کیسا سنہرا دور تھا۔۔۔۔

علی فیصل عباسی  اتوار 26 ستمبر 2021
آج نہ وہ معیار نہ ہی نئی نسل میں وہ جستجو و طلب دکھائی دیتی ہے۔فوٹو : فائل

آج نہ وہ معیار نہ ہی نئی نسل میں وہ جستجو و طلب دکھائی دیتی ہے۔فوٹو : فائل

الحمدﷲ عمرعزیز 54 بہاریں اور خزائیں دیکھ اور بِتا چکی ہے، اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ بہار کے ساتھ خزاں نہ ہو کہ یہ قوانین فطرت کے منافی ہے۔

اس وقت ایک سرکاری ادارے میں منیجر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہا ہوں۔ سرکار کی نوکری کرتے ہوئے 28 سال ہو چکے۔ میرے شفیق والد گرامی انوار اﷲ عباسی پاکستان آرمی میں سویلین افسر تھے۔ دو تمغۂ جرأت انھیں ان کی پیشہ ورانہ خدمات پر عطا کیے گئے۔ بہت سادہ، بردبار، علم و ادب کے دل دادہ اور صاف گو انسان تھے۔ اﷲ پاک جنت الفردوس میں اعلیٰ درجات عطا فرمائیں۔ (آمین ثمہ آمین)

کچھ مختصر تمہید کے بعد عرض حال یہ ہے کہ 1971 میں سی او ڈی ڈرگ روڈ (موجودہ شاہ راہ فیصل) 75/2 کے مکان میں جو کہ کھپریلوں کے بنے ہوئے (گلابی رنگت لیے) میں رہائش پذیر تھے جب کہ جنگ ستمبر کا آغاز ہوا تھا۔ میری عمر اس وقت لگ بھگ 5 برس رہی ہوگی۔ اس زمانے میں ستمبر کے مہینے میں شدید سردی شروع ہو چکی تھی۔

سی او ڈی کا علاقہ چوں کہ فوج کی چھاؤنی کے علاقے میں شامل اور ہمارا گھر پیچھے صحن اور اطراف کی طرف سے گھنے کیکر کے درختوں اور خود الٹے ہاتھ پر پائیں باغ پر مشتمل تھا، جہاں ہم نے اپنے گھر میں لگے امرود، بیر، جامن، گنّے، بُھٹّے اور جنگل جلیبیاں پیڑ پر چڑھ کر اپنے ہاتھوں سے توڑ کر کھاتے تھے۔ اب آج جب اپنے بچوں کو وہ دور یاد دلاتے ہیں تو وہ سمجھ نہیں سکتے کہ وہ کیا خوب صورت دور اور سہانا زمانہ تھا۔ بہ ہر حال جنگ ستمبر میں سخت سردیوں میں شام کے بعد تمام علاقے کی برقی بتیاں بجھا دی جاتی تھیں حتیٰ کہ ماچس کی ایک تیلی تک جلانے کی ممانعت بہ حکم پاک فوج آچکی تھی۔

جنگ ستمبر غالباً 17 روز رہی تھی اور اسکول و کالج سب بند ہوگئے تھے۔ لوگوں نے اپنے صحنوں اور لان کی جگہ پر خندقیں کھدوالی تھیں کیوں کہ رات کو سائرن کی آواز کے ساتھ ہی سب کو خندقوں میں پناہ لینے کے لیے فوری بھاگنا پڑتا تھا کہ خدشہ ہوتا تھا کہ دشمن کی طرف سے کوئی ہوائی حملہ نہ ہو جائے۔

ایسے میں جب بھاگم بھاگ ابّا ہمارا ہاتھ پکڑ کر اندھیرے میں خندق کی طرف بڑھتے تو گھر میں کبھی ہم کسی دیوار یا پھر سر دروازے سے ٹکرا جاتا جو کہ آج بھی یادوں میں ہیں۔ خندقیں L یا پھر V کے انداز میں کھودی جاتی تھیں۔ رات ہم بچے خندقوں میں سردی کی حالت میں دم سادھے بیٹھے رہتے۔ خندقوں میں مٹی کی سوندھی خوش بُو پھیلی رہتی تھی اور بہت مدھم روشنی میں ہم مشکل سے ایک دوسرے کے چہروں کو پہچان پاتے تھے۔

مقصد تحریر جو یہاں عرض کرنا ہے کہ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب تمام لوگوں، تمام قومیتوں میں مکمل اتحاد، ایکا اور بھائی چارہ قائم ہو گیا تھا۔ سی او ڈی کے محلے میں ہر قومیت و مسلک کے لوگ موجود تھے لیکن ہمیں یاد ہے کہ اس زمانے میں کوئی بھی تعصب، نفرت یا آپس میں فساد اور جھگڑے کا شائبہ تک نہ تھا۔

رات کو ہم کسی خندق میں آکر سو جاتے تو صبح اپنے گھر کے بہ جائے کسی سامنے والے یا اڑوس پڑوس کے گھر میں صبح ہوتی اور ناشتا کسی اور گھر یا پھر اپنے گھر کھانا۔ کوئی تکلف اور بناوٹ نہ تھی۔ سب میں پیار اور بھائی چارگی اور ایک دوسرے کا احساس و مروت عام تھا۔ وہ دور اور اس دور کی سنہری یادیں بہت دل فریب و خوب صورت ہیں۔

ٹی وی محلے میں دو چار گھروں میں وہ بھی بلیک اینڈ وائٹ جہاں باقاعدہ ہفتے میں ایک روز پاکستانی فلم کے دیکھنے کے لیے خواتین دوپہر کا کھانا وغیرہ جلد ہی بنا کر شام کے لیے تیاری کرلیتی تھیں اور پھر سامنے غالباً مرحوم زیدی صاحب کے گھر میں ٹی وی والے کمرے میں ٹی وی کے بالکل سامنے ترپال بچھا کر بچوں کو بٹھایا جاتا ان کے پیچھے مرد و بڑے لڑکے اور سب سے پیچھے خواتین بیٹھ کر وہ پاکستانی فلمیں دیکھتیں جو بہت بڑی تفریح شمار ہوتی۔

اسی طرح فریج بھی محلے میں دو چار گھروں میں ہی تھا اور محلہ جو کہ سڑک کے دونوں اطراف لائن سے بیرک اور گلابی کھپریلوں والے مکانات پر مشتمل تھا تقریباً ہر رو میں کوئی 12 کے قریب مکانات یعنی ٹوٹل 24 کے قریب یہ سنگل اسٹوری تھے اور ڈبل اسٹوری مین روڈ کراس کرکے دوسری جانب تھے۔ ہم اپنے پڑوس سے برف لے کر اسے کبھی استعمال کرتے تھے۔ ویسے جس گھر میں مٹکا تھا اور گھڑونچی پر ٹکا اس کی سوندھی مٹی والے پانی کی لذت برف والے پانی سے کہیں بہتر اور مفید تھی۔

ہمارے گھر میں بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی 1979 میں آیا تو ہم بار بار ٹی وی کو جا کر اور چھو کر دیکھتے کہ ہمارے گھر ٹی وی آگیا ہے۔ آج موجودہ نسل بہ شمول اپنے بچوں کو دیکھتے ہیں تو ہر طرح کی آسائشات اور نعمتوں کے باوجود ان میں نہ اس طرح شکر ہے نہ طبیعت میں خوشی و سرشاری۔ وہ خالص دور تھا، خالص غذا و خالص لوگ۔ ان بزرگوں میں اپنائیت، تنبیہ، ڈانٹ و ہدایت اور تربیت میں سب حقیقت، احساس اور انسانیت پر مبنی تھی۔ محلے کا کوئی بھی بڑا اپنے چھوٹے کی کسی غلط حرکت یا عادت پر اسے ڈانٹ سکتا تھا جب کہ آج ایسا ہونا مشکل ہے۔

لوگوں میں سادگی، سادہ غذا، سادہ لباس عام تھا۔ زیادہ تر کوئی ایک سبزی بن گئی یا پھر دودھ میں روٹی ڈال کر کھالی۔ مرغی شاذ و نادر بنتی جب کوئی مہمان گھر آتا۔ گھروں میں لوگوں نے سبزی، ترکاری وغیرہ لگائی ہوئی تھی جو تازہ تازہ توڑ کر پکالی جاتی، جن کا ذائقہ الگ ہی ہوتا۔ دھنیا اگر گوشت میں ڈالا جاتا تھا تو باہر تک دھنیا کی خوش بُو پھیل جاتی۔ اسی طرح چائے کی پتی ڈالنے سے چار سو سہانی خوش بُو پھیل جاتی، دودھ محلے کے باڑے سے آتا۔ دودھ کے اوپر بالائی کی تہہ چڑھ جاتی اور اس دودھ کی لذت و ذائقے سے وہی واقف ہوں گے جنھوں نے باڑے سے خود برتن میں جاکر دودھ لیا ہے۔ نہ کوئی کیمیکل نہ ہی کوئی پانی ڈالنے کا رجحان تھا۔

لوگوں یہاں تک کہ اس وقت کے بچوں تک میں شکر و استغناء موجود تھا کہ اگر چپل ٹوٹ جاتی تو ایک بار نہیں بل کہ کئی بار اسے جڑوا کر پہن لیتے تھے۔ جوتا اور نئے کپڑے عید و بقر عید پر بنتے عام طور پر بہت کم لیکن ہم اسی میں بہت خوش ہو جاتے اور عید سے کچھ ہفتے تک نئے کپڑوں و چمکتے جوتوں کو بار بار جا کر چھوتے اور دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ یہ شکر گزاری، توکل اور استغناء نہیں تو کیا تھا ۔۔۔ ؟

اس دور کے یادگار ڈرامے آج بھی کلاسیکل اور امر ہو چکے جن سے اس دور میں لوگوں کی اصلاح اور تربیت کا کام لیا گیا۔ بچپن و لڑکپن میں ہی ہم اشفاق احمد، بانو قدسیہ، ڈاکٹر انور سجاد صاحب کے فلسفیانہ ڈرامے ناصرف دیکھتے بل کہ سمجھتے اور اسے عملاً محسوس کرتے تھے۔

آج نہ وہ معیار نہ ہی نئی نسل میں وہ جستجو و طلب دکھائی دیتی ہے۔ وہ اس دور میں گھروں میں مہمانوں بل کہ قریبی رشتے داروں کا آکر ہفتوں بلاتکلف رہنا۔ وہ شادیوں پر خوب گہماگہمی و رونقیں، جھنڈیوں اور ٹینٹ میں شادیوں کا ہونا لکڑیوں کے ایندھن پر شادی کا کھانا تیار ہونا جس کی خوش بُو کچھ دن برقرار رہتی تھی۔ یہ اور اس طرح کی ان گنت یادیں ہیں کہ جن کو آج یاد کرکے ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم وہ خوش قسمت نسل ہیں کہ جنھوں نے وہ دل فریب و خوب صورت زمانہ دیکھا جس سے آج نئی نسل نابلد ہے، دل چاہتا ہے کہ کاش وہ زمانہ وہ دور پھر لوٹ آئے۔

لیکن ایسا کہاں ممکن۔ یہاں یاد ماضی و دل کے پھپھولے پھوڑنے کا مقصد یہی تھا کہ ہم یار لوگ جو اس زمانے کے چشم دید گواہ ہیں پچھلی حسین یادوں کو کچھ دیر یاد کرکے محظوظ ہو سکیں اور اگر کوئی نئی نسل کے لوگ اور نوجوان اسے پڑھیں تو محسوس کرسکیں کہ کم وسائل اور آسائشات کے باوجود وہ زمانہ کتنا خوب صورت، خوش حال اور دل فریب تھا۔

اچھی کتابوں کا جمع کرنا، سکے جمع کرنا، مختلف ممالک کے ٹکٹ جمع کرنا، گھر میں کرائے پر کتابیں دینے کے لیے لائبریری کا بنانا، مواقع کی مناسبت سے کھیل کھیلنا جیسے لوڈو، کیرم، برف پانی، پٹھو گرم، کھو کھو، اونچ نیچ، کوڑا جمال شاہی، لنگڑی پالا، چھپن چھپائی، لڑکیوں کا گیٹے اور پہل دوج کھیلنا۔ اسی طرح کبھی کرکٹ، کبھی ہاکی یا پھر فٹ بال وہ بھی گراؤنڈ اور میدانوں میں جا کر کھیلنا۔ ہفتے میں کسی انگریزی فلم اور ڈرامےsix million doller manٔ star sky and hauch,lucyshow. kojak.  وغیرہ کا بے تابی سے انتظار کرنا یہ وہ یادیں ہیں کہ جنھیں وہی سمجھ سکتا ہے جس نے وہ دور بہ چشم خود دیکھا ہے۔

اس وقت کے بزرگ کیا زندگی کے تجربے اور مشاہدے رکھنے والے تھے۔ معاشرے سے یہ چیزیں رفتہ رفتہ دور ہوتی گئیں اور ہم ایک پرامن، مہذب اور ٹھہراؤ والے معاشرے سے افراتفری، بے ہنگم اور مادہ پرست معاشرے کی طرف چل پڑے۔ کاش ہم کچھ سوچ سکیں، کاش ہم سمجھ سکیں۔

گزرے ایام کو پلٹ کر جب کبھی دیکھتا ہوں

سوچتا ہوں اور ہاتھ مل کر بس رہ جاتا ہوں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔