سپریم کورٹ آف پاکستان نے سگی بیٹی سے زیادتی کے الزام میں جیل میں 12 سال سے قید والد کو بری کر دیا۔
عدالت عظمیٰ نے لاہور ہائی کورٹ اور ٹرائل کورٹ کی عمر قید کی سزا بھی کالعدم قرار دی اور کہا کہ ملزم کو فوری رہا کیا جائے اگر کسی اور مقدمے میں مطلوب نہ ہو۔
جسٹس علی باقر نجفی کا تحریر کردہ 10 صفحات کا فیصلہ جاری کردیا گیا، جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس سنا تھا۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ متاثرہ (بچی) کا بیان ریکارڈ کرتے وقت اس کی ذہنی پختگی کا ٹیسٹ نہیں لیا گیا، قانون شہادت کے تحت بچے کا بیان تب معتبر ہے جب جج اس کی سمجھ بوجھ پر مطمئن ہو۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ متاثرہ کے بیان میں تضادات پائے گئے اور تاریخ/وقت واضح نہ تھا، ڈاکٹر کی رائے بھی متضاد تھی پہلے زیادتی کہا پھرجرح میں انکار کیا، مدعیہ (والدہ) اور ماموں واقعے کے عینی شاہد نہیں، صرف افواہی گواہ ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ خاندان کے اندر جائیداد اور گھریلو جھگڑوں کا تنازع بھی ریکارڈ پر آیا، عدالت عظمیٰ نے استغاثہ کے شواہد کو غیر معتبر قرار دے دیا۔
2010 میں 6/7 سالہ بیٹی نے والد پر زبردستی زیادتی کا الزام لگایا تھا، ٹرائل کورٹ نے ملزم کو عمر قید اور 35 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
لاہور ہائی کورٹ نے 2013 میں ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا، ملزم نے ہائیکورٹ فیصلہ کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔