میوٹیشنز اور کورونا وائرس کی نئی اقسام (حصہ سوم)

ڈاکٹر ابراہیم رشید شیرکوٹی  پير 26 جولائی 2021
ابھی تک کورونا کی پانچ چھ ہی تباہ کن اقسام سامنے آچکی ہیں۔ (فوٹو: فائل)

ابھی تک کورونا کی پانچ چھ ہی تباہ کن اقسام سامنے آچکی ہیں۔ (فوٹو: فائل)

گزشتہ دو اقساط میں ہم جینوم میں ہونے والی تبدیلیوں (چاہے وہ انسانوں کا ہو یا وائرس کا) اور ان کے عوامل پر سیر حاصل گفتگو کرچکے ہیں۔ ہم جان چکے ہیں کہ وائرس اور خلیات اپنے جینوم کی نقول اپنی اولاد کو منتقل کرتے ہیں۔ اس دوران جب جینوم کی کاپیاں تیار کی جارہی ہوتی ہیں تو پیش آنے والی غلطیوں کی اگر صحیح اور بروقت نشاندہی نہ کی جاسکے تو یہ غلطیاں میوٹیشنز میں بدل جاتی ہیں۔ انسانوں اور دیگر جانداروں کے پاس ان غلطیوں کو ٹھیک کرنے کے مختلف نظام ہوتے ہیں، جبکہ وائرس کے پاس عمومی طور پر پروف ریڈنگ کی صلاحیت نہیں ہوتی ہے۔

بلاگ کا پہلا حصہ یہاں سے پڑھیے: میوٹیشنز، کورونا وائرس اور ڈارون

میوٹیشن کی شانِ نزول سے اگر تھوڑا آگے بڑھیں تو ایک سوال ہمارا راستہ روکے کھڑا نظر آتا ہے کہ کیا صرف ایک یا چند ہی میوٹیشنز پیدا ہوتی ہیں جو وائرس کو زیادہ خطرناک بناتی ہیں؟ کوئی ایسی میوٹیشن بھی تو ہونی چاہیے جو کہ وائرس کی ہلاکت خیزی اور پھیلاؤ کو کم کرنے کا باعث بن سکے؟

بلاگ کا دوسرا حصہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے:ہم، کورونا وائرس اور میوٹیشنز کا سدِباب (حصہ دوم)

یہ سوال بالکل بجا ہے کیونکہ ہم ابھی تک جان چکے ہیں کہ کوئی بھی میوٹیشن وائرس کی مرضی سے نہیں ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وائرسوں نے کہیں کسی خفیہ مقام پر اپنا جنگی کنٹرول روم بنایا ہوا ہے، جہاں وائرسوں کی فوج کے جنرلز مل بیٹھ کر یہ طے کریں کہ اب ہمیں کون سی میوٹیشن کی ضرورت ہے اور کس ملک میں کون سی قسم کو لانچ کیا جانا چاہیے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ ان تمام میوٹیشنز کے پیچھے پہلے سے کوئی خاص مقصد بھی پوشیدہ نہیں ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ تمام کی تمام میوٹیشنز دانستہ اور جان بوجھ کرنہیں بلکہ محض غلطی ہی ہوتی ہیں، لیکن پھر کیا وجہ ہے کہ سامنے آنے والی ہر نئی میوٹیشن اور قسم، کورونا وائرس کو پہلے سے زیادہ خطرناک کیوں بنادیتی ہے۔

اگر واقعتاً یہ تمام تر میوٹیشنز اتفاقیہ اور حادثاتی طور پر ہی وجود میں آتی ہیں، تو کیوں دنیا بھر میں کورونا وائرس کی کوئی کم خطرناک قسم دریافت نہیں ہوئی ابھی تک۔ کیا ہر بار ہی وائرس کا تکا لگ رہا ہے؟

یہ سب میوٹیشنز تکا ہی ہوتی ہیں، لیکن ایسا تکا کہ کسی تیسری یا چوتھی کلاس کا بچہ غالب اور اقبال کے پائے کا شعر کہہ ڈالے۔ اس بات کو سمجھنے کےلیے آپ کی تھوڑی سی توجہ کا متقاضی ہوں۔ علامہ اقبال کا ایک شعر ہے

نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

اس شعر کے دوسرے مصرعے میں ’نم‘ کا لفظ نکال کر خالی جگہ پر کریں والا سوال بنا کر
’’ذرا … ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی‘‘
ایسے بچوں کو دے دیں جنھوں نے یہ شعر سنا ہی نہ ہو تو آپ کے خیال میں کتنے بچے اس کا درست جواب دیں گے؟ ظاہر سی بات ہے کہ بہت کم یا شاید کوئی بھی نہیں۔ لیکن اگر آپ بچوں کی تعداد بڑھاتے چلے جائیں، ایک کلاس سے دوسری کلاس اور یوں ایک اسکول سے دوسرے اسکول کے تمام بچوں سے اس سوال کا جواب پوچھیں تو اگر کسی کو معلوم نہیں بھی ہوگا جواب تو کسی نہ کسی کا تکا تو لگ ہی جائے گا ناں یا نہیں۔ اگرچہ اس کا امکان بہت کم ہے لیکن صفر تو نہیں ہے ناں؟

وائرس کی مثال بھی ایسی ہی ہے۔ ایک وائرس اپنی ہزارہا اولاد پیدا کرتا ہے اور ان تمام کےلیے وہ اپنے جینوم کی نقول تیار کرتا ہے۔ یہاں علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ ہم اگر وائرس کے جینوم کو یہی مصرعہ تصور کرلیں اور ان نوزائیدہ وائرسوں کو اسکول کے بچے، تو ہم صحیح سے وائرس کی تکا بازی کو سمجھ سکیں گے۔
وائرس کے جینوم میں پورا مصرعہ درج ہے اور نئے وائرسوں کے پاس غلطیاں موجود ہیں، اب عین ممکن ہے کہ کوئی ایک وائرس ’نم‘ کی جگہ غلطی سے ’خم‘ لکھ دے
ذرا خم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

جس سے جینوم میں موجود معلومات اب کسی کام کی نہیں رہیں گی، جیسا کہ اس مصرعے کے مطلب کے ساتھ ہوا ہے۔ اسی طرح ہوسکتا ہے کہ کوئی دوسرا وائرس ’نم‘ کی جگہ ’دُم‘ لکھ دے
ذرا دُم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

اور سارے مصرعے کا بیڑا ہی غرق کردے۔ لیکن یہ بھی تو ممکن ہے کہ کوئی تیسرا وائرس دال پر موجود پیش کو زبر میں بدل دے اور مصرعہ کچھ یوں بن جائے
ذرا دَم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

اصل لفظ تو اب بھی نہیں ہے لیکن خم اور دُم کے مقابلے میں اب مطلب کچھ بہتر ہوگیا ہے، اگر آپ دَم کو ہمت اور حوصلہ کے معنوں میں لیں۔

لیکن وائرس کوئی دو، چار یا پانچ دس نئے وائرس تو نہیں بناتا، بلکہ ہزاروں کی تعداد میں سے کوئی تو ایسا وائرس ہوگا جو کہ یہاں نم کا لفظ استعمال کرے گا ناں، چاہے ہزار میں سے ایک ہو، لاکھ میں سے ایک یا پھر کروڑمیں سے ایک۔

حقیقت یہی ہے کہ چونکہ یہ سارا عمل تکے بازی ہی ہے، اسی لیے ابھی تک پانچ چھ ہی تباہ کن اقسام سامنے آسکی ہیں۔ ان اقسام (برطانوی، برازیلی، جنوبی افریقی یا ڈیلٹا وغیرہ) کے علاوہ اور بھی کئی اقسام ہیں کورونا وائرس کی جن پر سائنسدان کام کررہے ہیں لیکن ان میں ان اقسام جیسی ہلاکت خیزی نہیں ہے، جس کی وجہ سے نہ تو ان کا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں کوئی خاص تذکرہ آتا ہے اور نا ہی سوشل میڈیا پر۔

اس سلسلے کی آخری قسط میں ہم اس سوال کا جواب جاننے کی کوشش کریں گے کہ دیگر تمام اقسام کے ہوتے ہوئے بھی یہ چند مخصوص خطرناک اقسام ہی کیوں زیادہ پھیلتی ہیں۔
(جاری ہے)

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد ابراہیم رشید شیرکوٹی

ڈاکٹر ابراہیم رشید شیرکوٹی

بلاگر مائیکرو بائیولوجی میں پی ایچ ڈی ہیں اور سائنس کے مختلف شعبہ جات میں ہونے والی پیش رفت، تاریخ اور روزمرہ کے واقعات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔