دھرنا اور سیلاب صنعت کے ساتھ زراعت کیلئے بھی چیلنج

سیاستدانوں کی غیر سنجیدگی کے باعث دھرنے تفریح کا ذریعہ بننے کے بعد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جڑواں شہروں کے مکینوں۔۔۔


Irshad Ansari September 17, 2014
سیاستدانوں کی غیر سنجیدگی کے باعث دھرنے تفریح کا ذریعہ بننے کے بعد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جڑواں شہروں کے مکینوں کیلئے وبال جان بننا شروع ہوگئے ہیں۔ فوٹو: فائل

وفاقی دارالحکومت میںگزشتہ ایک ماہ سے زائد عرصہ سے جاری دھرنا سیاست سے پیدا ہونیوالے سیاسی تناؤ اورسیلاب کی تباہ کاریاں صنعت وتجارت کے ساتھ زرعی معیشت کیلئے بھی چیلنج بن گئی ہیں۔

سیاسی بحران کے بعد زرعی پیداوار میں اہمیت کے حامل علاقوں میں بدترین سیلاب کے منفی اثرات ملک کی مجموعی معاشی صورتحال اور سٹاک ایکسچینج میں درج کمپنیوں کی مالیاتی کارکردگی پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ سیلاب کی وجہ سے اہم زرعی فصلوں کی پیداوار کے ساتھ پیداواری شعبوں کی سرگرمیاں بھی متاثر ہونے کے خدشات لاحق ہوگئے ہیں جبکہ ٹرانسپورٹیشن سیکٹرکی کارکردگی بھی متاثر ہوگی جس کی وجہ سے صنعتوں کی پیداوار متاثر ہو سکتی ہے اور مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے کا خدشہ ہے جس کی وجہ سے ملک میں افراط زر کی شرح میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

رواں مالی سال اقتصادی شرح نمو 4.5 فیصد کے ابتدائی اندازوں سے کم ہو کر 4.2 فیصد رہنے کا اندیشہ ہے جبکہ ملک میں افراط زر کی شرح ساڑھے سات سے آٹھ فیصد کے درمیان رہنے کا امکان ہے۔ اگرچہ سیلاب اور سیاسی تناؤ کے باعث ملکی معیشت پر مرتب ہونیوالے منفی اثرات کے باعث رواں مالی سال کے اقتصادی اعدادوشمار پر نظر ثانی کرنے کا کوئی سرکاری سطح پر اعلان نہیں کیا گیا ہے اورسیلاب کے نقصانات کے تخمینے لگائے جا رہے ہیں جس کیلئے اقوام متحدہ کے متعلقہ اداروں کے ساتھ بھی رجوع کیا گیا مگر دو روز قبل وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی زیر صدارت ہونے و الے اجلاس میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی طرف سے پیش کی جانے والی ابتدائی رپورٹ کے مطابق ملک میں آنے والے حالیہ طوفانی سیلاب سے مجموعی طور پر دو کروڑ 40 لاکھ سے زائد لوگ متاثر ہوئے ہیں جبکہ 44 ہزار پانچ سو 97 گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔

پندرہ لاکھ 44 ہزار چھ سو 53 ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئی ہیں اورحالیہ سیلاب سے پنجاب میں 23 اضلاؑع متاثر ہوئے ہیں جبکہ آزاد جموں و کشمیر میں دس اورگلگت بلتستان میں پانچ اضلاع متاثر ہوئے ہیں۔ اگرچہ حتمی اعدادوشمار سیلاب زدہ علاقوں سے سیلاب کا پانی اترنے کے بعد ہی سامنے آئیں گے مگر ابھی تک کے جو اعدادوشمار سامنے آئے ہیں ان سے بھی لگ یہی رہا ہے کہ حکومت کو رواں مالی سال کے اقتصادی اعدادوشمار میں کمی کیلئے نظر ثانی کرنا ہوگی کیونکہ سیلاب کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کے نتیجے میں انشورنس سیکٹر بھی متاثر ہوگا اور زیادہ کلیمز آنے کی صورت میں انشورنس کمپنیوں کے منافع میں کمی ہو جائے گی۔

اگرچہ اس وقت تیل و گیس تلاش کرنے والی تمام کمپنیوں کی فیلڈز میں کام تسلسل کے ساتھ جاری ہے تاہم جنوبی پنجاب میں سیلاب کی صورت میں آئل اینڈ گیس سیکٹر کی سرگرمیاں بھی متاثر ہونے کا اندیشہ ہے اور اگر حکومت سیاسی تنائو اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے اثرات زائل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور دونوں آفتوںسے نکل کر ابھی بھی رواں مالی سال کے اقتصادی اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ حکومت کی اپنی تاریخی و بے مثال کامیابی ہوگی بلکہ دھرنا سیاست کے تابوت میں بھی آخری کیل ثابت ہوگی۔

اگرچہ حکومت اس کے لئے پُرعزم بھی دکھائی دیتی ہے اور جیسے ہی حکومت پردھرنا سیاست کا دبائوکم ہوا ہے تو حکومت نے او جی ڈی سی ایل کے دس فیصد حکومتی حصص کی ملکی و غیر ملکی سٹاک مارکیٹ میں فروخت کی منظوری دیدی ہے۔ اگرچہ دھرنوں کی وجہ سے اس میں تین ہفتوں کی تاخیر ہوئی ہے مگر اب حکومت نے مزید وقت ضائع کئے بغیر معاملات کو ٹریک پر لانے کی کوششیں شروع کی ہیں جو خوش آئند ہے۔

دوسری جانب دھرنا سیاست سے پیدا ہونیوالے سیاسی تنائو اور سیلاب سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نکلنے کیلئے حکومت کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے جس کے تحت وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ شہباز شریف سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کر رہے ہیں اور سیلاب زدہ علاقوں کو آفت زدہ قرار دے چُکے ہیں اور متاثرین میں امدادی سامان بھی تقسیم کیا جا رہا ہے۔

حکومت کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کی مسلح افواج کے نوجوان بھی ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی آفت کی اس گھڑی میں مصیبت زدہ لوگوں کی امداد کیلئے سرگرم عمل ہیں اور قیمتی انسانی جانوں کو بچانے کیلئے اپنی جان پر کھیل رہے ہیں، لیکن یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ حاکم وقت کی آنکھیں ہمیشہ پانی سر سے گزرنے کے بعد کیوں کھُلتی ہیں قبل ازوقت حفاظتی انتظامات کیوں نہیں کئے جاتے جبکہ متعدد رپورٹس چیخ چیخ کر خطرے سے پیشگی آگاہ بھی کر رہی ہوں اور ایسے میں جب ملک کا وسیع رقبہ پانی نہ ہونے کی وجہ سے بنجر پڑا ہو اور پن بجلی کی پیداوارکم ہو، ایسے میں پانی جیسی قیمتی نعمت اور خزانے کو ڈیموں میں محفوظ کرنے کے انتظامات کیوں نہیں کئے جاتے۔ کیوں ہمارے ہاں قومی اہمیت کے حامل ڈیموں کی تعمیر سمیت دیگر تمام ترقیاتی منصوبے سیاست کی نذر ہو جاتے ہیں۔

حکومت اپنی سیاست کر رہی ہے اوراپوزیشن اپنی سیاست کر رہی ہے اور تو اور دھرنا سیاست کرنیوالوں نے بھی سیلاب پر سیاست کرنا شروع کردی ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اورعوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے جھنگ میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں کا ذمہ داربھی وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کو قرار دیدیا ہے اور کہا ہے کہ اپنی شوگر ملیں بچانے کیلئے بند توڑے گئے ہیں۔

ان کے الزامات اپنی جگہ مگر راقم کا جھنگ کے حوالے سے مشاہدہ کچھ اور ہے اس لئے دھرنا قائدین کے اٹھارہ ہزاری بند توڑنے کے حوالے سے الزامات تو بے بنیاد ہیں اور اگر یہ بند نہ توڑا جاتا تو نہ صرف ہیڈ تریموں کا پُل سیلاب کے پانی میں بہہ جانے کا خطرہ تھا بلکہ پورے جھنگ سمیت دیگر ملحقہ علاقوں میں قیامت خیز تباہی آنے کا خطرہ تھا، انسانی جانوں کا ضیاع سینکڑوں میں نہیں ہزاروں میں ہونا تھا ، لہٰذا یہ الزامات تو غلط ہیں۔

البتہ یہ حکمرانوں کی کی نااہلی ضرور ہے کہ جب ہیڈ تریموں میں اتنے بڑے سیلابی ریلے کو گزارنے کی صلاحیت نہیں ہے اور یہ پُل بھی اپنی عمر و معیاد نہ صرف پوری کرچکا ہے بلکہ اس سے بھی تجاوز کرچکا ہے تو ایسے میں ان علاقوں میں کوئی چھوٹے ڈیم کیوں نہیں بنائے گئے تاکہ ہر سال فصلوں کو تباہ کرکے سمندر میں غرق ہونیوالے پانی کو بند باندھ کر اور ڈیم بنا کر محفوظ بنایا جاسکے اور زمینوں کو سیراب کرنے کے ساتھ ساتھ پن بجلی کی پیداوار کیلئے استعمال میں لایا جاسکے، کیونکہ انرجی مکس خراب ہونے کی وجہ سے عوام پر بجلی کے بلوں کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور آئی ایم ایف کی شرط پوری کرنے کیلئے حال ہی میں حکومت نے بجلی کے ٹیرف سلیب خاموشی سے تبدیل کرکے عوام پر بجلی بم گرایا ہے اور مزید سات فیصد بجلی مہنگی کرنے کے تمام انتظامات مکمل ہیں۔ انتظار صرف دھرنوں کے ختم ہونے کا کیا جارہا ہے کیونکہ آئی ایم ایف سے اگلی قسط لینے کیلئے یہ شرط پوری کرنا ہے۔

سیاستدانوں کی غیر سنجیدگی کے باعث دھرنے تفریح کا ذریعہ بننے کے بعد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جڑواں شہروں کے مکینوں کیلئے وبال جان بننا شروع ہوگئے ہیں۔ دونوں دھرنا قائدین ''میں،،کے خول میں بند ہیں، اس وقت حکومت و اپوزیشن سمیت تمام سیاسی قائدین کو بصیرت سے کام لینے کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ صورتحال نے اداروں پر انگلیاں اٹھانے کا موقع دیا ہے۔

پہلے تقاریر میں بار بار ایمپائر کی انگلی اٹھنے کا ذکر کرکے اور فوج کے ضامن بننے کے اعلانات کرکے ساتھ ساتھ حکومت کی طرف سے سہولت کار بنانے کے اعلانات کو منفی رنگ دے کر اس ملک کے ایک اہم ادارے کو سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کی گئی ۔ اب لگ یہ رہا ہے کہ فوج کو متنازعہ بنانے کے ناپاک عزائم میں ناکامی کے بعد اب نادیدہ قوتیں اس ملک کے دوسرے اہم ادارے عدلیہ کو اس معاملے میں گھسیٹنے کی کوشش کر رہی ہیں اور اب ایمپائر کی انگلی اٹھنے کی بجائے عدلیہ کو مخاطب کیا جارہا ہے۔ خدارا اداروں کو اس سے محفوظ ہی رکھیں تو بہتر ہوگا کیونکہ پہلے ہی ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چُکا ہے۔

مقبول خبریں