- عمران خان لانگ مارچ اور توڑپھوڑ کے 2 کیسز میں بری
- پارک لین ریفرنس سماعت؛ آصف زرداری کو اب صدارتی استثنیٰ حاصل ہے، وکلا
- انسداد انتہا پسندی؛ پولیس نے 462 سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کروا دیے
- خواتین کے حقوق کا بہانہ؛ آسٹریلیا کا افغانستان سے سیریز کھیلنے سے انکار
- کراچی؛ ایل پی جی کی دکان پر افطار کے وقت ڈکیتی، فوٹیج سامنے آ گئی
- پی ٹی آئی کا اسلام آباد میں جلسے کیلیے ہائیکورٹ سے رجوع
- پاک فوج میں بھرتی کیپٹن سمیت افغان شہریوں کو برطرف کیا گیا، وزیر دفاع
- الشفا اسپتال پر اسرائیلی حملے میں غزہ کے پولیس چیف شہید
- حماس سے لڑائی میں ایک اور اسرائیلی فوجی ہلاک؛ مجموعی تعداد 250 ہوگئی
- پی ایس ایل9 فائنل؛ عماد وسیم نے کیا تاریخ رقم کی؟
- پی ایس ایل9؛ شاداب نے اہلیہ کو ایوارڈ، ماں کو میڈل دے دیا
- 5 ہزار ایکڑ پر چارے کی کاشت، سعودی کمپنی سے معاہدہ
- بجلی 5روپے فی یونٹ مہنگی ہونے کا امکان
- ڈیجیٹل ذرائع سے قرض، ایس ای سی پی نے گائیڈ لائنز جاری کر دیں
- موبائل کی درآمدات میں 156 فیصد اضافہ
- ایچ بی ایف سی نے عوام کو سستے تعمیراتی قرضوں کی فراہمی بند کردی
- حسن اور حسین نواز کی بریت کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ
- مفت راشن اسکیم؛ عوام کی عزت نفس کا بھی خیال کیجیے
- مشفیق الرحیم، انجیلو میتھیوز کے ٹائم آؤٹ کا مذاق اڑانے لگے
- کراچی میں سی ٹی ڈی کی کارروائی، ٹی ٹی پی کا اہم دہشتگرد گرفتار
یہ تصاویر، گوگل کے ٹیکسٹ سے امیج پروگرام نے خود بنائی ہیں
سان فرانسسكو: اوپر جتنی بھی تصاویر دکھائی دے رہی ہیں وہ حقیقی نہیں بلکہ مصنوعی ذہانت نے لکھے ہوئے الفاظ سے انہیں تیار کیا ہے۔ اسے ٹیکسٹ ٹو امیج جنریٹر کا نیا شاخسانہ کہا جاسکتا ہے۔ یعنی آب جو کچھ لکھیں گے اسی مناسبت سے ایک تصویر سامنے آجائے گی۔
اگرچہ اس کے کمرشل اور مہنگے سافٹ ویئر موجود ہیں تاہم گوگل نے اس ضمن میں خود اپنا سافٹ ویئر بنایا ہے جو کمرشل DALL-E پروگرام کا ہم پلہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
تصاویر کے لیے بس اتنا کرنا ہے کہ ٹیکسٹ باکس میں کچھ لکھیں اور یوں اسے دیکھ کر سافٹ ویئر ایک بہترین تصویر بنا دے گا۔ اس طرح سی جی آئی، عام تصویر اور آئل پینٹنگ کی صورت میں بھی تصاویر حاصل کی جاسکتی ہیں۔
گوگل نے گزشتہ ماہ اس پروگرام کا باضابطہ اعلان کیا تھا اور اب یہ زبردست تصاویر بنا رہا ہے۔ گوگل کا اے آئی ماڈل انتہائی خوبصورت اور اعلیٰ معیار کی تصاویر تیار کرتا ہے۔ اس سے قبل دیگر پروگراموں میں ٹیکسٹ سے بننے والی تصاویر بے ہنگم، بھدی اور دھندلی بن رہی تھیں۔
گوگل نے اپنے پروگرام کا نام Imagen رکھا ہے ۔ تحقیقی ٹیم نے 200 کے قریب تصاویر کے انتہائی بنیادی اجزا معلوم کئے ہیں اور انہیں سافٹ ویئر میں شامل کیا ہے۔ اس کے بعد ماہرین نے ٹیکسٹ سے بننے والی تصاویر کے معیار کا جائزہ لیا اور اس ردِ عمل کو بھی سافٹ ویئر میں شامل کیا۔ اس سے الگورتھم مزید بہتر ہوگیا اور تصاویر اچھی سے مزید بہتر بننے لگیں۔
تاہم گوگل اسے عام افراد کے لیے پیش نہیں کرنا چاہتا۔ اس کی وجہ جعلی خبروں، افواہوں، اور لوگوں کی فرضی تصاویر سے بچنا ہے۔ انٹرنیٹ پر پہلے ہی جعلی تصاویر کی بھرمار ہے جو عوام اور اداروں کے لیے دردِ سر بنی ہوئی ہیں۔
تاہم اس کی پشت پر تصاویر کا ایک عظیم ڈیٹا بیس بھی موجود ہے جسے دیکھ کر اے آئی پروگرام کو تربیت دی گئی ہے۔ ماہرین نے ٹیکسٹ سے تصاویر بنانے والے تمام سافٹ ویئر میں ایک اور مسئلہ دیکھا۔ جب فلائٹ اٹینڈنٹ لکھا گیا تو ساری تصاویر خواتین کی تھیں حالانکہ مرد بھی فضائی میزبان ہوتے ہیں۔ اسی طرح جب سی ای او لکھا گیا تو سفید فام افراد کی تصاویر سامنے آئی لیکن کسی جاپانی، افریقی اور چینی سی ای او کا عکس سامنے نہ آسکا۔
اسی لگے بندھے ضوابط سے بچنے کے لیے گوگل نے بطورِ خاص بہت کوشش کرکے پروگرام سے تعصب کا خاتمہ کیا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔