آئر لینڈ کے مشہور’’ آلو قحط‘‘ اور آئس لینڈ میں ہلاکت خیز خسرہ کی وبا کا مقابلہ کرنے والے مردوزن میں ایک بات مشترک تھی: ’’انتہائی مشکل حالات میں بھی خواتین مردوں کی نسبت زیادہ عرصہ زندہ رہیں۔‘‘جدید طبی سائنس کی رو سے وجہ یہ ہے، عورت کا جسم زیادہ قوت و برداشت رکھتا ہے اور اسے لمبی عمر پانے کے لیے تخلیق کیا گیا ۔
اگرچہ خواتین کا تولیدی نظام زیادہ پیچیدہ ہے اور اس سے جْڑے عمل جیسے حیض، حمل، زچگی اور دودھ پلانا بعض اوقات جان لیوا بھی ہو سکتے ہیں، اس کے باوجود وہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ دیر تک زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ حقیقت بھی قابل ذکر ہے کہ دنیا کے کئی حصّوںمیں لڑکیوں کو لڑکوں کے مقابلے میں کم وسائل (جیسے خوراک اور طبی سہولیات) میسّر آتے ہیں پھر بھی وہ طویل عمر پاتی ہیں۔
’’عورت کی مضبوطی‘‘ انتہائی کٹھن حالات میں بھی واضح ہوتی ہے، جیسا کہ اٹلی کی یونیورسٹی آف پادوا کی آبادیاتی ماہر ،ورجینیا زارولی نے اپنی تحقیق میں ثابت کیا۔ انہوں نے قحط، وباؤں اور غلامی جیسے حالات میں سات تاریخی آبادیوں کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا۔یہ تحقیق سائنسی جریدے ’’PNAS‘‘ میں شائع ہوئی۔اس کے مطابق:
یوکرین، آئرلینڈ اور سویڈن کے قحط زدہ علاقوں میں،ٹرینیڈاڈ میں غلامی کے دوران اور آئس لینڈ میں خسرہ کی مہلک وباؤں کے دوران عورتیں تقریباً ہر عمرمیں اور ہر جگہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ عرصے تک زندہ رہیں۔ یہاں تک کہ نوزائیدہ لڑکیاں بھی ان حالات میں نوزائیدہ لڑکوں کے مقابلے میں بہتر شرحِ حیات رکھتی تھیں۔یہ اس امر کا اشارہ ہے کہ ’’عورت میں بقا کی صلاحیت حیاتیاتی بنیاد پر قائم ہے۔‘‘
ایک خاتون کی یہ بنیادی طاقت آج کے دور میں بھی دیکھی جا سکتی ہے جب عورتوں کو اتنے زیادہ جسمانی دباؤ کا سامنا نہیں جتنا ماضی میں ہوتا تھا۔ زارولی کہتی ہیں:" ہم جدید انسانوں کے اعداد و شمار کا تجزیہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ تقریباً ہر عمر میں مردوں کی اموات کی شرح عورتوں سے زیادہ ہے۔‘‘
صنفی بنیاد پر موجود اس فرق کو پہچاننا اور ان سے فائدہ اٹھانا نظام صحت میں انقلابی تبدیلی لا سکتا ہے،خاص طور پر کینسر کے علاج اورویکسین کے طریقہ کار میں۔ اس طرح ادویہ کو زیادہ مؤثر، ذاتی نوعیت کی اور مخصوص ضروریات کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے بالخصوص عورتوں کے لیے۔
کروموسومز اور ہارمونز کی طاقت
پیدائش کے وقت ہر عورت دو X کروموسوم رکھتی ہے جو پیدائشی طور پر اُسے ہر مرد کے XY کروموسومز پر ایک اہم حیاتیاتی برتری فراہم کرتے ہیں۔ وجہ یہ کہ X کروموسوم کہیں زیادہ بڑا ہوتا ہے اور اس میں تقریباً ’’دس گنا زیادہ جینز‘‘ موجود ہوتے ہیں۔ اسی لیے عورتوں کے جسم میں قوتِ مدافعت سے وابستہ جینز کی وسیع تر اقسام موجود ہوتی ہیں جس سے ان کا مدافعتی نظام زیادہ مضبوط اور متنوع ہو جاتا ہے۔
ممتاز امریکی نیورو جینیٹکس اور ارتقائی حیاتیات کے ماہر ڈاکٹر شیرون مولیم اپنی کتاب ’’The Better Half: On the Genetic Superiority of Women‘‘ میں لکھتے ہیں’’عورتیں ارتقائی طور پر ایسی مدافعتی صلاحیت رکھتی ہیں جو مردوں کے مقابلے میں تیز تر جینیاتی تبدیلی (mutation) کر سکتی ہے۔چونکہ وائرس اور بیکٹیریا مسلسل تبدیل ہوتے رہتے ہیں، اس لیے ایسا مدافعتی نظام جو جلدی سے خود کو نئی صورت حال میں ڈھال لے، زیادہ پائیدار اور مؤثر ہے۔‘‘
ایسٹروجن اور قوتِ مدافعت
ہارمون ایسٹروجن جو عموماً عورتوں میں زیادہ مقدار میں ہوتا ہے، مدافعتی نظام کو کئی طریقوں سے تقویت دیتا ہے۔ اسی وجہ سے تمام مادہ ممالیہ جانوروں (بشمول انسانوں) کا مدافعتی نظام، چاہے وہ ابتدائی (innate) ہو یا مطابقتی (adaptive)، زیادہ طاقتور اور بہتر تیار شدہ ہوتا ہے۔
اسی طرح تحقیقات سے پتا چلاہے کہ عورتوں کے جسم میں فعال’’ نیوٹروفلز‘‘ (Neutrophils) کی تعداد زیادہ ہوتی ہے ۔ خون کے یہ سفید خلیے انفیکشن سے لڑنے سب سے پہلے متحرک ہوتے ہیں۔ عورتوں کے جسم میں’’بی خلیوں‘‘ کی سرگرمی بھی زیادہ ہوتی ہے ۔ یہ وہ سفید خلیے ہیں جو مخصوص وائرس یا بیکٹیریا کے خلاف خود کو ڈھالتے ہیں۔ یہ برتری ممکنہ طور پر ایسٹروجن کے زیرِ اثر ہے اور محققین اس بات کی کھوج میں ہیں ،کون سی مدافعتی خصوصیات ہارمونز سے متاثر ہوتی ہیں، کون سی جینیات کی وجہ سے اور کون سی دیگر عوامل پر منحصر ہیں۔
یادداشت اور مدافعت
عورتیںزیادہ موثر’’ اینٹی باڈیز‘‘ پیدا کرتی اور مدافعتی یادداشت زیادہ دیر تک برقرار رکھتی ہیں۔ مطلب یہ کہ ان کا جسم مستقبل میں ہونے والے انفیکشنز کے خلاف زیادہ تیز اور مؤثر ردعمل ظاہر کرتا ہے۔مارلین زک، جو امریکی یونیورسٹی آف مینیسوٹا میں ارتقائی حیاتیات کی ماہر اور ریجنٹس پروفیسر ہیں، کہتی ہیں:’’یہ معروف حقیقت ہے کہ مرد اکثر بیماریوں کے مقابلے میں عورتوں کی نسبت زیادہ حساس ہوتے ہیں ۔ اگرچہ یہ کلیہ ہر بیماری یا ہر فرد پر لاگو نہیں ہوتا۔‘‘
عورتوں کے مدافعتی نظام کی طاقت
چونکہ عورتوں کے جسم میں مدافعتی نظام زیادہ مضبوط ہے، اس لیے ان کا ویکسین اور وائرس کے خلاف ردعمل بھی زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔سیپسیس (sepsis) جیسی جان لیوا بیماری سے لڑنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ اور بعض اقسام کے کینسرکا خطرہ بھی نسبتاً کم ہوتا ہے۔
لیکن اس طاقتور مدافعتی نظام کا ایک منفی پہلو بھی ہے:عورتوں میں آٹو امیون بیماریوں(جن میں جسم اپنے ہی دفاعی نظام کے خلاف ردعمل ظاہر کرتا ہے) کی شرح مردوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔علاوہ ازیں جو بیماریاں مردوں کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہیں، ان سے زندہ بچ جانے والی عورتیں اکثر طویل المدتی یا دائمی طور پر بیمار رہتی ہیں۔
ٹیسٹوسٹیرون کا اثر
ہارمون ٹیسٹوسٹیرون جو مردوں میں زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے، مدافعتی لحاظ سے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ماہرین کے مطابق:’’ ابتدائی تجربات میں سائنسدانوں نے پایا ہے کہ اگر نر جانوروں میں بذریعہ آپریشن ٹیسٹوسٹیرون ختم کیا جائے تو ان کی قوتِ مدافعت بہتر ہو جاتی ہے۔اور اگر مادہ جانوروں کو ٹیسٹوسٹیرون دیا جائے تو ان کی مدافعت کمزور ہو جاتی ہے۔‘‘
زک کے مطابق وجہ یہ ہے، ٹیسٹوسٹیرون نر جانوروں کو تولیدی لحاظ سے فائدہ تو دیتا ہے لیکن یہ "تیزی سے جیو اور جلد مر جاؤ" پر مبنی زندگی کو فروغ دیتا ہے۔یعنی نر جانور زیادہ توانائی سے زندگی گزارتے ہیں لیکن ان کی عمر کم ہوتی ہے۔
جسمانی ساخت اور سماجی عوامل
کچھ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ طرزِ زندگی اور سماجی و ثقافتی عوامل بھی مردوں کی عمر کم کرتے ہیں۔عمومی طور پر مردزیادہ سگریٹ نوشی وشراب نوشی کرتے اور زیادہ خطرناک سرگرمیوںمیں ملوث ہوتے ہیں۔مردوں کو اکثر محنت طلب اور خطرناک پیشوںمیں عورتوں پر فوقیت دی جاتی ہے۔
دلچسپ بات یہ،جب عورتیں وہی غیر صحت مند عادات اختیار کرلیں جو روایتی طور پر مردوں میں پائی جاتی ہیں جیسے سگریٹ نوشی تو مطالعے یہی ظاہر کرتے ہیں کہ عورتیں پھر بھی مردوں سے زیادہ لمبی عمر پاتی ہیں۔محقیقین کے مطابق:’’ایسی آبادیوں میں جہاں مرد اور عورتیں ایک جیسا طرزِ زندگی اپناتے ہیں، وہاں بھی اموات کی شرح مختلف ہے اورعورتوں کی متوقع عمر زیادہ ہوتی ہے۔‘‘
جسمانی ساخت بھی ایک وجہ
نئی تحقیق سے یہ بھی پتا چلا ہے، عورتوں کی جسمانی ساخت بھی ان کی برتری میں کردار ادا کرتی ہے۔امریکی نارتھ کیرولینا اسٹیٹ یونیورسٹی میں مائیکروبیالوجسٹ ایرن میک کینی اور فورینزک اینتھروپولوجسٹ، امانڈا ہیل کی قیادت میں کی گئی ایک تحقیق سے معلوم ہوا، 1885 ء کے بعد پہلی بار مردہ اجسام پر تحقیق کے دوران یہ پایا گیا کہ عورتوں کی چھوٹی آنت مردوں کی نسبت نمایاں طور پر زیادہ لمبی ہے۔
اس کا فائدہ یہ ہے: عورتیں یکساں مقدار کی خوراک سے زیادہ غذائیت حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں جو قحط یا بیماری میں زندہ رہنے میں اہم فائدہ بن جاتا ہے۔نسوانی جسم کو توانائی بحال کرنے کے لیے جن غذائی اجزا کی ضرورت ہوتی ہے ، خاص طور پر حمل اور دودھ پلانے کے دوران جیسے پروٹین اور چکنائی تو وہ زیادہ تر چھوٹی آنت کے ذریعے جذب ہوتے ہیں۔‘‘
یہ دریافت "فی میل بفرنگ تھیوری" (Female Buffering Hypothesis)کو تقویت دیتی ہے جس کے مطابق:عورت کا جسم ارتقائی طور پر اس طرح ڈھل چکا کہ وہ ماحولیاتی اور جسمانی دباؤ مردوں کی نسبت بہتر طریقے سے برداشت کر سکے۔
روایتی طبی تحقیق
طویل عرصے سے روایتی طبی تحقیق میں عورتوں کے جسم کی پیچیدگیوں کو نظر انداز کیا گیاہے۔ لیکن جیسے جیسے جینیاتی (genomic) اور جسمانی (physiological) افعال پر مزید تحقیق ہو رہی ، ویسے ویسے یہ بات واضح ہو چکی کہ عورت کے جسم کی طاقت اور لچک کن عوامل کی مرہونِ منت ہے۔یہ نئی سمجھ بوجھ تمام انسانوں کے لیے بیماریوں سے بچاؤ،انفیکشن کے علاج اور مدافعتی نظام بہتر بنانے کی خاطر مزید مؤثر نیز ذاتی نوعیت کے علاج تیار کرنے میں مدد دے گی۔
عورتیں اپنی صحت بہتر بنانے کے لیے کیا کر سکتی ہیں؟
(1) اپنے جسم کی اہمیت کو سمجھیے:۔ آپ کا جسم حیاتیاتی طور پر ایک زبردست نظام ہے۔ اس کا خیال رکھنا ترجیح ہونی چاہیے نہ کہ عیاشی۔
(2) متوازن غذا کا استعمال:۔خاص طور پر پروٹین، صحت مند چکنائی اور فائبرپانے پر توجہ دیں کیونکہ آپ کا جسم انھیں بہتر طریقے سے جذب کر سکتا ہے۔
(3) صحت کی جانچ کو سنجیدگی سے لیں: ۔چونکہ روایتی ادویات میں عورتوں کو اکثر نظر انداز کیا گیا ہے، اس لیے باقاعدہ معائنہ اور خود آگاہی بہت اہم ہے۔
(4) مدافعتی صحت کو ترجیح دیں: ۔نیند، دباؤ کو منظم کرنے اور ویکسینیشن جیسے عوامل پر توجہ دیں تاکہ آپ کا جسم انفیکشن کے خلاف مؤثر طور پر ردعمل دے سکے۔
(5)علم حاصل کریں اور سوال کریں:۔ صحت کے بارے میں باخبر رہیں اور ڈاکٹر سے سوال کرنے سے نہ ہچکچائیں … خاص طور پر اگر آپ کو لگے کہ آپ کی علامات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا۔