میں اپنے دوست کے ساتھ آفس سے گھر جا رہا تھا۔ بقرعید قریب تھی۔ مالی استطاعت زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے ہم ہر سال گائے میں حصہ لیتے تھے، لیکن اس بار بچوں کی ضد تھی کہ بکرا لیا جائے۔
بچوں کو بقرعید پر بکرے کو سجا کر گلی میں گھمانے کا بڑا شوق ہوتا ہے۔ انہیں قربانی کے اصل فلسفے کا کچھ علم نہیں ہوتا، نہ ہی یہ ادراک ہوتا ہے کہ بکرا آج کل کتنا مہنگا ہوتا ہے۔
راستے میں مویشی منڈی پڑی تو میں نے بائیک رکوا دی۔ دل میں خیال آیا کہ چلتے چلتے ریٹ تو معلوم کر لوں۔ منڈی میں خاصی رونق تھی۔ میں خریداری کے ارادے سے نہیں آیا تھا، بس قیمتیں جاننے آیا تھا۔ لیکن جب جیب کا حساب لگایا اور کچھ چھوٹے بکرے دیکھے تو ایک جگہ بات بن گئی۔ میں نے ہمت کر کے ایک چھوٹا سا کالا بکرا خرید لیا۔ دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے بقرعید پر اپنی طرف سے قربانی کا موقع عطا فرمایا۔
بکرا چھوٹا تھا، سو باآسانی بائیک پر بیٹھا لیا اور خوشی خوشی گھر کی طرف چل پڑا۔ دل میں ایک ہی خیال گردش کر رہا تھا — جب بچے بکرا دیکھیں گے تو کتنا خوش ہوں گے۔
گھر پہنچا، دروازہ کھٹکھٹایا تو میری چھوٹی بھانجی علینا نے دروازہ کھولا۔ مجھے اور بکرے کو دیکھ کر وہ زور سے بولی:
"ماما ماما! جلدی آئیں! مامو جانی کتے کا بچہ لے کر آئے ہیں!"
...یہ سن کر میری آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا گیا۔ جیسے میرے جذبے، میرے خلوص کو ایک جملے نے روند ڈالا ہو۔
اتنے میں میری بہن اور امی بھی آ گئیں۔ میں نے حواس مجتمع کیے اور مسکرا کر کہا:
"علینا بیٹا، یہ کتا نہیں، قربانی کا بکرا ہے۔"
ایک تو اندھیرا تھا، اور دوسرا بکرا واقعی چھوٹا اور کالا تھا۔ امی اور بہن نے بکرے کو دیکھا تو منہ بناتے ہوئے کہا:
"بیٹا، قربانی کا جانور ایسا ہونا چاہیے کہ جسے قربان کرتے وقت دل دکھے، اور تم جو بکرا لائے ہو اس کی قربانی کرتے ہوئے تو ذرا بھی افسوس نہیں ہوگا۔
یہ بکرا اگر یہاں بندھا رہا تو جگ ہنسائی ہوگی۔ ایسا کرو، اسے ماموں کے گھر چھوڑ آؤ۔"
مجھے ان کی باتیں سن کر شدید افسوس ہوا۔ میں نے بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ اصل ثواب نیت میں ہے، دکھاوے میں نہیں۔ قربانی دل سے کی جاتی ہے، قیمت سے نہیں۔
لیکن میری بات کو کوئی اہمیت نہ دی گئی۔ وہیں کھڑے کھڑے ماموں کو فون کیا گیا اور بکرا ان کے حوالے کر دیا گیا۔
دل دکھانے والی بات صرف میری کہانی تک محدود نہیں۔ قربانی کے دنوں میں یہ رویہ عام ہو چکا ہے۔
جب محلے میں قربانی کے جانور آتے ہیں تو اکثر لوگوں کی توجہ سب سے پہلے جانور کی قیمت پر جاتی ہے۔ جیسے ہی کوئی جانور آتا ہے، پہلا سوال ہوتا ہے:
"کتنے کا لیا ہے؟"
اس کے بعد تبصرے شروع ہو جاتے ہیں:
"یار، اس کا جانور تھر کا ہے، اس لیے سستا پڑ گیا۔"
"یہ چار دانت کا ہے، اس لیے سستا ملا ہوگا۔"
"بکرا تو جنگلی لگتا ہے، اسی لیے کم قیمت میں آ گیا ہوگا۔"
یعنی کوئی نہ کوئی کمی نکال کر دوسروں کی خوشی کو کم تر ثابت کرنا گویا ایک روایت بن چکی ہے۔
ایک صاحب تو حد ہی کر گئے — کسی نے کہا کہ ان کا جانور کچھ دبلا ہے، تو فوراً بولے:
"یار، اپنے جانور پر ایک اینٹ رکھ دو، ذرا بھاری لگے گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ چیل اُڑا کر لے جائے!"
ایسے جملے بظاہر مزاحیہ ہوتے ہیں، لیکن ان میں دوسروں کے جذبے کی نفی چھپی ہوتی ہے۔
آج کل ایک عجیب منطق چل پڑی ہے کہ قربانی کا جانور اتنا خوبصورت ہونا چاہیے کہ اسے ذبح کرتے وقت دل دکھے۔
حالانکہ قربانی تو اس جذبے کا نام ہے کہ آپ اللہ کی راہ میں اپنی پسندیدہ چیز دیتے ہیں، نہ کہ ایسی چیز جو دوسروں کو متاثر کرے۔
یہ "دل دکھنے والی خوبصورتی" کی شرط ایک بے بنیاد سماجی معیار ہے، جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔
"کیا اللہ کی رضا جانچنے کا معیار جانور کا وزن، خوبصورتی، قد کاٹھ اور قیمت ہو گیا ہے؟"
اصل خوبصورتی تو نیت کی ہوتی ہے، دل کی ہوتی ہے۔ اگر ایک شخص سادگی سے، اخلاص سے، چھوٹا جانور لے کر قربانی کرے تو وہ ان لاکھوں کے جانور والوں سے کئی گنا زیادہ مقبول ہو سکتا ہے، بشرطیکہ نیت خالص ہو۔
قربانی کے دن ہمیں اب یہ سوچنے کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اس عبادت کو عبادت ہی رہنے دیں، اسے بازار کی نمائش نہ بنائیں۔
اللہ کی بارگاہ میں جانور کا گوشت یا خون نہیں جاتا — اس کے ہاں صرف نیت پہنچتی ہے۔
مجھے دکھ اس بات کا نہیں کہ میرا بکرا چھوٹا تھا، دکھ اس بات کا ہے کہ نیت کو رد کر کے ظاہری معیار کو اہمیت دی گئی۔
اب قربانی پر ایک نیا "ٹرینڈ" سیٹ ہو چکا ہے۔ بڑے بڑے جانور خریدے جاتے ہیں — دس لاکھ، بیس لاکھ، بلکہ پچاس لاکھ تک کی قیمتیں سوشل میڈیا پر بڑے فخر سے شیئر کی جاتی ہیں۔
محلے میں باقاعدہ گھمانا، تصویریں کھنچوانا، ویڈیوز بنانا، اور بار بار قیمت دہرانا گویا قربانی کا اصل مقصد بن چکا ہے۔
سوچنے کی بات ہے:
اگر آپ بیس لاکھ کا ایک خوبصورت جانور خریدتے ہیں تو بجائے اس کے، اگر دو دو لاکھ کے پانچ جانور خرید لیے جائیں تو نہ صرف زیادہ گوشت حاصل ہوگا بلکہ کئی غریبوں کا فائدہ ہو جائے گا۔
لیکن چونکہ ہمارے معاشرے میں "واہ واہ" سننا قربانی سے زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے، اس لیے ہر کوئی نمائش کی دوڑ میں شامل ہو چکا ہے۔
بجائے اس کے کہ ہم قربانی کے گوشت کو غرباء، مساکین اور حاجت مندوں تک پہنچائیں، ہم اسے "شو پیس" بنا کر محض اپنی شان بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اور جب نیت دکھاوا ہو جائے، تو قربانی قربان ہو جاتی ہے — بس رسم رہ جاتی ہے، جذبہ ختم ہو جاتا ہے۔
قربانی کے اس موقع پر اگر ہم اصل سبق سیکھ لیں — کہ قربانی اللہ کے لیے ہوتی ہے، نہ کہ لوگوں کے لیے — تو شاید ہم اس رسم کو ایک سچی عبادت بنا سکیں، نہ کہ صرف نمائش کا ایک مظاہرہ۔
"اللہ ہمیں دکھاوے سے بچا کر خلوص والی قربانی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔"
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔