ بچوں میں لکھنے اور پڑھنے کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ والدین اور اساتذہ اسکولوں اور گھروں میں مطالعے کا ماحول پیدا کریں۔ سروے کے مطابق پاکستان میں لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکے زیادہ تعلیم حاصل کررہے ہیں اور ان میں شرح خواندگی اور حساب دانی کی صلاحیت بھی لڑکیوں سے بہتر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔