بھارت کو بھرپور جواب دیا جائے

ایم جے گوہر  جمعرات 23 اکتوبر 2014

دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کے قیام کا مقصد ہی یہ تھا کہ دنیا آیندہ تیسری جنگ عظیم کے خطرات سے محفوظ رہ سکے اور اقوام متحدہ کے رکن ممالک اپنے تنازعات اس عالمی فورم کے سامنے رکھیں اور عالمی برادری متنازعہ مسائل کے لیے باہمی مشاورت اور اتفاق رائے سے کوئی ایسا قابل قبول لائحہ عمل اور فیصلہ صادر کر سکے جو ہر دو فریق کے لیے قابل قبول ہو اور کسی تصادم کی نوبت نہ آئے۔

بھارت کے اول وزیر اعظم جواہر لال نہرو مسئلہ کشمیر کو از خود اقوام متحدہ میں تصفیے کے لیے لے کر گئے تھے جہاں عالمی برادری نے اتفاق رائے سے قراردادیں منظور کی تھیں کہ کشمیر ایک متنازعہ مسئلہ ہے لہٰذا اس کے حل کے لیے کشمیریوں کو حق خود ارادیت دے دیا جائے، جواہر لال نہرو نے عالمی برادری کے سامنے کشمیر میں استصواب رائے کے لیے ریفرنڈم کرانے کا وعدہ کیا تھا لیکن بھارت واپس جا کر وہ اپنے وعدے کی لاج رکھنے میں کامیاب نہ ہو سکے اور جلد دنیا سے کوچ کر گئے۔

ان کے بعد آنے والے بھارتی حکمرانوں نے کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پرکاہ کے برابر اہمیت نہ دی بلکہ الٹا یہ راگ الاپنا شروع کر دیا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، جب کہ بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے جن کی مسلم اور پاکستان دشمنی کھلی کتاب کی طرح ہے، اقوام متحدہ کے حالیہ اجلاس میں خطاب کے دوران یہ کہہ کر حجت تمام کرنے کی کوشش کی کہ متنازعہ مسائل اقوام متحدہ میں لانے سے حل نہیں ہوں گے گویا انھوں نے پاکستان اور کشمیری عوام کو دو ٹوک پیغام دے دیا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھول جائیں بھارت ان قراردادوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔

راقم نے اپنے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ بھارت کا مسئلہ کشمیر پر تازہ موقف اقوام متحدہ کی توہین کے مترادف ہے عالمی برادری کو اس کا نوٹس لینا چاہیے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کو حل کروانے میں اپنا موثر کردار ادا کرنا چاہیے۔  یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اقوام متحدہ کے فلور پر کھڑے ہو کر اس کے رکن ملک کا معزز ایوان کی منظور کردہ قراردادوں کے بارے میں لا تعلقی کا اعلان کرنا خود اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے کی بے حسی اور بے بسی کا مظہر ہے کہ نریندر مودی کے غیر ذمے دارانہ بیان پر اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری بان کی مون نے کوئی آواز بلند نہیں کی یہ پاکستان اور کشمیری عوام کی بد نصیبی ہے کہ عالمی امن کا ذمے دار ادارہ اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر پر اپنی ہی منظور کردہ قراردادوں پر عمل در آمد کرانے میں تاحال بری طرح ناکام چلا آ رہا ہے۔

آج جب بھارت گزشتہ کئی دنوں سے کنٹرول لائن کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے سیالکوٹ سیکٹر کے متعدد دیہاتوں پر فائرنگ اور گولہ باری کر کے سرحدی جنگ کا ماحول پیدا کر دیا جس کے نتیجے میں ایک درجن سے زائد لوگ ہلاک اور درجنوں زخمی ہو چکے ہیں پاک فوج کی جوابی کارروائی کے باوجود بھارتی افواج وقفے وقفے سے خاموشی کے بعد پھر فائرنگ شروع کر دیتی ہیں۔ پاکستان کے مسلسل احتجاج کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے تو ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت پاکستان بھارتی جارحیت کے خلاف سخت گیر موقف اختیار کرتی لیکن حکومت نے اسی اقوام متحدہ کی جانب سے رجوع کرنا کافی سمجھا جو فی زمانہ از خود بے بسی و بے حسی کی تصویر بنا ہوا ہے۔

نواز حکومت نے ڈیڑھ سال گزار لیا لیکن آج تک مستقل وزیر خارجہ کا تقرر نہ کر سکی، علاقائی و عالمی حالات کے تناظر میں کل وقتی وزیر خارجہ کی اہمیت سے ہماری حکومت کو کوئی سروکار نہیں وہ اپنا کام مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور سے ہی چلا رہی ہے جن کا نام نامی سرتاج عزیز ہے انھی نے حکومتی ایما پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کے نام ایک خط ارسال کیا ہے جس میں کہا گیا کہ بھارت گزشتہ ایک ہفتے سے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر اشتعال انگیزی اور دانستہ گولہ باری کر رہا ہے جو سیز فائر کی خلاف ورزی ہے، مشیر خارجہ نے بان کی مون کو یاد دلایا ہے کہ سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر جموں و کشمیر کا مسئلہ موجود ہے جو دیرینہ حل طلب تنازعات میں سے ایک ہے۔

سلامتی کونسل کی قراردادیں واضح طور پر کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیتی ہیں جن پر آج تک عمل در آمد نہ ہو سکا۔ کئی دہائیوں سے پاکستان یاد دہانی کرا رہا ہے کہ اقوام متحدہ خطے میں پائیدار امن اور سیکیورٹی کے مفاد میں اپنے وعدے کی تکمیل یقینی بنانے اور ہمارے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بھی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت پر زور دیا ہے یہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی ذمے داری ہے کہ وہ اس مسئلے کو کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کرائے تا کہ خطے میں امن قائم ہو سکے۔

خط میں آگے چل کر کہا گیا ہے کہ بھارت ورکنگ باؤنڈری اور لائن آف کنٹرول پر صورت حال کشیدہ کر رہا ہے مسلسل گولہ باری اور فائرنگ سے سول آبادی نشانہ بن رہی ہے، اعداد و شمار کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اب تک ایل او سی پر 20 اور ورکنگ باؤنڈری پر 22 مرتبہ سیز فائر کی خلاف ورزی کی گئی ہے جس سے 12 شہری شہید 52 زخمی اور 9 فوجی بھی زخمی ہوئے جون سے اگست 14 تک لائن آف کنٹرول پر 99 اور ورکنگ باؤنڈری پر 2 مرتبہ سیز فائر کی خلاف ورزی کی گئی جب کہ 2014ء کے دوران اب تک لائن آف کنٹرول پر اب تک 174 اور ورکنگ باؤنڈری60 بار سیز فائر کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

مشیر خارجہ نے یہ استدعا بھی کی کہ اس خط  کو سرکاری دستاویز کے طور پر اراکین کونسل میں تقسیم کیا جائے، سوال یہ ہے کہ کیا اقوام متحدہ کو خط لکھ کر حکومت نے اپنا فرض پورا کر دیا؟ اس نے کشمیریوں کا حق ادا کر دیا آیا اس سے آگے کچھ نہیں کرنا ہے؟ نہیں جناب ایسا نہیں ہے صورت حال کی نزاکت اور سنگینی کا تقاضا یہ ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف جلد قوم سے خطاب کریں عوام کو اعتماد میں لیں پارلیمنٹ کا اجلاس بلائیں اور بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے واضح حکمت عملی طے کریں فوج کا مورال بلند کرنے اور قوم کا شعور اجاگر کرنے اور ان میں قومی یکجہتی جذبہ حب الوطنی پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تنازعہ کشمیر اور بھارتی ہٹ دھرمی کو پوری شدت کے ساتھ اجاگر کیا جائے، بھارت خطے میں اپنی چوہدراہٹ قائم کرنا چاہتا ہے اس کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے ہمیں نرمی دکھانے کی بجائے ہر سطح پر بھارت کو سخت اور بھرپور جواب دینا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔