ملکی بحران اور ممکنہ نتائج

سلمان عابد  منگل 4 اکتوبر 2022
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

بظاہر ہم پاکستان کے بحران کو ایک بڑے سیاسی اور معاشی بحران کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ لیکن یہ بحران محض سیاسی اور معاشی نہیں بلکہ مجموعی طور پر ایک بڑے ریاستی بحران کی عکاسی بھی کرتا ہے ۔

کیونکہ جب جمہوریت اور ریاستی اداروں کے درمیان بداعتمادی یا ٹکراؤ کی سیاست نمایاں ہو تو بحران کی سنگینی اور زیادہ حساس ہوجاتی ہے۔ لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز معاملات کی حساسیت اور سنگینی کو محسوس کرنے کے لیے تیار نہیں ۔

اس وقت تمام فریقین کے سامنے ملک سمیت شہریوں کے مفادات سے زیادہ ذاتی مفادات یا پسند و ناپسند کی بنیاد پر فیصلہ سازی کا غلبہ ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ محسوس یہ ہوتا ہے کہ ہم مجموعی طور پر مسائل کے حل کرنے کے بجائے مسائل میں مزید بگاڑ پیدا کرنے کے کھیل کا حصہ بن گئے ہیں۔ جب سیاست ، جمہوریت اور فیصلہ سازی کا عمل بند گلی میں داخل ہوجائے تو اس کے نتیجہ میں مزید بدامنی اور انتشار پر مبنی سیاست ہی جنم لیتی ہے ۔

قومی بحران کی ایک بڑی وجہ تمام فریقین کی جانب سے اپنے اپنے سیاسی اور آئینی دائرہ کار سے باہر نکل کر کھیلنے کی عادت ہے اور یہ ہمارے قومی مزاج کا حصہ بن گیا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ تمام فریقین اول تو یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ ہم کریز سے باہر نکل کر یا سرخ بتی کو کراس کرکے کھیل کو بگاڑ رہے ہیں۔

دوئم، ہم یہ بھی ماننے کے لیے تیار نہیں کہ اس قومی ریاستی بحران میں ہم بھی برابر کے یا کم یا زیادہ حصہ دار ہیں ۔ دوسروں پر الزام عائد کرکے خود کو بچانے کی کوشش سے ہی مزید بگاڑ بھی پیدا ہوتا ہے اور مسئلہ کا حل بھی پس پشت چلا جاتا ہے ۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا مجموعی حکومتی یا جمہوری نظام اصلاحات کی کنجی کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں اور جو اصلاحات کی جارہی ہیں اس میں خود کو فوقیت دے کر ریاستی مفاد کو قربان کیا جارہا ہے ۔اسی طرح سیاسی مہم جوئی کا کھیل بھی عروج پر ہے ۔

ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے دوبارہ بڑی شدت کے ساتھ ان ہی غلطیوں کو دوہرا کر خود ہی بحران کے ذمے دار بھی ہیں ۔اس وقت سیاست اور جمہوریت کا مذاق بڑی شدت کے ساتھ موجود ہے۔ آڈیو لیکس کے معاملات کو ہی دیکھ لیں سوائے سیاسی شرمندگی کے کچھ نہیں اور یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ ہم ریاستی محاذ پر بھی ایک غیر محفوظ ریاست کے طور پر خود کو پیش کررہے ہیں۔

جہاں کچھ بھی محفوظ نہیں۔ سب سے بڑھ کر ہم ہر مسئلہ اور بحران پر ایک دوسرے کے خلاف سیاسی اسکورز کرکے برتری کی جنگ میں اپنی جیت کو ممکن بنانا چاہتے ہیں اور اس کھیل میں اگر ریاستی مفاد بھی قربان ہوتا ہے تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ۔ جب ہم داخلی سیاست کے مسائل میں ہی الجھ کر رہ گئے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ دست وگربیان کی کیفیت میں ہیں تو ایسے میں علاقائی اور عالمی سطح پر مثبت امکانات کی جنگ کیسے جیت سکتے ہیں۔

ہم تو خود کو ایک بڑے سیاسی تماشہ کے طور پر داخلی اور خارجی دونوں محاذ پر پیش کررہے ہیں اور ایسے میں عالمی یا علاقائی ممالک کی دنیا کیونکر ہمارے ساتھ کھڑی ہوگی۔ عالمی اور علاقائی سازشوں کا مقابلہ ہم اسی صورت میں کرسکتے ہیں جب ہم خود کو داخلی سازشوں سے علیحدہ رکھیں اور مل جل کر داخلی سازشوں کا مقابلہ کریں وگرنہ داخلی اور خارجی سطح کی سازشوں سے مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

ہم یہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ ہمیں ایک بڑی سرجری کے طور پر اپنے مجموعی نظام میں اصلاحات کی بنیاد پر بڑی تبدیلی لانی ہے اور یہ ناگزیر ہوچکی ہے۔ کیونکہ ہم نے اپنے سیاسی فیصلوں کی بنیاد پر جو حال اداروں کی تباہی کی صورت میں کیا ہے وہاں خود مختار اداروں کی بحث بہت پیچھے چلی گئی ہے ۔ اداروں کی خود مختاری اور بالادستی یا ان کو قانون کی حکمرانی کے تابع کرکے ہی ہم اپنے لیے آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرسکتے ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں اپنی اپنی سیاسی اناپرستی اور ذاتی مفاد پرستی کی سیاست سے باہر نکلنا ہوگا۔

وگرنہ سیاسی آنکھ مچولی اور مہم جوئی کا یہ کھیل پہلے سے موجود بگاڑ میں اور زیادہ اضافہ کا سبب بنے گا۔ ایک طرف عالمی اور علاقائی مسائل ہیں تو دوسری طرف ملک میں موجود حکمرانی کا بحران عام لوگوں کی زندگیوں میں مشکل پیدا کررہا ہے جو مجموعی طور پر ریاستی، حکومتی ، ادارہ جاتی نظام اور شہریوں کے درمیان بداعتمادی اور لاتعلقی کے منظر کو پیدا کررہا ہے ۔

عوامی مفادات کو بنیاد بنا کر سیاست، جمہوریت اور معیشت سمیت سیکیورٹی کا عمل کمزور ہے اور یہ ہی عمل لو گوں کو تنہا بھی کررہا ہے ۔ جب سیاست اور جمہوریت کا عمل طاقت کی حکمرانی کے گرد گھومے گا تو اس کا نتیجہ عام آدمی کے استحصال کی صورت میں ہی نمودار ہوگا۔یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم ریاست اور حکومتی نظام پر ایک بڑے سیاسی دباؤ کی سیاست کو پیدا ہی نہیں کرسکے ۔لوگوں میں غم و غصہ کو ایک پرامن سیاسی جدوجہد یا ایک بڑی موثر تبدیلی کے عمل سے نہیں جوڑا جاسکا ۔

اسی طرح ہم باہر کے ممالک سے تو بہت امیدیں لگاتے ہیں کہ وہ ہماری مدد کریں لیکن ہم خود اپنی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی دنیا کے تجربات سے کچھ سیکھنے کے لیے تیار ہیں کہ مثبت تبدیلی کے عمل میں ان کی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کیا تھی اور کیسے ہم ان سے سیکھ کر خودکو بہتر بناسکتے ہیں ۔اس وقت تو مسئلہ یہ ہے کہ حکومت حزب اختلاف پر اور حزب اختلاف حکومت پر برتری حاصل کرنا چاہتی ہے ۔

اس کے لیے طاقت کے تمام حربے اختیار کیے جارہے ہیں اور ملک محاذ آرائی یا ٹکراؤ کی سیاست کی جانب بڑھ رہا ہے ۔اس کے ذمے دار کوئی ایک فریق نہیں ہم سب اس بحران کے ذمے دار ہیں کیونکہ ہم ملک میں ایک ذمے دار ریاست، حکومت اور معاشرے کی ترتیب کو ممکن بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ نئی نسل کے سامنے امید کے پہلو کم اور مایوسی کے بادل زیادہ ہیں۔

ایسی غیر یقینی سیاست ، جمہوریت اور معیشت کی موجودگی میں بہتری کا عمل کیسے شروع ہوگا اور کون شروع کرے گا خود ایک بڑا سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ لوگو ں کے پاس سوالات ہیں مگر ان سوالوں کے جواب دینے کے بجائے قومی سیاست اور ریاست کو جذباتیت پر مبنی نعروں کے ساتھ چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اسی طرح جو لوگ مسائل کا حل چاہتے ہیں یا ان کے پاس مسائل کا حل موجود ہے تو ان کو قومی سطح پر ایک ریاستی و حکومتی اداروں کی جانب سے ایک بڑی سیاسی تنہائی کا سامنا ہے۔

ان کی نہ تو کوئی سننے والا ہے اور نہ ہی ان کو بٹھا کر کوئی بات کرنے والا ہے ۔ جب ملک کو سیاسی بونوں اور غیر سیاسی یا غیر پروفیشنل لوگوں کی مدد سے ملک کو چلانے کی کوشش کی جائے گی جہاں اقرباپروری یا ذاتی خاندانی دوستی کا غلبہ ہو وہاں معاشرے بہتر ی کی جانب نہیں بڑھ پاتے۔ اس لیے اگر آج ہم آگے نہیں بڑھ رہے تو ہمیں خود ہی اپنے معاملات کا درست انداز میں تجزیہ کرنا ہوگاکہ ہم اس مقام پر کیسے پہنچے ہیں اور کیسے اس مقام سے باہر نکل کر اپنے لیے ایک محفوظ ترقی کا راستہ تلاش کرسکیں گے جو ریاستی مفاد کی عکاسی بھی کرتا ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔