علم دشمنوں کا ایک اور وار
ایسا لگتا ہے کہ سکھ، سکون، چین، آرام، امن و امان، ہم سے روٹھ گیا ہے
گزشتہ برس 2015 میں وحشت و بربریت کے ساتھ خوف و یاسیت کے اس کہرے میں کچھ ایسے واقعات بھی رونما ہوئے تھے جن سے امید پرستوں کو حوصلہ ملا اور انھوں نے مایوسی کے باوجود آگے بڑھنے کا عزم کیا۔ یہی وجہ ہے کہ نئے سال پر یہ امید رکھی گئی تھی کہ آنے والا سال خوشیوں کی شنید لے کر آئے گا لیکن اس کے برعکس چڑھتے سال کے سورج کی کرنوں سے منور ہونے کے بجائے وطن عزیز کو حسب روایت خون سے غسل دیا جارہا ہے۔
خیبر پختونخوا کے علاقے چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی میں دہشت گردوں کے حملے نے آرمی پبلک اسکول کے زخم ہرے کردیے ہیں۔ کے پی کے ایک بار پھر لہولہان ہوا، امن دشمنوں نے پھر ہمارے مستقبل پر حملہ کیا، یہاں ہر روز کوئی صدمہ، کوئی نیا سانحہ مفلوک الحال محنت کش عوام کی نفسیات پر نئے زخم داغ جاتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ سکھ، سکون، چین، آرام، امن و امان، ہم سے روٹھ گیا ہے، ایک غم میں ہلکان دل کو ذرا تسلی ملتی نہیں کہ دوسرا غم زہر بجھے خنجر کی مانند سینے میں پیوست ہوجاتا ہے، ایسے المیے کہ ہزاروں ہاتھ بھی سینہ کوبی کے لیے کم پڑجائیں اور اس پر حکمرانوں کی مسخرہ بازیاں، الامان و الحفیظ۔ عوام لاوارث، بھوکے ننگے، جل کر مررہے ہیں، مگر حکمران بے حسی کی چادر اوڑھے سورہے ہیں۔
نفرت کے پانی سے سیراب کی گئی زمین میں اگنے والی زہریلی فصل ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔ اسٹرٹیجک گہرائی کے نظریات تراشتے اور جہادی کلچر کو ابھارتے اسے ریاستی پالیسی سے ہم آہنگ کرنے والے دانشور اس زہریلی فصل کے کاشتکار ہیں۔ ان حلقوں نے بہت سے سوالات کا جواب دینا ہے، اگر پاکستان میں کوئی نظام انصاف ہو تو انھیں چوراہوں میں کھڑا کرکے سرعام پوچھ گچھ کی جائے کہ انھوں نے وطن کو اس دلدل میں کیوں دھکیلا؟
تاہم باعث اطمینان بات یہ ہے کہ فوج پاکستان کو اس نام نہاد جہادی کلچر سے پاک کرنے کا عزم کرچکی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ باچاخان یونیورسٹی میں دہشتگردی کی ہولناک واردات نے دہشتگردوں کے خلاف جاری آپریشن پر کئی سوالیہ نشان لگادیے ہیں۔ ملک کے تمام محب وطن لوگوں کو شدید اجتماعی ذہنی دھچکا لگا ہے۔ میڈیا سمیت عوامی اور سیاسی حلقوں میں اس سانحہ کے حوالے سے ایک اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اگر یہ انٹیلی جنس کی ناکامی ہے تو کیوں اور کیسے یہ ممکن ہوا کہ دہشتگرد یونیورسٹی میں داخل ہوکر ہمارے مستقبل پر پھر حملہ کریں۔
مگر ہمیں یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستان اس وقت حالت جنگ میں ہے، ایک ایسی جنگ جو روایتی جنگوں سے مختلف ہے، نادیدہ دشمن سے واسطہ ہے، یہ جنگ پورے ملک پر محیط ایک دیرپا اور لمبی جنگ ہے، اس میں مزید قربانیاں دینا ہوگی، ہم ہر یونیورسٹی اور کالج کو چھاؤنی نہیں بناسکتے۔ موت کے بے رحم ہرکاروں کے نزدیک ہر پاکستانی قابل گردن زنی ہے، نفرت کے بیوپاریوں کی محبت کے رکھوالوں سے جنگ ہے، محبت کی حفاظت کرنے والے چونکہ انسانیت سے جڑے ہوتے ہیں تو اس ناطے یہ انسانیت کی نسل کشی اور احساسات کا قتل عام بھی ہے۔
یہ خون کے پیاسے وہ سفاک جلاد ہیں، جنھیں تسکین ہی اس وقت ملتی ہے جب یہ کسی بے گناہ کا خون چوستے اور بوٹیاں کھاتے ہیں۔ یہ ملک میں بسنے والے ہر ایک باسی کی زندگی کا چراغ بجھانا چاہتے ہیں۔ دنیا کی پیدا کی گئی دہشتگردی سے تن تنہا لڑتا ہوا پاکستان اب تلک ڈٹا ہوا ہے، گو اس کے نظریے اور سلامتی پر اپنوں اور غیروں نے یکساں وار کیے، پر یہ اب بھی جواب دینے کی طاقت رکھتا ہے اور اپنے بچوں کے سہارے یہ ان جونکوں سے نبرد آزما رہے گا جو اسی کے خون پہ پل کر آج محسن پر پل پڑی ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ، فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے، قوم جنگ جیتنے کے لیے پرعزم ہے، حکومت اور فوج ایک صفحے پر ہیں، 15 جون کو شروع ہونے والا آپریشن ضرب عضب اپنے اہداف حاصل کررہا ہے، شمالی وزیرستان میں دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں، ان کی تربیت گاہیں، ان کے اسلحہ خانے تباہ کیے جاچکے، دہشتگردوں کے معاونت کاروں کے گرد گھیرا تنگ ہورہا ہے، دہشتگرد آخری سانس لے رہے ہیں، ایسے میں آخری مزاحمت کے لیے وہ از سر نو صف بندی کررہے ہیں۔
ان کے بچے کھچے گروہ متحد ہورہے ہیں، جنگ آخری مرحلے میں داخل ہوچکی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ جنگ کا دوسرا فریق جوابی کارروائی نہ کرے، پلٹ کر وار نہ کرے، چارسدہ میں باچاخان یونیورسٹی میں دہشتگردوں کا حملہ ایسی ہی کارروائی تو ہے۔ سیکیورٹی کے حوالے سے سرکاری ادارے کسی کوتاہی کے مرتکب ہوں تو اس کی نشاندہی ضروری اور کوتاہی کے ذمے داروں کا محاسبہ بھی لازم ہے لیکن عوام میں یہ احساس اور شعور بیدار کرنا بھی ضروری ہے کہ آخری دہشتگرد کے خاتمے تک وہ کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی وقت چوٹ لگانے میں کامیاب ہوسکتا ہے کہ یہ جنگ روایتی اور رسمی جنگ سے مختلف ہے۔
تین عشرے قبل پاکستان میں شروع ہونے والی دہشتگردی کو نائن الیون کے بعد کے واقعات نے زیادہ پیچیدہ بنایا، اس وقت پاکستان کی سلامتی اور داخلی استحکام کے خلاف دہشتگردوں کے کئی گروہ کام کررہے ہیں، جنھوں نے مختلف لبادے اوڑھے ہوئے ہیں۔ دہشتگردوں کے ایسے بھی گروہ ہیں جو کسی قسم کا مذہبی، سیاسی، لسانی، نسلی، فرقہ ورانہ یا گروہی لبادہ نہیں اوڑھتے بلکہ پیشہ ور دہشتگرد کے طور پر کام کرتے ہیں۔ دراصل ہم نظریے کے نام پر بے انتہا خرابیوں کو دعوت دے چکے ہیں۔ قائداعظم کا پاکستان انتہاپسندی کی بھینٹ کس طرح چڑھا، یہ ایک طویل اور تکلیف دہ کہانی ہے، آج ہم اس حماقت کی قیمت چکا رہے ہیں، جب بھی کسی چرچ، کسی امام بارگاہ، کسی مسجد، کسی اسکول، کسی عوامی مقام پر حملہ ہوتا ہے تو یہ حماقت انسانی ضمیر کے کٹہرے میں کھڑی دکھائی دیتی ہے۔
دہشتگردوں کے ایسے گروہ بھی سرگرم ہیں جو غیر ملکی ایجنسیوں کی ایماء پر ملک بھر میں افراتفری مچانا چاہتے ہیں، ملک دشمن قوتیں وطن عزیز میں شام، عراق، یمن جیسی صورتحال پیدا کرنا چاہتی ہے مگر ہماری پاک فوج دشمنوں کے ارادے خاک میں ملارہی ہے، پاک فوج بڑی بے جگری اور دیدہ دلیری سے ارض پاک کو دہشتگردی کے عفریت سے نجات دلانے کے لیے کوششیں کررہی ہیں، وطن عزیز کے دشمنوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے ہر طرح کے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ بلاشبہ ہمارے ادارے بالخصوص پاک فوج ملک کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کے لیے ہر حد تک جانے کے لیے تیار ہے۔
مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری حکومت دہشتگردی کی وارداتیں روکنے کے لیے سنجیدہ نظر نہیں آتی، حکومت کی جانب سے ایسے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے جو اسے کرنے چاہیے، دہشتگردی کی یہ جنگ صرف پاک فوج کو ہی نہیں لڑنی بلکہ فتح کے لیے حکومت اور قوم کو بھی اس جنگ میں شامل ہونا ہوگا، ملک کے سیکیورٹی اداروں کو مزید متحرک ہونے کی ضرورت ہے جب کہ صوبائی حکومتوں کو بھی چاہیے کہ وہ سول ایجنسیوں کو بھی زیادہ سے زیادہ متحرک کریں تاکہ دہشتگردوں کو کارروائی کرنے سے قبل ان کے انجام تک پہنچایا جاسکے، اس جنگ کو جیتنے کے لیے ہم سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، ہمیں اپنے درمیان چھپ کر بیٹھے دشمن کو بے نقاب کرنا ہوگا۔
فوج اس جنگ کو جیتنے کے لیے اپنا کام موثر انداز سے کررہی ہے، اب سول سوسائٹی اور حکومت کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، ہمیں ہمت، برداشت اور ہوش مندی سے کام لینا ہوگا، اس جنگ کو ہر صورت منطقی انجام تک پہنچانا ہوگا، پرامن اور ترقی یافتہ پاکستان ہمارا مقدر ہے، دہشتگردی کے خلاف جنگ ہماری آیندہ نسلوں کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ اب فوج کی قیادت میں ہمارا گھر واپسی کا سفر شروع ہوچکا ہے، ایسے گھر کی طرف جو اس ملک کو بننا تھا، جو جناح کا خواب تھا۔ ہمیں اپنے مذہبی و سیاسی نصاب کو بھی تبدیل کرنا ہوگا، ہماری اکثریت معتدل مزاج اور محبتوں کی امین ہے۔
مگر اس کے اطراف نفرتوں اور جہل کے جالے بن دیے گئے ہیں، بے قامت و قیمت صاحبان جبہ و دستار، مطلق العنان جابر حکمرانوں اور زرخرید پیشہ ور قاتلوں نے معاشرے کو لہولہان کردیا ہے، نفرتوں، عصبیتوں اور تنازعوں کی جلتی ہوئی آگ ہم نے ہی بجھانی ہوگی، غمزدہ اور تھک کر سوجانے سے یہ آشوبِ وحشت و دشت ختم نہیں ہوگی۔ ذاتی، نظریاتی، مسلکی، لسانی تعصبات کو امن ومحبت کی چادر اوڑھاکر قومی و اجتماعی مفادات کا حصول ہماری سب سے پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ یہی وہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم دہشتگردی کو شکست دے سکتے ہیں۔