بدانتظامی اور ناقدری، پاکستان میں قلت آب کی اہم وجوہ

ایکسپریس ٹریبیون رپورٹ  پير 20 ستمبر 2021
غیر ملکی کمپنیوں کو پاکستان سے متعلق ڈیٹا تک بلامعاوضہ رسائی نہیں ہونی چاہیے ۔ فوٹو : فائل

غیر ملکی کمپنیوں کو پاکستان سے متعلق ڈیٹا تک بلامعاوضہ رسائی نہیں ہونی چاہیے ۔ فوٹو : فائل

 اسلام آباد: دنیا کے کئی ممالک کی طرح پاکستان کو بھی قلت آب کا سامنا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کو بہت جلد پانی کی شدید قلت سے دوچار ہونا پڑسکتا ہے۔

کچھ تخمینوں کے مطابق 2025ء میں یہاں قلت آب شدت اختیار کرجائے گی۔ 1965ء اوسطاً ہر پاکستانی کے لیے 1165 مکعب میٹر پانی دستیاب تھا۔ یہ اوسط 2017ء میں  265 مکعب میٹر  فی شہری تک گر چکی تھی۔  پاکستان  تازہ  (میٹھے) پانی کا استعمال کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔ پانی کا سب سے زیادہ استعمال زرعی شعبے میں ہوتا  ہے۔

زرعی شعبے  میں پانی کی انتظام کاری کے جدید طریقے اپنائے نہ جانے کی وجہ سے  بیشتر پانی ضایع ہوجاتا ہے۔ گزرے برسوں میں اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود پانی کی انتظام  کاری میں کوئی خاص بہتری نہیں آسکی۔ غالباً  اس کی وجہ  یہ ہے کہ کسان دستیاب  پانی کی قدر نہیں کرتے۔  دوسری بات یہ کہ کیا کسانوں اور شہری علاقوں میں فراہم کیے جانے والے پانی کے عوض حکومت صحیح   قیمت وصول کررہی ہے۔ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

پانی کی قیمت بڑھانے کا فیصلہ سیاسی لحاظ سے سخت ترین ہوسکتا ہے اور سماجی اور دیہی زندگی پر اس کے اثرات بھی مرتب ہوسکتے ہیں مگر اس کے اثرات کو دوسری سبسڈیز کے ذریعے کم کیا جاسکتا  ہے۔  آئیڈیا کاشت کاروں یا زرعی مصنوعات کے صارفین پر بوجھ بڑھانا نہیں بلکہ  پانی کی صحیح قیمت کے ذریعے  تازہ پانی کی قدر کا اندازہ کرنا اور اس کا درست استعمال یقینی بنانا ہے۔

پانی کی طرح پاکستان میں ڈیٹا  کی قدروقیمت پر بھی حکومت توجہ نہیں۔ بڑی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو، جن میں سے کوئی بھی پاکستانی نہیں ہے،   پاکستان میں جنریٹ ہونے والے ہر قسم کے ڈیٹا تک بلامعاوضہ رسائی حاصل ہے۔ ارباب اختیار کو یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکستان سے متعلق ہر قسم کے ڈیٹا کا کنٹرول پاکستان ہی کے پاس ہونا چاہیے اور کسی بھی کمپنی کو بلامعاوضہ ڈیٹا تک رسائی نہیں دی جانی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔