- امریکا نے اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت کی قرارداد ویٹو کردی
- وزیراعظم کا اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے ملک گیر مہم تیز کرنے کا حکم
- جی-7 وزرائے خارجہ کا اجلاس؛ غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ
- پنڈی اسٹیڈیم میں بارش؛ بھارت نے چیمپیئنز ٹرافی کی میزبانی پر سوال اٹھادیا
- اس سال ہم بھی حج کی نگرانی کرینگے شکایت ملی تو حکام کو نہیں چھوڑیں گے، اسلام آباد ہائیکورٹ
- بشریٰ بی بی کو کھانے میں ٹائلٹ کلینر ملا کر دیا گیا، عمران خان
- عمران خان اور بشریٰ بی بی کی درخواستیں منظور، طبی معائنہ کروانے کا حکم
- حملے میں کوئی نقصان نہیں ہوا، تمام ڈرونز مار گرائے؛ ایران
- 25 برس مکمل، علیم ڈار دنیائے کرکٹ کے پہلے امپائر بن گئے
- قومی اسمبلی: جمشید دستی اور اقبال خان کے ایوان میں داخلے پر پابندی
- کراچی میں غیرملکیوں کی گاڑی پر حملہ، خودکش بمبار کی شناخت
- مولانا فضل الرحمٰن کو احتجاج کرنا ہے تو کے پی میں کریں ، بلاول بھٹو زرداری
- کراٹے کمبیٹ 45؛ شاہ زیب رند نے ’’بھارتی کپتان‘‘ کو تھپڑ دے مارا
- بلوچستان کابینہ کے 14 وزراء نے حلف اٹھا لیا
- کینیا؛ ہیلی کاپٹر حادثے میں آرمی چیف سمیت 10 افسران ہلاک
- قومی و صوبائی اسمبلی کی 21 نشستوں کیلیے ضمنی انتخابات21 اپریل کو ہوں گے
- انٹرنیٹ بندش کا اتنا نقصان نہیں ہوتا مگر واویلا مچا دیا جاتا ہے، وزیر مملکت
- پی ٹی آئی کی لیاقت باغ میں جلسہ کی درخواست مسترد
- پشاور میں صحت کارڈ پر دوائیں نہ ملنے کا معاملہ؛ 15 ڈاکٹرز معطل
- پہلا ٹی20؛ عماد کو پلئینگ الیون میں کیوں شامل نہیں کیا؟ سابق کرکٹرز کی تنقید
درختوں سے جنگلی حیات اور سبزے کا ڈی این اے جمع کرنے والا ڈرون
زیورخ: سوئٹزرلینڈ میں ٹیکنالوجی کے ایک مشہور ادارے کے ماہرین نے ڈرون نما ایک اڑن مشین بنائی ہے جو گھنے جنگل کے درختوں پر رہنے یا عارضی مسکن بنانے والے پرندوں اور دیگر جانوروں کے ڈی این اے جمع کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ خود درختوں کے تنوع کے بارے میں بھی ہماری معلومات بڑھا سکتا ہے۔
ای ٹی ایچ زیورخ اور سوئس فیڈرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے مشترکہ طور پر یہ مشین بنائی ہے جس سے درختوں کی صحت، تنوع اور وہاں موجود جانوروں کی معلومات مل سکیں گی کیونکہ ہمارے ڈیٹا بیس میں اب بہت ساری مخلوقات کا ڈی این اے جمع ہوچکا ہے۔
ایک گھنے جنگل میں ہر درخت کو دیکھنا اور اس پر رہائش پذیر مخلوق کا ریکارڈ رکھنا ایک امرِ محال ہے تاہم وہاں موجود نئے اور پرانے ڈی این اے سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ یہاں کون سے جانور بستے ہیں یا بیٹھتے ہیں۔ مثلاً کسی پرندے کی بیٹ، اس کے پروں کے ٹکڑے یا پنجوں سے اترے ہوئے خلیات بتاسکتے ہیں کہ وہ کس نوع سے تعلق رکھتا ہے۔
ڈرون پر ویلکرو جیسی چپکن پٹی لگی ہے جو تنوں اور پتوں سے رگڑ کر وہاں کے نمونے جمع کرتی ہے۔ پھر انہیں تجربہ گاہ لایا جاتا ہے اور وہاں ان اشیا میں سے ڈی این اے کا تجزیہ کیا جاتا ہے جسے ای (انوائرمینٹل) ڈی این اے کا نام دیا گیا ہے۔
یوں درخت کی اپنی کیفیت اور دیگر جاندار کا احوال معلوم ہوجاتا ہے۔ لیکن اس کے لیے ڈرون بنانا ایک چیلنج تھا اور اس کےلیے پیچیدہ پروگرامنگ کی بھی ضرورت تھی جو بار بار کی کوششوں سے ممکن ہوئی۔
جب ڈرون کو سات درختوں پر آزمایا گیا تو 21 جانداروں کے ڈی این اے دیکھے گئے جن میں پرندے، حشرات اور ممالیہ بھی شامل ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔