سندھ میں سیلاب سے 60 فیصد اسکول متاثر؛ 13 ہزار مکمل تباہ اور 15 ہزار جزوی متاثر

صفدر رضوی  جمعـء 7 اکتوبر 2022
—فائل فوٹو

—فائل فوٹو

کراچی: محکمہ اسکول ایجوکیشن کی رپورٹ کے مطابق بارشیں اور سیلاب سے مجموعی طور پر صوبہ سندھ میں 60 فیصد اسکول متاثر ہوئے ہیں جن میں 13 ہزار مکمل تباہ اور 15 ہزار سے زائد جزوی متاثر ہوئے ہیں۔ 

فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق سندھ کے 6 مختلف ریجنز میں سیلاب سے آنے والی تباہی کے سبب متاثرہ سرکاری اسکولوں کی صورتحال و اعداد و شمار سامنے آگئے ہیں اور محکمہ اسکول ایجوکیشن سندھ کی جانب سے اپنے فیلڈ افسران کے تحت کرائے گئے۔

سروے کے مطابق سندھ کے مجموعی 49 ہزار سے زائد سرکاری اسکولوں کی عمارتوں میں سے 60 فیصد سے زائد اسکول بارشوں اور سیلاب سے متاثر ہوکر فوری استعمال کے قابل نہیں رہے ہیں جبکہ 27 فیصد ایسے اسکول ہیں جو مکمل طور پر تباہ ہوکر ناقابل استعمال ہوچکے ہیں اور ان میں تدریسی عمل شروع نہیں ہو پائے گا جبکہ 31 فیصد سے زائد اسکول جزوی متاثر ہیں۔

محکمہ اسکول ایجوکیشن سندھ کے مطابق جو اسکول مکمل طور پر متاثر یا تباہ ہوئے ہیں ان میں سے اکثر کی چھتیں اور ستون گر چکے ہیں چار دیواری گری ہوئی ہے انفرااسٹریکچر کے ساتھ ساتھ فرنیچر کو نقصان پہنچا جبکہ اسکول کے اندر طلبہ کی رسائی بھی ممکن نہیں رہی۔

محکمہ اسکول ایجوکیشن سندھ سے حاصل اعداد و شمار کے مطابق 49 ہزار 446 سرکاری اسکولوں کی عمارتوں میں سے 29278 عمارتیں سیلاب سے متاثر ہوئی ہیں ان عمارتوں میں 15800 عمارتیں جزوی جبکہ 13478 عمارتیں مکمل طور پر ناقابل استعمال یا تباہ ہوچکی ہیں اور قابل تدریس نہیں ہیں۔

ان اعداد و شمار کے مطابق سندھ میں سرکاری اسکولوں کی قائم 49 ہزار سے زائد اسکولوں میں سب سے زائد سکھر ریجن کے ساڑھے 4 ہزار متاثرہ اسکول ہیں جن میں 1500 اسکول مکمل تباہ ہوچکے ہیں جبکہ 3ہزار جزوی متاثر ہیں، سکھر ریجن کے کل اسکولوں کی تعداد 7139 ہے جزوی و مکمل تباہ ہونے والے اسکولوں میں کراچی ریجن کے سرکاری اسکول بھی شامل ہیں۔

محکمہ کے مطابق کراچی کے مجموعی 3041 سرکاری اسکولوں میں سے 2078 اسکول متاثر ہیں ان میں 1100 جزوی جبکہ 978 مکمل طور پر تدریس کے لیے ناقابل استعمال قرار دیے گئے ہیں محکمہ تعلیم کے مطابق کراچی کے متاثرہ اسکولوں میں ملیر، گڈاپ اور ابراہیم حیدری کے اسکول شامل ہیں۔

ادھر حکومت سندھ نے فی الحال اسکولوں کی عمارتیں ناقابل استعمال ہونے کے بعد کیمپ اسکولوں پر کام شروع کیا ہے تاہم یہ کام ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور بڑے پیمانے پر اندرون سندھ کے طلبہ کا تعلیمی سلسلہ رک گیا ہے جس کا متبادل تلاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاہم اس کے لیے اساتذہ کو بھی ان عارضی کیمپوں تک پہنچانا ہوگا جبکہ دوسرا بڑا چیلنج سیلاب کے سبب درسی کتابوں کی عدم دستیابی بھی ہے اور متاثرین کے گھر کی دیگر اشیاء کے ساتھ ساتھ درسی کتابیں بھی سیلاب کی تباہ کاری کی نذر ہوگئی ہیں۔
واضح رہے کہ سندھ میں جن 49 ہزار سرکاری اسکولوں کی عمارتیں کو اعداد و شمار میں شامل کیا گیا ہے ان میں 5 ہزار سے زائد کی عمارتیں پہلے ہی نان فنکشنل تھی اور یہاں تدریسی سلسلہ جاری ہیں تھا بلکہ خالی عمارتیں تھیں مزید براں حیدرآباد ریجن میں متاثرہ اسکول کی مجموعی تعداد 10900 ہے جن میں سے 6900 مکمل تباہ اور 4ہزار جزوی متاثر ہیں حیدرآباد کے کل اسکولوں کی تعداد 13419 ہے اسی طرح سندھ کے ایک اور ریجن میرپور خاص میں متاثر اسکول 7200 ہیں ان میں 3 ہزار مکمل تباہ اور 4200 جزوی متاثر ہیں۔

اس ریجن کے کل اسکول 9433 ہیں لاڑکانہ میں 3200 اسکول بارش اور سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں ان میں 700 مکمل تباہ اور 2500 جزوی متاثر ہیں لاڑکانہ میں کل 7662 سرکاری اسکول ہیں علاوہ ازیں محکمے کی جانب سے کیے گئے سروے کے مطابق شہید بینظیر آباد 1400 سرکاری اسکول متاثر ہیں ان میں 400 اسکول مکمل اور 1 ہزار جزوی متاثر ہوئے ہیں یہاں کل 8752 سرکاری اسکول ہیں۔

بارش اور سیلاب کے باعث سرکاری اسکولوں کی صورتحال اور وہاںں تدریس کی بحال کے معاملے پر ڈائریکٹر آف اسکولز کراچی فرناز ریاض سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وزیر تعلیم سردار شاہ کی ہدایت پر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نے سیلاب سے متاثرہ اسکولوں کا سروے کراتے وقت اس پروسس میں محکمہ ورکس اینڈ سروسز کے انجینیئرز کو بھی شامل کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نقصانات اور بحالی یا تعمیر نو کا تخمینہ بھی لگایا جاسکے جبکہ اس سلسلے میں ہر ڈسٹرکٹ کے نقصانات پر مشتمل رپورٹ بنا کر وفاقی حکومت کو بھیجی جارہی ہے اور وفاقی حکومت سے سندھ کے سرکاری اسکولوں میں مرمت و تعمیر نو اور تدریس کی بحالی کے سلسلے میں علیحدہ فنڈز مانگے جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔