پاکستانی ڈراموں سے انگریزی ٹی وی سیریز تک

عمار ضیا  جمعرات 11 مئ 2017
ہمارے اور انگریزی ڈراموں میں سب سے بڑا فرق موضوعات کا ہے۔ جہاں ہمارے لوگ گنتی کے دو موضوعات کو پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں، وہیں اُن کے پاس موضوعات کا انبار لگا ہے۔

ہمارے اور انگریزی ڈراموں میں سب سے بڑا فرق موضوعات کا ہے۔ جہاں ہمارے لوگ گنتی کے دو موضوعات کو پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں، وہیں اُن کے پاس موضوعات کا انبار لگا ہے۔

میرا خیال ہے کہ ایسے گھر شاذ و نا در ہی ملیں گے جہاں ڈرامے نہ دیکھے جاتے ہوں (واضح رہے کہ یہ اُن ڈراموں کا ذکر ہے جو ٹیلی ویژن چینل سے نشر ہوتے ہیں)۔ کچھ عرصہ قبل تک ٹی وی ڈرامے دیکھنے کے لیے ٹی وی کا ہونا لازمی شرط تھا، لیکن سوشل میڈیا کے انقلاب اور مقبولیت نے اب یہ شرط بے معنی کردی ہے۔ یوٹیوب اور ایسی دیگر ویڈیو اسٹریمنگ ویب سائٹس پر غالباً دنیا کے ہر چینل اور ہر زبان کا ڈرامہ دستیاب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے دنوں جب بھارتی ٹی وی چینلوں پر پابندی عائد کی گئی تو بھارتی ڈراموں کے رسیا خواتین و حضرات کے ایک بڑے طبقے کو کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔

گزشتہ دنوں ایک دوست نے فیس بک پر احباب سے رائے طلب کی کہ وہ ہالی ووڈ فلموں، بھارتی فلموں، ٹی وی ڈراموں وغیرہ میں سے کیا شوق سے ملاحظہ کرتے ہیں؟ جواب میں جہاں بیشتر رائے دہندگان نے ہالی ووڈ فلموں کے حق میں ووٹ دیا، وہیں مجھ جیسے گنتی کے چند صارفین نے ’ٹی وی سیریز‘ کو منتخب کیا۔ میرا اپنا حال یہ ہے کہ جب سے امریکی ٹی وی سیریز یا ڈرامے دیکھنا شروع کیے ہیں، فلمیں چھوٹ گئی ہیں۔ ویسے تو اگر میں یہ کہوں کہ مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ میں نے آخری فلم کب اور کون سی دیکھی تھی تو اِس میں زیادہ قصور میری یادداشت ہی کا ہوگا، لیکن سچ یہی ہے کہ اب فلم دیکھے کئی مہینے گزر جاتے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ ہمیشہ ہی سے مجھے ٹی وی ڈراموں کا شوق رہا ہو۔ مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب گھر میں پاکستانی ٹی وی ڈرامے چلا کرتے تھے اور میں ہر ممکن کوشش کیا کرتا تھا کہ میں اُس کمرے میں موجود نہ ہوں جہاں ٹی وی چل رہا ہو۔ وجہ یہ تھی کہ ہمارے اور پڑوسی ملک کے ڈرامے دیکھے جائیں تو لگتا ہے کہ ہمارے ہاں خاندانی جھگڑوں، سازشوں، حسد اور پیار محبت کے علاوہ کچھ ہوتا ہی نہیں۔ ہر ڈرامہ محبت کی کہانی یا خاندانی مسائل کے بھنور میں پھنس گیا ہے۔ ایسے میں نہ صرف یہ کہ کوفت بہت زیادہ ہوتی ہے، بلکہ حساس طبیعت رکھنے والوں کے لیے بعض جذباتی مناظر پر اپنے جذبات قابو میں رکھنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ یہی سبب تھا کہ میں ایک عرصے تک ڈراموں پر فلموں کو ترجیح دیتا رہا۔ لیکن پھر میرا تعارف انگریزی ٹی وی سلسلوں سے ہوا۔

کیفر سدھرلینڈ المعروف جیک باور کی ٹی وی سیریز ’24‘ نے مجھے ایک نئی دنیا سے روشناس کروایا۔ یہ میری پہلی انگریزی ٹی وی سیریز تھی۔ اِس منفرد ٹی وی سیریز کا نشہ ایسا تھا کہ میں ایک کے بعد ایک قسط دیکھے چلا جاتا تھا اور اسکرین سے نظریں ہٹانے کا دل نہ کرتا تھا۔ جب اِس سیریز کی تمام 204 اقساط دیکھ چکا تو یہ امتحان سامنے تھا کہ اب کون سی سیریز دیکھی جائے جو اِسی طرح تجسس اور ہیجان خیزی سے بھرپور ہو۔ یوں مزید سلسلوں سے آگاہی ہوئی جنہوں نے ایک نیا ’چسکا‘ لگا دیا۔

ہمارے ہاں کے ٹی وی ڈراموں اور انگریزی ٹی وی سلسلوں کا موازنہ کیا جائے تو زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ اِس فرق کا سبب چند عوامل ہیں۔

1۔ موضوعات

ہمارے اور انگریزی ڈراموں میں سب سے بڑا فرق موضوعات کا ہے۔ جہاں ہمارے لوگ گنتی کے دو موضوعات کو پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں، وہیں اُن کے پاس موضوعات کا انبار لگا ہے۔ سیاست، معیشت، شخصیات، طب، سائنس فکشن، مافوق الفطرت، خوفناک، مزاحیہ، جاسوسی، ہیجان خیزی، کلاسک، غرض کون سی صنف ہے جس میں وہاں ڈرامے نہیں بن رہے۔ وہ موضوعات جنہیں ہمارے ہاں فلموں کے لیے بھی تصور میں نہیں لایا جاسکتا، وہاں اُن پر کئی کئی سالوں سے ڈرامے نشر ہو رہے ہیں۔

2۔ بجٹ

اگر کوئی پروڈیوسر یا پروڈکشن ہاؤس کسی منفرد اور اچھوتے خیال پر ڈراما بنانے کا تہیہ کر بھی لے تو بجٹ کا سوال آن کھڑا ہوتا ہے۔ منفرد تصورات کی عکس بندی اور کمپیوٹر گرافکس استعمال کرنے کی ضرورت ڈرامے کے بجٹ کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہے۔ امریکی ڈرامہ نگاروں اور پروڈیوسرز کو یہاں یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ وہ مارکیٹ وسیع ہونے کے باعث یہ اخراجات وصول کرسکتے ہیں۔ چنانچہ اُن کے ہاں ہمیں انتہائی مہنگے ڈرامے بھی نظر آتے ہیں۔ بعض ڈراموں کی تو ایک ایک اقساط اتنی مہنگی ہوتی ہیں کہ ہمارے ہاں اِس بجٹ میں کئی کئی ڈرامے مکمل تیار کرلیے جائیں۔

مثلاً ’لوسٹ‘ (Lost) نامی ٹی وی سیریز کی ایک قسط کا بجٹ 4 ملین ڈالر تھا۔ یہی نہیں بلکہ مشہور ٹی وی سیریز ’گیم آف تھرونز‘ (Game of Thrones) کی ایک ایک قسط کا بجٹ 6 ملین ڈالر تک جا پہنچتا تھا۔ گزشتہ دو دہائی میں بے حد مقبول رہنے والی ٹی وی سیریز ’فرینڈز‘ (Friends) کی ایک قسط کا بجٹ 10 ملین ڈالر تک جا پہنچتا تھا کیونکہ اِس کے ہر مرکزی کردار کو ایک قسط کا معاوضہ 1 ملین ڈالر دیا جاتا ہے۔ جی ہاں، ایک ملین ڈالر فی قسط۔ یہی نہیں، ’گیم آف تھرونز‘ کے مرکزی اداکاروں کو فی قسط ڈھائی ملین ڈالر سے زیادہ معاوضہ دیا جارہا ہے۔ ہماری مارکیٹ میں اتنے زیادہ اخراجات کو پورا کرنے کا تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

3۔ اندازِ فکر

موضوعات اور بجٹ کی اہمیت اپنی جگہ، مگر ہمارا اندازِ فکر بھی ایسا ہے کہ گھسے پٹے موضوعات ہی کو مسلسل رگیدا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ اگر کسی ڈرامے کا بجٹ زیادہ بھی ہو تو وہ بجٹ منفرد تصورات پیش کرنے کی بجائے پُرتعیش طرزِ زندگی، مہنگے ملبوسات اور انتہائی قیمتی زیورات کے استعمال پر خرچ کردیا جاتا ہے۔ اِس کی ایک مثال پاکستانی ٹی وی ڈراما، ’بشر مومن‘ ہے جسے پاکستان کی تاریخ کا سب سے مہنگا ٹی وی ڈرامہ قرار دیا جاتا ہے، لیکن اِس کی کہانی میں بھی کوئی انفرادیت نہیں تھی۔

4۔ ناظرین

یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ ہمارے ناظرین کی اچھی خاصی تعداد اب موضوعات میں تنوع دیکھنا چاہتی ہے اور اسی لیے وہ انگریزی مواد کی طرف رجوع کر رہی ہے، لیکن ہمارے ملک کا ایک بڑا طبقہ ابھی بھی روایتی موضوعات پر مبنی کہانیاں دیکھنا پسند کرتا ہے۔ گھریلو خواتین کی بڑی تعداد ایسے ہی ڈراموں کو ترجیح دیتی ہے، جب ڈرامہ سازوں کو یہ علم ہو کہ منفرد موضوع پر بننے والے ڈرامے ناظرین کی بڑی تعداد کو متوجہ نہیں کرسکتے تو وہ اِس سے احتراز ہی برتتے ہیں۔ تاہم وہ اتنا ضرور کرسکتے ہیں کہ آہستہ آہستہ اپنے موضوعات میں تبدیلی لانا شروع کریں اور ڈرامے میں خواہ گھریلو ماحول کا عنصر ضرور شامل رکھیں لیکن اِس کا کینوس بڑھائیں اور دیگر موضوعات کا احاطہ بھی کریں۔ ابتداء میں چند مقبول انگریزی ٹی وی سلسلوں کو اردو میں ڈب کرکے بھی پیش کیا جاسکتا ہے۔

یہ تو بات ہوئی اردو ٹی وی ڈراموں اور انگریزی ٹی وی سلسلوں کے مابین فرق کی، لیکن اگر اِس تحریر نے آپ کے دل میں یہ خیال ڈالا ہو کہ کیوں نہ اب آپ بھی کوئی انگریزی ٹی وی شو دیکھیں۔ لیکن کون سا دیکھیں تو؟ تو ذرا انتظار کیجیئے۔ اگلی تحریر میں ہم چند بہترین کہانیوں اور متنوع موضوعات پر مشتمل انگریزی ٹیلی ویژن ڈراموں کا تعارف پیش کریں گے جن سے آپ آغاز کر سکتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کےساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

عمار ضیا

عمار ضیا

عمار ابنِ ضیا ایک اردو بلاگر، مترجم اور لکھاری ہیں، اور ایک بین الاقوامی اشاعتی ادارے میں اردو ایڈیٹر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ لکھنا پڑھنا اور دلچسپ ٹی وی شوز دیکھنا ان کا مشغلہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔