سب گیلی

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین  جمعـء 17 جولائی 2020

ہماری امی جان ہمیشہ بستر پر کھانے پینے سے منع کرتی تھیں کیونکہ ایک تو ’’ہڈ حرامی‘‘ اور دوسرے چادر کا خراب ہونا،اِدھر چائے یا جوس کیا گرا کہ امی کا ایک خاص جملہ دماغ کی رگیں چیرتا ہوا گذر جاتا تھا کہ ’’سب گیلی کردی … بار بار مگر کب تک بدلوں؟ اپنی حرکتیں درست کرو، چادریں تبدیل کرنے سے گدے پر پڑنے والے داغ دُور نہیں ہوتے…کم بخت مارے ’’سب گیلی‘‘ ہوگئی…‘‘ شرمندہ ہوں امی! مگر حال اب بھی کچھ ایسا ہی ہے، اب کی بار دوسروں کو بستر پر کھاتے پیتے دیکھ رہا ہوں،اور یقین جانیے وہ کچھ کھا رہے ہیں جو ہم نے کبھی بچپن سے جوانی اور اب تو خیر اخیر سیڑھیاں آگئی ہیں۔

یہاں تک پہنچتے پہنچتے کبھی کھایا نا پیا، ایسی تبدیلی آئی کہ پھر سے ’’سب گیلی‘‘ ہوگئی یعنی وہی چادر جس میں پاؤں سمیٹیں تو سینے سے اُتر جاتی ہے، سینے تک اوڑھیں تو پاؤں کھل جاتے ہیں‘‘…بھی سوچا نا تھا کہ ایسا بھی ہوگا،میں نے کبھی بُت پرستی کے نظریے کو قابل بحث ہی نہیں سمجھا، جس کی وجہ غالباً عشقِ سیدیﷺ ہی ہے، یا پھر سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے واقعات جہاں ’’آذر‘‘ کے تراشیدہ بتوں کوکھلونوں کی طرح خلیل اللہ نے توڑ ڈالا… البتہ ’’زندہ بُتوں‘‘ کی پرستش کرنے والوں نے اِس قبیح فعل کو عار سمجھا نا عار دلائی…آج صورت حال یہ ہے کہ شخصیت پرستی، فرد کی پوجا اور اختلافِ رائے کو مخالفت سے تعبیر کرنے والوں نے اُن تمام خوابوں کو چکنا چور کر دیا ہے جن  کی شاید کوئی تعبیر ممکن  بھی تھی…

لوٹ کھسوٹ ،چوری چکاری، بدعنوانی، گروہ بندی، سب کچھ ویساہی تو ہے، کیا بدلا؟ صرف  نام؟…کام پُرانے رہیں اور نام بدل جائیں یہ تومنشور نہ تھا،عوام جن کے چہرے تک نہ پہچانتی ہوں وہ غیر منتخب پسندے، منتخب اراکین کے سینوں پردال مونگتے رہیں وہ بھی ’’سب گیلی‘‘ دال تو نتیجہ آخر کیا نکلے گا؟ جھوٹ پہ جھوٹ،غلط بیانیاں، کاذب اُمیدیں، گمراہ دلاسے اور زمینوں پر قبضوں کے پیاسے اردگرد یہی نظر آئیں گے اور آرہے  ہیں،نیب نے جن کے گرد گھیرا تنگ کر رکھا ہے وہ پریس کانفرنسیں کررہے ہیں۔

سندھی ٹوپی پہن کر سندھ دھرتی کے ساتھ دغا کر رہے ہیں، ایک نمبر کے بدمعاش ، جو باقاعدہ ’’مافیا‘‘ ہیں وہ ’’کہیں‘‘ سے ’’معافیاں‘‘ مانگ کر دوبارہ حلیم بیچنا شروع کردیتے ہیں،کراچی کی جنھیں الف بے معلوم نہیں وہ take over  کی باتیں کرتے ہیں اور شہری بے چارے اُسی تکلیف، درد اور ووٹ دینے کے جرم کی سزا بھگت رہے ہیں…

میں کراچی کا بیٹا ہوں، میں اپنے شہرکو سسکتا ، تڑپتا اور شہریوں کو بلکتا نہیں دیکھ سکتا، 24گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ،خستہ حال سڑکیں، اُبلتے گٹر اور بارش کا جگہ جگہ کھڑا پانی ،یقیناً ہم تباہی کے ذمے دار نہیں لیکن ہم خوشحالی لانے کے دعوے دار ضرور تھے…یقیناً ہم نے شہر کو ویران نہیں کیا لیکن ہم تاراج بستیوں کو آباد کرنے کی قسم کھا کر آئے تھے…یقیناً ہم نے گھر نہیں اُجاڑے لیکن کوارٹرز خالی کرانا بھی ہمارا ’’عزم‘‘ نہ تھا…واللہ میں مایوس نہیں! لیکن میں حیران ہوں! میں دانتوں میں انگلیاں دابے جوتوں میں دال بٹتے دیکھ رہا ہوں وہ بھی ’’ سب گیلی‘‘، میں بھلانا بھی چاہوں تو ’’دو نہیں ایک پاکستان‘‘ کا نعرہ نہیں بھلا سکتا… خاتم النبیین پہلے کہنا،تلاوت کے بعد سماعت حدیث پاک کا اہتمام یہ تمام کاوشیں لائق تحسین اور باعث افتخار تو ہوسکتی ہیں لیکن مدنی ریاست کا اِن سے کوئی تعلق نہیں، حدیث سننا ’’سمعنا اطعنا‘‘ کے ساتھ ہے۔

صرف سننا کافی نہیں، اطاعت مرشدی واجب ہے ورنہ توسننے والے مکے میں بوجہل کی طرح منہ اُٹھائے پھرتے تھے لیکن اطاعت کرنے والے قدمین پاک کو دیکھتے دیکھتے سرجھکائے چلتے تھے…میرا نبی، نبی آخرالزماں ہے،اُ س کی ختم نبوت پر کوئی ڈاکا ڈالنے والا ڈاکو کامیاب ہوا ہے نا ہوگا۔ (ان شا اللہ) تاہم نام سے پہلے خاتم النبیین کا اضافہ کرنے والے بھی پیارے ہیں،بہت پیارے اگر وہ پیارے نبیﷺ  کے اصولوں کے مطابق یہ طے کرلیںکہ ’’ اقربا پروری،دوست نوازی اور سنی سنائی باتوں پر فیصلے کرنے کے بجائے اُسی پیارے نبیﷺ کی سنت کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کریں گے جس نے اہل کو سامنے لا کر سکھایا کہ اہلیت کیا ہوتی ہے اور نا اہلوں کے چہرے سورۃ المنافقین میں دکھا کر سب کچھ واضح کردیا۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔