خودکشی کا خطرناک رجحان

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 10 ستمبر 2014
tauceeph@gmail.com

[email protected]

دنیا میں ہر 40 سیکنڈ میں ایک فرد خودکشی کرتا ہے۔ پاکستان میں خودکشی کرنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستانی خواتین میں خودکشی کی شرح زیادہ ہے۔ عالمی ادارئہ صحت W.H.O نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ امیر مرد زیادہ خودکشیاں کرتے ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زہریلے مواد تک رسائی کو روکنے اور اسلحے کے استعمال پر پابندیوں سے خودکشی کی شرح کم کی جاسکتی ہے۔

ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ دماغی امراض میں مبتلا افراد ڈاکٹروں کے پاس نہیں جاتے، یوں ان کے دماغ میں موجود خودکشی کے جراثیم موثر ہوجاتے ہیں۔ صحت کا عالمی تنظیم نے ذرایع ابلاغ پر تنقید کی ہے کہ مشہور رہنماؤں اور اداکاروں وغیرہ کی خودکشی کی خبروں کو پیش کرکے ذہنی بیمار لوگوں کو مزید بیمارکیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اکثریت کا مذہب اسلام ہے۔ اسلام میں خودکشی کو حرام قرار دیا گیا ہے مگر مذہبی پابندی کے باوجود خودکشی کی شرح میں اضافہ معاشرے کی کمزوریوں کو عیاں کرتا ہے۔ طبی ماہرِ نفسیات ڈاکٹر شاہد اقبال نے ذہنی امراض پر کافی تحقیق کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کے مرض کا تعلق معاشرے کی ساخت سے منسلک ہے۔

عمومی طور پر لوگ گھریلو پریشانیوں خاص طور پر محبت میں ناکامی اور معاشی وجوہات اور سماجی ناانصافیوں کی بناء پر خودکشی کرتے ہیں۔ ماحولیات و ریاست کے سیاسی ومعاشی بحران لوگوں میں فرسٹریشن پیدا کرتے ہیں۔ یہ فرسٹریشن ڈپریشن کا باعث بنتی ہے۔ ڈاکٹر شاہد اقبال کا کہنا ہے کہ بعض افراد کے خاندان میں خودکشی کا رجحان پایا جاتا ہے۔ وہ وراثت میں ملے ہوئے جراثیم کی بناء پر خودکشی کرتے ہیں مگر ایسے افراد کی شرح کم ہے۔ مگر غربت کی بڑھتی ہوئی شرح لوگوں کو اپنی زندگیوں کو کم کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ خواتین شادی شدہ زندگی کی ناکامی،غریبی،عزیزوں کی بدسلوکی اور مجرمانہ حملوں سے فرسٹریٹ ہو کر بھی خودکشی پر مجبور ہوتی ہیں اور ایسا اس وقت ہوتا ہے جب پولیس اور عدالتیں ان خواتین کی دادرسی نہیں کرتیں۔ یوں سڑکوں پر خواتین کے خود کو آگ لگا کر ہلاک کرنے کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔

ذہنی بیماریوں کے علاج کا معاملہ فرسودہ سماجی روایات کی نظر ہوجاتا ہے۔ دیہی علاقوں میں لوگ پیروں اور مزاروں پر جا کر علاج کرانے کو زیادہ مفید سمجھتے ہیں۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے اندازے کے مطابق 2020تک پاکستان میں ڈپریشن کی شرح بہت زیادہ بڑھ جائے گی اور موجودہ صورتحال میں ذہنی امراض کے لیے دواؤں کے استعمال کا رجحان تشویشناک حد تک بڑھ رہا ہے۔ جنوبی ایشا میں ذہنی امراض خصوصاً ڈپریشن اور تشویش کا رجحان خصوصاً پاکستان اور انڈیا میں بتدریج بڑھ رہا ہے۔ڈاکٹر شاہد اقبال کا کہنا ہے کہ ملک کے بڑے اسپتالوں میں ذہنی امراض کے ڈاکٹر وں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور صوبہ پنجاب کے چند اسپتالوں کے علاوہ ملک بھر میں ماہرِ نفسیات کا تقرر کا رواج نہیں ہے۔

یوں مریضوں کی سائیکو تھراپی اورکونسلنگ کی سہولتیں موجود نہیں ہیں۔ اسی طرح ملک میں مینٹل ہیلتھ آرڈیننس موجود ہے مگر اس میں ماہرِ نفسیات کا کردار ابھی تک تسلیم نہیں کیا گیا۔ لوگ سیاسی اور معاشی حالات سے پریشان ہو کر خودکشی پر مجبور ہورہے ہیں۔ اس کے علاوہ ماحولیات کی بنا ء پر بھی امراض بڑھ رہے ہیں۔ ماحولیات سے مراد فضاء میں بڑھتا ہوا شور، فضائی اور زمینی آلودگی شامل ہے۔ مخصوص ممالک میں ہارن بھی انتہائی ایمرجنسی کی صورت میں بجایا جاتا ہے۔ عمومی طور پر ڈرائیور ہارن بجانے سے گریز کرتے ہیں۔ جرمنی کے شہر کولون میں مقیم پاکستانی طالب علم عرباض احمد خان کا کہنا ہے کہ کولون میں ایک سال کے قیام کے دوران صرف اس دن ہارن کی آواز سنائی دی جب جرمنی نے فٹ بال کا عالمی مقابلہ جیتا تھا۔ پاکستان میں مذہبی عبادت گاہوں اور گاڑیوں سے آنے والی آوازوں اور شور سے ذہنی امراض میں مبتلا افراد کی زندگیوں کو مزید خراب کررہا ہے۔

برسرِ اقتدار حکومتوں کے دعوؤں کے باوجود غربت کی شرح بڑھ رہی ہے۔ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ ، امن و امان کی صورتحال، زرعی اور صنعتی ترقی کی راہ میں بڑھتی رکاوٹیں لوگوں کو فرسٹریشن کے علاوہ کچھ نہیں دے پا رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کا بچوں سمیت نہروں میں ڈوب پر خود کو ہلاک کرنا، سارے خاندان کو زہریلی اشیاء کھلانے اور ریلوے لائن پر ٹرین کے نیچے خود کو ہلاک کرنے کی خبریں ہر روز ذرایع ابلاغ کی زینت بنتی ہیں۔ اخبارات پر تحقیق کرنے والے بعض محققین کا کہنا ہے کہ 80 کی دھائی تک معاشی مسائل کی بناء پر خودکشی کی خبریں کبھی اخبارات میں نظر نہیں آتی تھیں  مگر اب گزشتہ 30 برسوں سے اسی طرح کی خبریں پڑھنے کو عام ملتی ہیں اور ٹی وی چینلز ان خبروں کو نشر کرتے ہیں۔ ایسے موقعے پر انسانی حقوق کے ماہرین اور ماہرینِ سماجیات ان خودکشیوں کی وجوہات بیان کرتے ہیں مگر ریاستی اداروں کی بے حسی برقرار رہتی ہے۔ سیاسی نظام میں بحران بھی لوگوں کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

گزشتہ ماہ سے شروع ہونے والے دھرنوں نے لوگوں کو ذہنی طور پر ایک عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ٹی وی چینلز 24 گھنٹے سیاسی رہنماؤں کی تقاریر براہِ راست دکھا رہے ہیں۔ روزانہ تبدیلی کی نوید دی جاتی ہے۔ ایک مذہبی رہنما اپنی شہادت کا پیشگی اعلان کرتے ہیں، کفن لہرائے جاتے ہیں اور قبریں کھودی جاتی ہیں مگر حکومت کا سلسلہ دراز رہتا ہے ۔ مگر ملک کی معیشت کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے۔ عام آدمی سیاسی رہنماؤں کی تقاریر سے متاثر ہوتا ہے۔ بچے اور نوجوان ان رہنماؤں میں اپنا آئیڈیل تلاش کرتے ہیں مگر پھر فرسٹریشن بڑھتی ہے۔ یوں عام آدمی ڈپریشن کا شکار ہورہا ہے۔

بعض ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہر تیسرا شخص ذہنی امراض کا شکار ہے۔ ملک میں اعصابی تناؤ ختم کرنے اور سکون آور ادویات کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ ان ہی دوائیوں کو استعمال کرنے والے کسی وقت بھی خودکشی کرسکتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان ایک خطرناک علامت ہے۔ خودکشی پر آمادہ لوگوں کی کؤنسلنگ ہوسکتی ہے، یوں مرض میں روک تھام ممکن ہے مگر سماجی اور معاشی حالات اور سماجی انصاف نہ ہونے سے لوگوں کے پاس موت کو گلے لگانے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیںہے۔ زندگی ایک دفعہ ملتی ہے اس کو بہتر بنانے کے لیے تمام تر کوششیں کرنی چاہئیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔