یوٹیوب نے آمدنی میں اضافے کے لیے شدت پسند مواد پھیلایا، رپورٹ

ویب ڈیسک  پير 23 اپريل 2018
یوٹیوب پر لاکھوں ڈالرادا کرنے والی کمپنیوں کے اشتہارات ان ویڈیوز کے ساتھ نشر ہورہے ہیں جو متنازع معاملات کو ہوا دے رہی ہیں (فوٹو: فائل)

یوٹیوب پر لاکھوں ڈالرادا کرنے والی کمپنیوں کے اشتہارات ان ویڈیوز کے ساتھ نشر ہورہے ہیں جو متنازع معاملات کو ہوا دے رہی ہیں (فوٹو: فائل)

 واشنگٹن: یوٹیوب پر گزشتہ دنوں کئی سنجیدہ اعتراضات اٹھائے گئے ہیں اور اب تازہ خبر یہ آئی ہے کہ اس مشہور ویڈیو ویب سائٹ پر شدت پسندی اور متنازع معاملات کو ہوا دینے والے چینلز پر دنیا بھر کی ایسی کمپنیوں کے اشتہارات چل رہے ہیں جو عالمی سطح پر مقبول ہیں۔

سی این این نے اپنے ذرائع سے تحقیق کے بعد ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں، اخبارات، صارفین کو سہولیات فراہم کرنے والی فرمز یہاں تک کہ حکومتی ایجنسیوں کے اشتہارات بھی ایسی ویڈیوز کے درمیان ظاہر ہورہے ہیں جو بچوں سے بدفعلی، سفید فام نسل پرستی، نازی فکر، سازشی نظریات، نفرت انگیز سوچ اور شمالی کوریا کے پروپیگنڈے کو پروان چڑھا رہی ہیں۔

اشتہارات دینے والے اداروں میں نامی گرامی کمپنیاں شامل ہیں جن میں ایڈیڈاس، ایمیزون، سسکو، فیس بک، ہارشے، موزیلا، ہلٹن، لنکڈ ان، اور دیگر مشہور فرمز اور ٹیکنالوجی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں متنازع اور شدت پسندی کو فروغ دینے والے ان چینلز پر پانچ امریکی حکومتی تنظیموں کے اشتہار بھی دکھائے جارہے ہیں اور وہ ان تمام معاملات سے بالکل بے خبر ہیں۔

یوٹیوب کے اس قدم سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں کہ آیا وہ برانڈز کو ان کے معیارات کے تحت درست چینلز پر دکھانے کی پابند ہے یا پھر یہ کسی خود کار نظام کے تحت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض کمپنیوں نے یوٹیوب پر اپنے اشتہارات روک لیے تھے لیکن اکثریت نے کچھ عرصے بعد دوبارہ اپنے اشتہارات دکھانے شروع کردیئے ہیں۔ اس کی وجہ نوجوان نسل کی اس ویب سائٹ پر موجودگی ہے۔ یوٹیوب کے مطابق اس کے ایک ارب یوزر ہیں اور روزانہ اس پلیٹ فارم پر ایک ارب گھنٹے کی ویڈیو دیکھی جاتی ہے۔

اس پس منظر میں یوٹیوب کے ترجمان نے بتایا کہ ’ ہم اپنے شریک مشتہرین کے ساتھ مل کر اہم تبدیلیاں لارہے ہیں جس میں یوٹیوب کے ذریعے رقم کمانے کی پالیسیوں کو مزید سخت کیا جارہا ہے، اس کے کنٹرول اور شفافیت پر کام کیا جارہا ہے جب بھی ہمیں کسی متنازع ویڈیو کے ساتھ اشتہارات کی خبر ملتی ہے ہم فوری طور پر اسے ہٹادیتے ہیں۔

یوٹیوب کے ترجمان نے کہا کہ ہمیں علم ہے کہ تمام ویڈیوز تمام اشتہارت کے لحاظ سے نہیں ہوتیں لیکن ہم مسلسل اپنے مشتہرین کے ساتھ مل کر اس عمل کو بہتر بنارہے ہیں‘۔

اس لگے بندھے جواب کے بعد یوٹیوب نے یہ نہیں بتایا کہ اشتہار دینے والی کمپنیوں کو ان مسائل کا سامنا کیوں ہورہا ہے۔

واضح رہے کہ یوٹیوب پر بلامعاوضہ ویڈیو پوسٹ کی جاسکتی ہیں۔ اگر ایک سال میں کوئی چینل 1000 سبسکرائبرز اور 4000 گھنٹے تک دیکھی جانے والی ویڈیوز کا اہل ہوتا ہے تو وہ اس پر اشتہارات کے ذریعے رقم کما سکتا ہے۔ اس ضمن میں کمپنیوں سے اشتہار کی مد میں لی جانے والی رقم کا کچھ حصہ یوٹیوب اپنے پاس رکھتا ہے تاہم یوٹیوب نے متنازع ویڈیوز سے رقم بنانے کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے ان پر اشتہارات نہ چلانے کا فیصلہ کیا تھا اور خود کمپنیاں بھی اس ضمن میں یوٹیوب پر اعتبار کرتی ہیں۔

جب ان کمپنیوں سے ان کے اشتہارات پر بات کی گئی تو  اکثریت نے اس امر پر لاعلمی کا اظہار کیا اور بعض نے یوٹیوب سے رابطے اور اس کی وجہ جاننے کی ضرورت پر زور دیا۔

واضح رہے کہ قبل ازیں یوٹیوب پر بچوں کی ویڈیوز پر ہزاروں لاکھوں بچوں کی تفصیلات جاری کرنے پر بھی تنقید کی جاتی رہی ہے جن سے بچوں کے استحصال کرنے والے افراد اپنے مذموم مقاصد پورے کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔