ایک مرتبہ علامہ اقبال کے پاس ایک نوجوان آیا اور کہنے لگا:
’’اقبال صاحب! آپ نے شاعری میں مسلمانوں کو بہت جوش دلایا، پر خود تو سیاست میں عملی کردار نہیں نبھایا؟‘‘
اقبال مسکرائے اور فرمایا: ’’بیٹا! اگر خود ہتھیار اٹھاتا تو چند کو جگا پاتا، لیکن اگر میں شعور کو جگا دوں تو قوم خود بخود ہتھیار اٹھا لے گی۔‘‘
پھر فرمایا:’’قومیں نعروں سے نہیں کردار سے بنتی ہیں۔‘‘
علامہ اقبال کی شاعری نے عوام میں شعور جگایا اور قوم آزادی کی تحریک میں بڑھتی چلی گئی، یہ ایک ایسی راہ گزر تھی جو پرپیچ راستوں سے اٹی پڑی تھی، منزل دور نظر آتی تھی، کب ملے گی، کیسے ملے گی، ملے گی بھی یا نہیں؟ لیکن سب ایک مشن پر جت گئے۔
پاکستان اس مکمل مشن کی حقیقت ہے جسے بدصورت کرنے میں ہم سب جتے ہوئے ہیں۔ آئی ایم ایف کی پاکستان کے حوالے سے کرپشن کی جو رپورٹ ابھی کچھ عرصہ پہلے نظروں سے گزری اسے دیکھ کر عجیب سا تاثر پیدا ہوا، کیا ہم اس قدر گر چکے ہیں گو تنزلی کی باتیں کر، کر کے ہم تھک بھی چکے ہیں۔
لیکن باتیں کیا حقائق ہی ایسے ہیں کہ چپ رہا نہ جائے اور بول بول کر حلق ہی سوکھ جائے پرکس کے کان پر جوں رینگتی ہے۔ سو بندہ کرے بھی کیا، دعائیں تو مانگ ہی سکتا ہے۔
سنا تھا پنجاب میں ڈرائیونگ لائسنس فیس بارہ ہزار اور سندھ ، بلوچستان اور کے پی کے میں بارہ سو روپے ہے تو ہمارے پنجاب والے بھائی ناراض ہیں کہ ان کی اتنی فیس کیوں ہے، تو عرض ہے کراچی میں بھی ڈرائیونگ لائسنس فیس اتنی کم نہیں، بات اتنی سی ہے کہ اگر اکیس یا چوبیس سو سرکاری فیس تحریر ہے تو۔
’’ ہم نے آٹھ ہزار روپے فی بندہ کے حساب سے فیس دی ہے۔‘‘
’’ لیکن آٹھ ہزار روپے تو فیس نہیں ہے۔‘‘
’’ جی بالکل، آٹھ ہزار روپے، دراصل سب ملا کر دیے ہیں ناں۔‘‘…’’ سب ملا کر مطلب؟‘‘
مسکرا کر ’’ دراصل وہ فیس کے علاوہ بھی پیسے دینے پڑتے ہیں، ورنہ مشکل ہوتی ہے۔‘‘
اس سے آگے کی بات سمجھنے کی ضرورت نہیں۔ ہم سب ای چالان سے پریشان ہیں، حال ہی میں ایک انتہائی قلیل تنخواہ پانیوالے صاحب نے اپنا بڑا سا بل کھول کر دکھایا یوں لگ رہا تھا جیسے بجلی یا گیس کا بل ہے، پر وہ بلز تو اب مختصر کر دیے گئے ہیں لیکن یہ ای چالان جو ان کے گھر بہ ذریعہ ڈاک آیا تھا پرانے بلوں کی مانند بڑا تھا۔
اس میں ان صاحب کی بائیک پر تصویر بھی کھنچی تھی۔ صاحب حیران تھے کہ ان کے سر پر ہیلمٹ بھی ہے، پھر بھی اتنا مہنگا چالان جو غالباً پچیس سو روپے تک کا تھا، جاری کر دیا گیا تھا۔ غور سے دیکھنے پر پتا چلا کہ ان کے پیچھے بیٹھا شخص بنا ہیلمٹ کے تھا اور وہ طاقتور کیمرے کی نظر سے بچ نہ سکا اور یوں قصور وار قرار پائے۔
اس بات پر وہ مطمئن تھے کہ ان کی پہلی غلطی معاف کردی جائے گی اور آیندہ وہ کسی کو بھی لفٹ دینے کی ہمت نہیں کریں گے کہ ایک نیکی سر پر ہزاروں روپے کے جوتے برسائے گی، مہنگائی کے اس دور میں وہ کب تک ان چالانوں کی بھرپائی کر سکیں گے۔
یہ ای چالان کا نظام ترقی یافتہ ممالک میں رائج ہے۔ بھری ہوئی جیبیں، خوش حالی، اچھا روزگار، سازگار ماحول ساتھ صفائی ستھرائی بھی تو حق تو بنتا ہے کہ ان کی قانون شکنی (جو انھیں گھول کر پلا دیا گیا ہے) پر سزا اور چالان کیا جائے پر ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، کچرا، قلیل تنخواہیں، غربت کی شرح سے نیچے زندگی گزارنے والے مجبور، شکستہ لوگ، کیا ہم ان کا مقابلہ کسی ترقی یافتہ ملک کی قوم سے کر سکتے ہیں؟
قانون کا سب پر یکساں لاگو ہونا بہت اچھی بات ہے پر اس کی دھجیاں بکھیرنا، بات پھر سمجھ میں نہیں آتی کہ ہمارے یہاں اس دور میں نہ تو کوئی علامہ اقبال کی طرح بلند پائے کا شاعر ہے اور نہ ہی گورے سرکار ہیں کہ جن کو ظالم سمجھ کر ہم بھر بھر کر بدعائیں دیں اپنوں کے لیے بددعا نکلے بھی تو کیسے؟
بات کرپشن کی ہو رہی تھی جس کی بنیادیں ہماری قوم کی تاریخ سے جڑی ہیں۔ آج ہم جس مقام پر کھڑے ہیں وہاں کرپشن کی بنیاد پر کھڑا سونے چاندی کا کرپٹ مافیا بلند ہوتا جا رہا ہے اور ملک کی معیشت پر سوال اٹھ رہے ہیں کہ اس کی کمزور، ناتواں جڑیں ابھی تک نمو نہ پا سکیں۔
ہمارے قومی ادارے جو ملک کی معیشت کو اٹھائے رکھنے کے ذمے دار ہیں، مسائل میں گھرے ہیں آخر کیوں؟ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے نیشنل کرپشن پر ایک سروے رپورٹ 2025 جاری کی ہے، ان کے مطابق تو ملک میں کرپشن کے تاثر میں واضح کمی اور شفافیت میں بہتری سامنے آئی ہے۔
اس رپورٹ میں سارے اداروں کے بارے میں بڑا صحت بخش تاثر نظر آ رہا ہے۔ اس سروے میں چار ہزار افراد نے حصہ لیا تھا۔ کیا یہ چار ہزار افراد پورے ملک کے خیالات کی بھرپور نمایندگی کر سکتے تھے؟ بہرحال رپورٹ تو ایک تحریر ہوتی ہے لیکن حقیقت میں اس کا تعلق کس کس ادارے سے کس حد تک گہرا ہے خدا جانے۔
اس رپورٹ پر مزمل اسلم، مشیر خزانہ کے پی کے کا کہنا ہے کہ کرپشن کے لحاظ سے پنجاب سب سے اوپر جب کہ کے پی کے سب سے نیچے ہے۔ مزمل اسلم کا یہ کہنا ایک دلیرانہ بیان بھی ہے کہ وہ اقرار کر رہے ہیں کہ ان کے صوبے میں بھی کرپشن ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہمارا ملک کرپشن کے ناسور سے سلگ رہا ہے ہر ادارہ اس زہر سے مستفید ہو رہا ہے۔
ساری مراعات ایک خاص طبقے کی نذر ہو رہی ہیں اور عام غریب عوام اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہے۔ ہم غیر ذمے داریوں کی کرپشن سے نکلنے کا سوچتے بھی نہیں کہ سب سے بڑا عذاب یہی ہے۔ ہمارے لیے ہماری فیملی، ہمارے عزیز و اقارب، دوست سب سے اہم ہیں۔ ہم اور ہمارے کی بنیاد پر اپنے لیے کام کرنے کی جستجو اور لگن بڑھتی ہی جا رہی ہے جو ہمیں ہمارے ارد گرد سے اس قدر بے پرواہ کر رہی ہے کہ مسائل ابل رہے ہیں۔
حق دار سسک رہے ہیں اور ذمے دار خاموش کی گردان میں الجھے ہیں اس کے طلسم سے ہماری قوم کیسے آزاد ہوگی جو ہم ایک قوم بن کر اس بھیانک خواب سے جاگیں گے کہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے، ستر برس گزر چکے ہیں۔ کہیں ہم ایک صدی گزر جانے کا انتظار تو نہیں کر رہے؟ خدارا اپنے کردار پر نظر ڈالیے۔