لاہور:
دریائے راوی کے کنارے بسے دیہات ہر برس دریا کے کٹاؤ اور سیلاب کے خوف میں زندگی گزارتے ہیں۔ یہ وہ بستیاں ہیں جنہیں اپنے مکان، زمین اور پیڑ پودے دن بہ دن پانی کے حوالے ہوتے دیکھنا پڑتا ہے۔
بوکن والا انہی دیہات میں سے ایک ہے، جہاں مٹی کا سکون کبھی دریا کے شور میں دب جاتا ہے اور کبھی بارشوں کی بے رحم روانی اسے نگل جاتی ہے۔ آج گاؤں کے بچے اسکول جانے کے لیے کیچڑ میں راستہ ڈھونڈتے ہیں، بزرگوں کی یادوں میں وہ پرانا گاؤں محفوظ ہے جو دریا کی تہہ میں جا چکا ہے، اور کسان اپنی زمین کو ریت کے ڈھیر میں بدلتا دیکھ کر بے بسی سے آسمان کو تکتا ہے۔
بوکن وال گاؤں لاہور رنگ روڈ سے تقریباً سات کلو میٹر دور دریا کے کنارے آباد ہے۔ کبھی یہ گاؤں موجودہ مقام سے آگے تھا مگر 2023 کے سیلاب اور بھارت کی جانب سے اچانک چھوڑے گئے پانی نے اسے نگل لیا۔
گاؤں کے نمبردار حاجی حامد رضا بتاتے ہیں کہ اُس وقت آدھے سے زیادہ گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گیا تھا۔ اب بھی یہاں کھڑے رہنے والے تقریباً سو گھروں اور پانچ سو نفوس کو ہر لمحہ یہ خوف ہے کہ دریا کا اگلا موڑ ان کی زمین کو بھی بہا لے جائے گا۔ گاؤں سے شہر تک رسائی مشکل ہے، بارش کے دنوں میں کچا راستہ دلدل بن جاتا ہے اور کسی ایمرجنسی کی صورت میں لوگ ٹریکٹر ٹرالی پر سوار ہو کر ہی رنگ روڈ تک پہنچ پاتے ہیں۔

مقامی بزرگ احسان الٰہی کہتے ہیں کہ ان کی پیدائش اسی گاؤں میں ہوئی جو اب دریا کے اندر جا چکا ہے۔ موجودہ گاؤں بھی دریا سے چند میٹر کے فاصلے پر ہے اور ہر سال پانی تھوڑا اور قریب آجاتا ہے۔ گاؤں سے متصل محکمہ جنگلات کی زمین پر لگے 11مربع رقبے کے درخت بھی کٹاؤ کا شکار ہیں مگر ادارہ خاموش تماشائی ہے۔
اہل گاؤں برسوں سے پشتے بنانے کا مطالبہ کرتے رہے لیکن ان کی آواز کہیں نہیں سنی گئی۔ کچھ عرصہ پہلے تک وہ اپنی مدد آپ کے تحت مٹی کے پشتے ڈالتے تھے جو پہلا ریلہ آتے ہی بہہ جاتے، اب صورتحال کچھ مختلف ہے۔ راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی (روڈا) نے حالیہ ہفتوں میں پتھروں کے مضبوط پشتے تعمیر کیے ہیں۔ احسان الٰہی کے مطابق ’’اللہ کا شکر ہے، اب شاید ہمارا گاؤں بچ جائے۔‘‘
روڈا کے ڈائریکٹر پراجیکٹ راؤ انتظار علی کا کہنا ہے کہ چونکہ بوکن والا ان کے منصوبے کے دائرے میں آتا ہے، اس لیے یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ دیہات کو دریا اور سیلاب سے محفوظ رکھا جائے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس بار مون سون سے قبل ہی تین بڑے پشتے تعمیر کر دیے گئے تاکہ گاؤں کے شمالی حصے کو بچایا جا سکے۔

نیسپاک کے انجینیئر بہزاد عثمان کے مطابق ان پشتوں کو اس انداز میں ڈیزائن کیا گیا ہے کہ پانی کا دباؤ تقسیم ہو جائے اور اس کی رفتار ٹوٹ کر کمزور ہو جائے، چند روز پہلے 50 ہزار کیوسک پانی کا ریلہ انہی پشتوں کے باعث بغیر نقصان کے گزر گیا۔ انہوں نے بتایا کہ پشتے بنانے سے زیادہ مشکل کام یہاں تک پتھروں کو لانا تھا، کیونکہ گاؤں تک آنے والا راستہ کچا اور خراب ہے۔
ماہرین کے مطابق دریائے راوی کی چینلائزیشن کے بعد اس کی گنجائش پانچ لاکھ کیوسک تک بڑھ جائے گی، جس کے بعد بھارت کی طرف سے پانی چھوڑنے کے باوجود سیلاب کا خطرہ نمایاں حد تک کم ہو جائے گا۔ فی الحال دریا میں 18 سے 20 ہزار کیوسک پانی بہہ رہا ہے مگر اہل گاؤں کو یقین ہے کہ اب نئے پشتے انہیں آنے والے طوفان سے بچالیں گے۔
بوکن وال کی کہانی دریا کنارے بسے ہر اُس گاؤں کی کہانی ہے جو اپنی بقا کے لیے پانی سے لڑ رہا ہے۔ یہ لوگ جانتے ہیں کہ دریا کا کٹاؤ رکنے والا نہیں، لیکن انہیں امید ہے کہ مضبوط پشتے شاید آنے والی نسلوں کو ایک محفوظ زمین دے جائیں۔