- پختونخوا سے پنجاب میں داخل ہونے والے دو دہشت گرد سی ٹی ڈی سے مقابلے میں ہلاک
- پاکستان میں مذہبی سیاحت کے وسیع امکانات موجود ہیں، آصف زرداری
- دنیا کی کوئی بھی طاقت پاک ایران تاریخی تعلقات کو متاثر نہیں کرسکتی، ایرانی صدر
- خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نمائندوں کا اختیارات نہ ملنے پراحتجاج کا اعلان
- پشین؛ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں3 دہشت گرد ہلاک، ایک زخمی حالت میں گرفتار
- لاپتہ کرنے والوں کا تعین بہت مشکل ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان
- سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کو سزا سنانے والے جج کے تبادلے کی سفارش
- فافن کی ضمنی انتخابات پر رپورٹ،‘ووٹوں کی گنتی بڑی حد تک مناسب طریقہ کار پر تھی’
- بلوچستان کے علاقے نانی مندر میں نایاب فارسی تیندوا دیکھا گیا
- اسلام آباد ہائیکورٹ کا عدالتی امور میں مداخلت پر ادارہ جاتی ردعمل دینے کا فیصلہ
- عوام کو ٹیکسز دینے پڑیں گے، اب اس کے بغیر گزارہ نہیں، وفاقی وزیرخزانہ
- امریکا نے ایران کیساتھ تجارتی معاہدے کرنے والوں کو خبردار کردیا
- قومی اسمبلی میں دوران اجلاس بجلی کا بریک ڈاؤن، ایوان تاریکی میں ڈوب گیا
- سوئی سدرن کے ہزاروں ملازمین کو ریگولرائز کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد
- بہیمانہ قتل؛ بی جے پی رہنما کے بیٹے نے والدین اور بھائی کی سپاری دی تھی
- دوست کو گاڑی سے باندھ کر گاڑی چلانے کی ویڈیو وائرل، صارفین کی تنقید
- سائنس دانوں کا پانچ کروڑ سورج سے زیادہ طاقتور دھماکوں کا مشاہدہ
- چھوٹے بچوں کے ناخن باقاعدگی سے نہ کاٹنے کے نقصانات
- ایرانی صدر کا دورہ کراچی، کل صبح 8 بجے تک موبائل سروس معطل رہے گی
- ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کراچی پہنچ گئے، مزار قائد پر حاضری
غذا میں کیمیائی اجزا اور آلودگی معلوم کرنے والا اسمارٹ فون سینسر
ہالینڈ: سائنسدانوں نے ایک وسیع انفراریڈ سینسر کو اتنا مختصر کردیا ہے جو اسمارٹ فون میں لگاکر صنعتی، غذائی اور زرعی جانچ کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
نیچرکمیونکیشن میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق اسے بنانا بہت آسان ہے جو پلاسٹک اور دودھ وغیرہ میں کیمیائی اجزا کی فوری شناخت کرلیتا ہے۔
ہماری آنکھ کے خلیات ہمیں غذا کے بارے میں خوب احساس دیتےہیں۔ اسٹرابری کا سرخ رنگ بتاتا ہے کہ یہ کھانے کے لیے تیار ہے جبکہ سبز اسٹرابری کچی ہوتی ہے۔ لیکن انسانی آنکھ کی اپنی حدود ہیں اور ہم بالائے بنفشی (الٹراوائلٹ) یا زیریں سرخ (انفراریڈ) نہیں دیکھ سکتے۔ اگر ہم یہ روشنیاں دیکھ سکیں تو ہم بہت سے آلودگیوں کو دیکھ سکتے ہیں۔
آئنڈہوون یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں پی ایچ ڈی کی طالبہ کیلی ہیکل اور ان کے ساتھیوں نے یہ جدید سینسر بنایا ہے جو عام فون میں سماسکتا ہے۔ اسے مینٹس شرمپ نامی سمندری جانور کی آنکھ سے متاثر ہوکر تیار کیا گیا ہے جو فوری طور پر انفراریڈ اور دیگر ایسی روشنیوں کو دکھاتا ہے جو انسانی آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔
یہ سینسر بہت جدید، تیاری میں آسان اور انتہائی کم قیمت کا حامل بھی ہے۔ لیکن اس پر مسلسل کئی برس سے تحقیق جاری تھی۔ اس کی تیاری ’مینٹی اسپیکٹرا‘ نامی اسٹارٹ اپ نے کی ہے۔ روایتی اسپیکٹرومیٹر کے مقابلے میں یہ بہت مؤثر انداز میں دودھ میں آلودگی اور چکنائیوں کا سراغ لگاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف اقسام کے پلاسٹک کی شناخت بھی کرسکتا ہے۔
مینٹی اسپیکٹرا کو زراعت، پروسیس کنٹرول یا پھر دیگر امور میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً اس سے پھلوں کے پکنے اور غذائیت کا احساس کیا جاسکتا ہے۔ سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ اسے بہت آسانی سے ایک اسمارٹ فون میں رکھا جاسکتا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔