دیکھا تیرا امریکا (چودہویں قسط)

رضاالحق صدیقی  اتوار 22 جنوری 2017
اِس ٹاور کی بلندی اِس کے انٹینا کی اونچائی سمیت 1776 فٹ ہے اتنی بلندی جان بوجھ کر رکھی گئی ہے کیونکہ 1776 وہ سن ہے جب امریکہ کی آزادی کی قرارداد پر دستخط ہوئے تھے۔ فوٹو: فائل

اِس ٹاور کی بلندی اِس کے انٹینا کی اونچائی سمیت 1776 فٹ ہے اتنی بلندی جان بوجھ کر رکھی گئی ہے کیونکہ 1776 وہ سن ہے جب امریکہ کی آزادی کی قرارداد پر دستخط ہوئے تھے۔ فوٹو: فائل

 

گیارہ ستمبر کے آنجہانی لوگوں کی یادگار

ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے بارے میں سن رکھا تھا کہ اپنے زمانے میں دنیا کی بلند ترین عمارت تھی۔ایک ہزار تین سو فٹ بلند، اُس کے قریب موجود ایک دس منزلہ عمارت تصاویر میں آسمان سے باتیں کرتی محسوس ہوتی تھی۔ ایسا کوئی وسیلہ نہ تھا کہ ایسی شان و شوکت والی شاندار عمارت دیکھ سکیں۔ کچھ کارِ روزگار کی مجبوری اور کچھ قلتِ زر ہمیشہ ایسے معاملات میں آڑے آتی رہی، وہ تو اللہ بھلا کرے ہمارے بیٹے عدیل کا کہ جس نے ہمیں دنیا کے بہت سے ممالک کی سیر کرا دی۔

ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی عمارت یا عمارتوں کا مجموعہ، کہتے ہیں کہ 16 ایکڑ پر بنی تھیں، اسے امریکی ماہر نقشہ ساز (آرکیٹیکٹ) Miniru Yamasaki نے ڈیزائین کیا تھا اور اُس کے تخلیق کار کا دعویٰ تھا کہ یہ عمارت اتنی مضبوط ہے کہ اِسے توڑنے یا گرانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

دیکھا تیرا امریکا (پہلی قسط)

دیکھا تیرا امریکا (تیسری قسط)

دیکھا تیرا امریکا (چوتھی قسط)

دیکھا تیرا امریکا (پانچویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (چھٹی قسط)

دیکھا تیرا امریکا (ساتویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (آٹھویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (نویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (دسویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (گیارہویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (بارہویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (تیرہویں قسط)

تخلیق کار کا دعویٰ کچھ غلط بھی نہ تھا کیونکہ اُس نے اپنے وقت کی بلند ترین اور آٹھویں عجوبے ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ سے سن 1945ء میں ایک سپر سانک جیٹ طیارے کے ٹکرانے اور اُس سے ہونے والے اوپری تین منزلوں کے نقصان کو بھی مدِ نظر رکھا تھا۔ لیکن نیویارک کے لوگوں نے تخلیق کار کے دعویٰ کو غلط ہوتے اور وہاں قیامتِ صغرا بپا ہوتے دیکھا۔ یہ گیارہ ستمبر 2001ء کی صبح پونے نو بجے کا وقت تھا جب ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں کام کرتے لوگوں نے جیٹ طیاروں کو اپنی جانب بڑھتے اور ٹاوروں سے ٹکراتے دیکھا اور دونوں ٹاور دیکھتے ہی دیکھتے زمیں بوس ہوگئے۔

سرکاری اعلانیے کے مطابق چار جیٹ طیارے القاعدہ سے تعلق رکھنے والے ہائی جیکروں نے اغواء کئے، جن میں سے دو طیارے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے ٹاوروں سے ٹکرا دئیے، ایک طیارہ پینٹاگون پر گرا دیا اور ایک کو امریکی حکام نے مار گرایا۔ اِس حملے میں اُس کمپلیکس کی دوسری تنصیبات کو بھی نقصان پہنچا، جبکہ تکلیف دہ عمل یہ تھا کہ 2763 افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔

جب ہمیں امریکہ یاترا کا موقع ملا تو اِس واقعہ کو 14 برس بیت گئے تھے۔ ہمیں اُس وقت بھی اور آج بھی اِس سانحہ پر افسوس ہے۔ اِس لئے نہیں کہ ایسی عظیم الشان عمارتیں تباہ ہوگئیں بلکہ اِس لئے کہ ہزاروں افراد لقمہ اجل بن گئے اور انسانی جان کی تلافی ممکن نہیں ہے۔ یہ ہمارا احساس ہے کہ انسانی جان کا زیاں کہیں بھی نہیں ہونا چاہیئے، لیکن انسان کیا سے کیا بن جاتا ہے وہ خود بھی مرجاتا ہے اور ہزاروں افراد کو بھی اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ بات چاہے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے حملوں کی ہو، چشم زدن میں ہیروشیما، ناگاساکی میں لاکھوں افراد کے لقمہ اجل بن جانے کا ہو یا پھر افغانستان میں ہونے والے ظلم و ستم کی ہو، بے گناہ افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے والوں کو تو شاید اس بات کا احساس بھی نہ ہو کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔

اِسے جذبات کا اظہار کہنا چاہیئے جو صفدر صدیق رضی نے اکتوبر 2001ء میں ماہنامہ تخلیق میں شائع ہونے والی اپنی تخلیق میں کیا۔ صفدر صدیق رضی نے اس واقعہ کو جس طرح محسوس کیا وہ شاید دنیا بھر میں جنگ کے سیاہ بادلوں کے نتیجے میں مرنے والوں کے لواحقین کے جذبات کی ترجمانی ہے۔

ورلڈ ٹریڈ سنٹر

زمانے کی قیادت کرنے والو
خلق سے بیوپار
انسانوں سے کاروبار کرکے
تم نے دیکھا ہی نہیں انسانیت سے پیار کرکے
ساری دنیا کو تجارت گہ بنا کر
حرص کے لالچ گہ بنا کر
آو اور دیکھو
کہ دنیا کی تجارت گاہ شعلوں میں گھری ہے
آدمی جو آرزو ہے، پیار ہے
مدت سے جنسِ قریہ و بازار ہے
آخر اسے بے قدر و پامال کرکے
نذرِ استحصال کرکے
بھول بیٹھے ہو کہ سیلِ ظلم جب حد سے گزرتا ہے
تو صبر و استقامت کی چٹانوں سے وہ ٹکرا کر پلٹتا ہے
انہی سفاک آنکھوں اور ہاتھوں کی طرف
مانندِ سیل آتش و آہن جھلساتا ہے

ہیروشیما کے ایک تباہ شدہ حصے کو جاپان نے آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کرلیا ہے کیونکہ یہ ایک مفتوح قوم تھی لیکن امریکی ایک فاتح اور دنیا پر حکمرانی کرنے والی قوم بن کر رہنا چاہتے ہیں۔ وہ اِس سانحہ سے اپنی جگ ہنسائی نہیں چاہتے، جتنا ماتم اُنہوں نے کرنا تھا وہ کرلیا اب وہ ماتم کروانے کے در پہ ہیں۔ اِس تباہ شدہ حصے پر اب امریکی نہیں آتے صرف سیاح آتے ہیں۔

امریکیوں نے اِس جگہ کو جاپانیوں کی طرح محفوظ نہیں کیا بلکہ اسی مقام پر ایک نیا ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تعمیرِ نو کا کام شروع کردیا ہے بلکہ اِس کا بیشتر حصہ تعمیر بھی کرلیا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے یہ کمپلیکس دو ٹوئن ٹاوروں سمیت 7 عمارتوں پر مشتمل تھا، اب یہ پانچ آسمان سے باتیں کرتے ٹاوروں کے ساتھ ایک میموریل پارک اور میوزیم پر مشتمل ہے۔

اُس روز جب ہمیں مجسمہِ آزادی دیکھنے جانا تھا تو ہم صبح ہی صبح برکلین سے نکل آئے تھے۔مجسمہِ آزادی کے جزیرے پر کرنے کو کچھ بھی نہیں ہے، آپ یہاں آتے ہیں کچھ سیر کرتے ہیں، تھوڑی دیر مجسمے کو سر اُٹھا کر دیکھتے ہیں، اُس کے گرد حیرت زدہ آنکھوں کے ساتھ پھرتے ہیں، لیموں پانی کا گلاس ختم کرتے ہیں، دوچار سلفیاں بناتے ہیں اور اگر کوئی ساتھ ہے تو اسے تصویر کھینچنے کے لئے کہتے ہیں، پھر واپسی کے لئے فیری میں آبیٹھتے ہیں اور بس، اتنا سا ہے مجسمہِ آزادی کے جزیرے کا سفر۔ اس لئے وہاں اتنا وقت بھی نہیں لگا جتنا وہاں تک پہنچنے اور جامہ تلاشی میں صرف ہوا تھا۔ اِس لئے ابھی دوپہر ہی تھی چبھنے والی دھوپ کے ساتھ آپ کو پسینہ تو نہیں آتا لیکن دھوپ اپنا احساس بہرحال کرا دیتی ہے۔

واپسی ہماری بیٹری پارک میں ہی ہوئی جو بذاتِ خود ایک سیر گاہ ہے۔ اس لئے وہاں تھوڑا وقت گزارنا ضروری تھا کیونکہ عنایہ کے لئے مجسمہِ آزادی پر کچھ نہیں تھا اِس لئے ہم نے تھوڑی دیر کے لئے اُسے وہاں بھاگنے دوڑنے دیا۔ وہاں ایک بینچ پر بیٹھے بیٹھے میں نے عدیل سے کہا ’ورلڈ ٹریڈ سنٹر بھی تو بیٹری پارک کے گردو نواح میں کہیں ہے وہاں چلتے ہیں۔‘

جی پاپا واپسی پر گراونڈ زیرو پر تھوڑی دیر رکتے ہوئے جائیں گے، عدیل نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا لفظ اپنے آئی فون میں گوگل میپ کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔

یار میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی بات کر رہا ہوں اور تم ’گراونڈ زیرو‘ کئے جا رہے ہو، میں نے کہا۔

پاپا، ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی جگہ کو اب گراونڈ زیرو ہی کہتے ہیں، وہاں اب میموریل پارک اور میوزیم بنا دیا گیا ہے، عدیل نے جواب دیا

اچھا، لیکن میں نے تو سنا تھا کہ وہاں دوبارہ ٹریڈ سینٹر تعمیر کردیا گیا ہے، میں نے اپنی معلومات کے مطابق کہا۔

جی سنا تو میں نے بھی ہے کہ وہاں تباہ ہونے والی عمارتیں دوبارہ تعمیر کی جا رہی ہیں ایک نیا ٹاور بھی بنا ہے جسے فریڈم ٹاور کہتے ہیں لیکن جہاں ورلڈ ٹریڈ ٹاور تھا وہاں میموریل بنا دیا گیا ہے، عدیل نے کہا۔

پھر کہنے لگا مجھے اتنا عرصہ ہوگیا امریکہ آئے لیکن اتنی فرصت سے نیویارک پہلی بار آیا ہوں آپ لوگوں کے ساتھ، ورنہ کام سے فرصت ہی نہیں ملتی کہ نکل سکوں۔ چلیں چل کر دیکھ لیتے ہیں کہ وہاں کیا کیا تھا اور کیا کیا دوبارہ بن گیا ہے، کیونکہ میرے لئے بھی سب کچھ نیا ہے، عدیل نے کہا۔

گاڑی کے پاس پہنچ کر عدیل نے آئی فون میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا پتہ فیڈ کیا تو حیرانی سے بولا ارے یہ تو یہاں سے بہت ہی قریب ہے، گاڑی یہیں پارک رہنے دیتے ہیں، پیدل ہی چلتے ہیں۔ بیچ بیچ میں سے جلدی پہنچ جائیں گے، ویسے آپ تھکیں گے تو نہیں پیدل چل کر؟ ارے نہیں، تھکنا کیسا، چلو دیر کس بات کی ہے، میں نے کہا

ورلڈ ٹریڈ سینٹر جو پہلی بار سن 1973ء میں لوئر مین ہاٹن میں تعمیر ہوا۔ 7 عمارتوں پر مشتمل ایک کمپلیکس تھا جس کی نمایاں خصوصیت اِس کے آسمان سے باتیں کرتے ہوئے دو شاہکار ٹوئن ٹاور تھے۔ اپنی تعمیر کے وقت ٹاور نمبر ایک، 1368 فٹ جبکہ ٹاور نمبر دو کی اونچائی 1362 فٹ تھی۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی یہ ٹوئن ٹاور بلڈنگ سن 1973ء میں دنیا کی بلند ترین عمارت تھی۔ نیویارک کے فنانشل ڈسٹرکٹ میں واقع یہ کمپلیکس 13,400,000 مربع فٹ آفس جگہ کا حامل تھا۔ گیارہ ستمبر 2001ء میں یہ کاروباری شاہکار تخریب کاری کے نتیجے میں زمین بوس ہوگیا تھا اب یہی شاہکار دوبارہ تعمیر کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس بار یہ سات عمارتوں کی بجائے پانچ بلند قامت عمارتوں پر مشتمل ہے جس میں نمایاں 104 منزلہ ون ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارت ہے جو اب امریکہ کی بلند ترین اور دنیا کی چھٹی بلند ترین عمارت ہوگی۔ سن 2014ء میں اِس کی تعمیر اگرچہ مکمل ہوگئی تھی لیکن اِسے گزشتہ سال کھولا گیا ہے۔ اسے سابقہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے شمالی ٹاور کی جگہ تعمیر کیا گیا ہے۔ ابتدائی طور پر اِس عمارت کو ’فریڈم ٹاور‘ کا نام دیا گیا تھا لیکن سن 2009ء میں ہی جب یہ ابھی زیرِ تعمیر ہی تھی اِسے ون ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا نام لوٹا دیا گیا۔

اس ٹاور کی بلندی اس کے انٹینا کی اونچائی سمیت 1776 فٹ ہے اتنی بلندی جان بوجھ کر رکھی گئی ہے کیونکہ 1776 وہ سن ہے جب امریکہ کی آزادی کی قرارداد پر دستخط ہوئے تھے۔ یہی سن مجسمہِ آزادی کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کتاب پر بھی درج ہے۔

عدیل نے ہمیں اس میموریل پارک کے پاس لا کھڑا کیا جہاں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے عظیم الشان آسمان سے باتیں کرتے دو ٹاور اپنی عظمت کی کہانی دنیا بھر کے سیاحوں کو سنایا کرتے تھے، آج وہ جگہ ایک میدان کی شکل اختیار کرچکی ہے،یہ وہی جگہ ہے جہاں ہزاروں افراد زندگی سے بھرپور جدوجہد میں ہمہ تن مصروف رہتے تھے، یہیں وہ عمارت تھی جس کی ایک سو چھ اور ایک سو ساتویں منزل پر وہ ریستوران تھا جو ’’ونڈو آف دی ورلڈ‘‘ کہلاتا تھا۔ وہاں روزانہ دو لاکھ سیاحوں کی آمد و رفت رہتی تھی۔ میں اُس مقام پر اپنا سر آسمان کی جانب کئے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی اونچائی کو اپنے تصور میں لانے کی کوشش کر رہا تھا کہ عدیل نے میرے قریب آتے ہوئے کہا کہ اِس طرح تو آپ کچھ بھی محسوس نہیں کر پائیں گے۔ جو چیز موجود ہی نہیں اس کی بلندی کا اندازہ ممکن ہی نہیں ہے۔ میں نے اپنی سعیِ لاحاصل ترک کردی اور جنگلے سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا شاید یہ میرا خاموش خراج تھا اُن آنجہانی افراد کے لئے جو اِس دہشت گردی کی جنگ میں ناحق روئی کے گالوں کی طرح اڑ گئے تھے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں

 

رضاالحق صدیقی

رضاالحق صدیقی

رضا الحق صدیقی ادبستان کے نام سے بلاگ اور نیٹ ٹی وی کے کرتا دھرتا ہیں۔ اُس کے علاوہ چار کتابوں ’مبادیاتِ تشہیر‘، ’حرمین کی گلیوں میں‘، ’کتابیں بولتی ہیں‘ اور ’دیکھا تیرا امریکہ‘ کے مصنف بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔