تحریک انصاف اور لفظ ’’D‘‘ کا تعلق!

سید محمد ذوالقرنین  جمعـء 7 اگست 2015
خان صاحب اب  ایمپائر پر ’’ڈیپنڈنٹ ‘‘ نہ رہیں، بہت کھیل کھیل لیا، اب عوام کی خدمت کے لیے بھی سنجیدہ ہوجائیں۔ فوٹو :فائل

خان صاحب اب ایمپائر پر ’’ڈیپنڈنٹ ‘‘ نہ رہیں، بہت کھیل کھیل لیا، اب عوام کی خدمت کے لیے بھی سنجیدہ ہوجائیں۔ فوٹو :فائل

انگریزی حرف ’’ڈی‘‘ سے بے شمار الفاظ بنتے ہیں، چند جگہوں پر جب یہ حرف کسی لفظ کے آغاز میں آجائے تو اُسے بے توقیر کر دیتا ہے جیسے ڈی گریڈ، ڈی کمپوز یہ وہی کام ہے جو اکثر مقامات پراردو لفظ ’’بے‘‘ کرتا ہے جیسے بے ادب، بے شعور، بے شرم وغیرہ۔

ہمارے ملک کی ایک سیاسی جماعت نے انگریزی حرف ’’ڈی‘‘ اور اُردو’’د‘‘ سے خاصی شناسائی حاصل کرلی اور پوری قوم کو یاد بھی کروا دیا۔ جی ہاں آپ نے صحیح پہچانا یہاں تحریک انصاف کی بات ہورہی ہے۔ دھاندلی سے بات شروع ہوئی اور دھرنے تک جا پہنچی، دھرنا دیا بھی تو اسلام آباد کے ’’ڈی چوک‘‘ پر اور کردی وزیراعظم کے استعفیٰ کی ’’ڈیمانڈ‘‘، پھر وہ ’’ڈسٹربنس‘‘ پیدا کی کہ ملک کا حال ’’بے حال‘‘ کردیا۔ دھرنے میں ’’ڈانس‘‘ بھی خوب چلتا رہا، سول ’’ڈس اوبیڈینس‘‘ کی بات بھی چلی یا یوں کہوں کہ صرف بات ہی چلی۔  پھر یکایک عمران خان صاحب نے ’’پلان ڈی‘‘ لانے کا اعلان کردیا، جس پر وزیراعظم نے اپنے اور تحریک انصاف کے ’’ڈی‘‘ کو واضح کیا کہ اُن کا پلان ڈی ’’ڈسٹرکشن‘‘ والا ہے اور ہمارا ’’ڈی ویلپمنٹ‘‘ والا ہے اور یہ بھی کہ ’’دھرنے دھرے‘‘ رہ جائیں گے اور ملک آگے چلا جائےگا۔

شکر خدا کہ ہوا یوں کہ ملک بھی بچ گیا اور ’’ڈیموکریسی‘‘ بھی، ایک اور کردار ’’ڈی جے بٹ‘‘ کا بھی ہے جو تحریک انصاف کے دھرنے، جلسے جلوسوں کو اپنی موسیقی سے جگمگاتا رہا۔ لیکن پھر ایک دن وہ تحریک انصاف کے گلے کا کانٹا بن گیا، پیسے جو مانگ لیے اُس نے۔ اب ایک اور ’’ڈی‘‘ تحریک انصاف کے پیچھے پڑ گیا ہے وہ ہے ’’ڈی سیٹ‘‘۔ اگرچہ یہ معاملہ اب حال ہو چکا ہے لیکن گزشتہ 8 سے 10 دن ملک میں ہر جگہ بس اسی کی بازگشت تھی۔ پارلیمنٹ نے بھی ان 10 دنوں میں عوام کے لیے کچھ نہ کیا، بس اِسی ایشو پر اراکین اسمبلی کھیلتے رہے۔ شاید یہی وجہ تھی جس پر شاہ محمود قریشی صاحب نے کہا تھا کہ ہمارے سر سے یہ تلوار ہٹائی جائے اور میڈیا میں آنے والے تحریک انصاف کے چند نمائندے کہتے پائے گئے کہ اگر ہمت ہے تو ڈی سیٹ کرکے دکھاؤ۔ یہ وہ لوگ تھے جو خود تو جیت نہیں سکے، اب دوسری جماعتوں کو مشتعل کرکے اپنی پارٹی کے لوگوں کی سیٹوں کے پیچھے پڑے ہیں اور رہے خان صاحب ان کا کیا کہنا کبھی ایک بیان کبھی دوسرا ہمیں تو بس اتنا پتہ چل گیا کہ جو’’ڈی‘‘ اگست 2014ء میں تحریک انصاف کے ہاتھ میں مانند ہتھیار تھے آج اگست 2015ء میں وہ ’’ڈی‘‘ انکی گردن پرآچکے ۔

خیر ڈی سیٹ ہونے سے بچ گئے، اب خان صاحب کو بھی بالغ النظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’ڈیسنٹ‘‘ سیاست کا آغاز کردینا چاہیے، اگر لوگ آپ کی بات سنتے ہیں تو گزارش ہے کہ انہیں پیار، امن، دوسروں کی عزت کرنا سکھایئں۔ خان صاحب اب ایمپائر پر ’’ڈیپنڈنٹ‘‘ نہ رہیں، بہت کھیل کھیل لیا، تمام سیاست دانوں کو اکٹھے بیٹھ کر ملک کی بہتری کے لیے کام کرنا ہوگا۔ قوم کو ’’ڈی کورم‘‘ سکھائیں، انہیں امن، پیار، ہم آہنگی، خوشحالی، ترقی، اعلیٰ معیار تعلیم ’’ڈیڈیکیٹ‘‘ کیجئے۔ ملک و قوم کو صحیح ’’ڈائیریکشن‘‘ کی ضرورت ہے۔

جو کہتے ہیں نا غریب کو میٹرو اور پلوں سے کیا فائدہ؟ انہیں ایک بات بتاؤں کہ عوام کو چارحلقوں، الیکشن میں دھاندلی کس نے کی؟ کیسے ہوئی؟ کیوں ہوئی؟ ان باتوں سے بھی کوئی سروکار نہیں۔ ہم سب کو مل کر دہشت گردی، غربت، انتہا پسندی، کرپشن، بے روزگاری، لوڈشیڈنگ کو ’’ڈیفیٹ‘‘ کرنا ہے، اسے اس دھرتی سے ’’ڈیلیٹ‘‘ کرنا ہے۔ ہمیں بھی اپنےملک، اس کے بانیوں، شہیدوں، غازیوں اور وہ اقدار جن کے لیے یہ وطن حاصل کیا گیا انکو ’’ڈیفینڈ‘‘ کرنا ہے۔ خدا ہمارا اور مملکت کا حامی و ناصر ہو۔

’’پاکستان زندہ باد‘‘

کیا آپ تحریک انصاف کی اب تک کی کارکردگی سے مطمئن ہیں یا پھر چاہتے ہیں کہ وہ اپنی سمت درست کرے۔

نتائج ملاحظہ کریں

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔