پلاسٹک کی آلودگی کو شکست دی جا سکتی ہے؟

ڈاکٹر عرفان احمد بیگ  اتوار 3 جون 2018
ہمیں ان خطرات کے پیش نظر ابھی سے کس طرح کی پیش بندی کرنی چاہیے۔فوٹو : فائل

ہمیں ان خطرات کے پیش نظر ابھی سے کس طرح کی پیش بندی کرنی چاہیے۔فوٹو : فائل

1974 ء میں اقوام متحدہ کو عالمی یوم ماحولیا ت کا خیال آیا اور پہلی مرتبہ ہوکین امریکہ نے اس کی میزبانی کا شرف حاصل کرتے ہوئے صرف ایک دنیا اور 1974 ء کی نمائش کے مرکزی خیال کے ساتھ اس دن کو منایا اور اب 5 جون 2018 ء کونئی دہلی بھارت کی میزبانی میں عالمی یوم ماحولیا ت ’’Beat Plastic Pollution ،، یعنی پلا سٹک کی آلودگی کو شکست دیں کے مرکزی خیال کے ساتھ منا رہا ہے۔

پہلےworld Environment Day عالمی یوم ماحولیات سے آج 45 ویں یوم ماحولیا ت پر دنیا کی آبادی دگنے سے زیادہ اضافے کے ساتھ ساڑھے سات ارب سے زیادہ ہو چکی ہے اور دنیا کی تقریباً آدھی آبادی خط ِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ عالمی سطح پر غربت کی کئی وضاحتوں اور تعریفوں میں سب سے اہم تعریف یہ ہے کہ آج کی دنیا میں جس شخص کی یومیہ آمدنی دو امریکی ڈالر سے کم ہے وہ دنیا میں غریب تصور کیا جاتا ہے یعنی ہمارے پاکستان میں اگر کوئی شخص 240 روپے سے کم کماتا ہے تو وہ غریب ہے۔ یوں بنیادی اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی بدصورتی یعنی ماحول کی خرابی کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔

نمبر ایک آبادی میں بے تحاشہ اور تیزی سے اضافہ اور نمبر دو غربت، یوں اگر ہم آج کی دنیا کو دیکھیں تو 1974 ء میں جب دنیا میں پہلی مرتبہ ماحولیات کا عالمی دن منایا گیا تھا تو اس وقت دنیا کی جو کل آبادی تھی آج اتنی تعداد میں یعنی تین ارب سے زیادہ غریب لوگ دنیا میں موجود ہیں، غربت ہم اس اقتصادی، مالیاتی اور معاشی حالت کو کہتے ہیں جس میں کوئی فرد اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات،روٹی،کپڑا،مکان، علاج اور تعلیم کو پورا نہیں کر سکتا ہے ایسی کیفیت میں انسان بہت کم آمدنی اور نہایت کم قوت خرید کے پیش نظرنہایت غیر معیاری اشیا ِ صرف اور اشیا خورونوش استعمال کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج کی دنیا میں شاپنگ بیگ سے لے کر کھانے کے برتنوں تک ہر چیز پلاسٹک کی نظر آتی ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہم حساسیت کے اعتبار سے خود بھی شائد پلاسٹک کے ہو چکے ہیں۔ پلاسٹک پٹرولیم کی مصنوعات میں سے ایک ہے جو ماحول میں دیگر حل پذیر مادوں کے مقابلے اول تو حل نہیں ہو پاتا اور اگر حل ہو بھی تو کم از کم ایک صدی کا عرصہ لیتا ہے۔

ہمارے ملک کا مجموعی رقبہ 796095 مربع کلو میٹر ہے اور ہم صرف پلاسٹک کے بیگوں یا شاپروں کی صورت میں سالانہ اتنا پلاسٹک استعمال کرتے ہیں کہ اس سے تقریبا دو لاکھ مربع کلو میٹر رقبہ ڈھانپا جا سکتا ہے۔ اگرچہ اس وقت اس عذاب سے بچانے والے ہمارے وہ لاکھوں کچرا چننے والے بچے ہیں جو روزانہ پورے ملک کے کچرا دانوں سے ہزاروں ٹن پلاسٹک شاپر اور دوسری اشیا چُن کر دو وقت کی روٹی کماتے ہیں اور یہ پالاسٹک ری سائیکل ہو جا تا ہے مگر وہ پلاسٹک بیگ جو ہواؤں سے اڑتے ہوئے ہمارے جنگلات رینج لینڈ ز،صحراؤں اور دشت میں بکھر رہے ہیں ان کو سمیٹنا اگر نا ممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے اور یہ پلاسٹک بیگ پورے ماحولیاتی نظام کو تباہ کر رہے ہیں ۔

ہمارے ملک میں خوش قسمتی سے تقریبا آٹھ ایکالوجیکل زون ہیں جن میں سے دو کو دنیا میں منفردقرار دیا جا سکتا ہے۔کو ئی ایکالو جیکل زون یا علاقہ وہ ہوتا ہے جو اپنی جغرافیائی اور موسمیاتی پوزیشن کے لحاظ سے اپنے پودوں،جڑی بوٹیوں، درختوں، پرندوں، حشرات، رینگنے والے جانوروں،گوشت خور اور گھاس کھا نے والے جانوروں کی اقسام کے لحاظ سے دوسری طرح کے ایکا لوجیکل زون سے موسم اور جغرافیائی پوزیشن کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے اور یہ تما م جاندار ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ اس کو فطرت کے اعتبار سے فوڈ چین بھی کہتے ہیں اور اگر کسی قدرتی یا غیر قدرتی وجہ سے ان میں سے کوئی ایک بھی مکمل طور پر ختم ہو جائے تو اس سے پورا ایکو سسٹم عدم توازن کا شکار ہو تا ہے اور ایکا لوجیکل زون تباہ ہو جاتا ہے، مثلاً پرندے حشرات کو کھاتے ہیں اگر کسی وجہ سے دونوں میں سے کوئی ایک مکمل طور پر ختم ہو جائے تو دوسرا یا تو ختم ہو جائے گا یا پھر اسی ایکو سسٹم میں دوسرے جاندار یا جانور کو ختم کرے گا ۔

اگر پرند ے ختم ہونگے تو حشرات درختوں ، جھا ڑیوں ، جڑی، بوٹیوں اور پودوں کو ختم کردیں گے۔ اب جہاں تک پلاسٹک کے تھیلوں کا تعلق ہے تو یہ بہت ہی ہلکے ہوتے ہیں اور ہوا اور آندھیوں سے اڑتے ہوئے درختوں، جھاڑیوں ،جڑی بوٹیوں سے چمٹ جاتے ہیں اور ان سے ان مختلف ایکالوجیکل زونوںمیں فطرت کے حیاتیاتی نظاموں کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ ہمارے ملک کے کل رقبے میں سے347190 مربع کلو میٹر رقبے کا صوبہ بلو چستان جو کل ملکی رقبے کا تقریبا 43% ہے، یہاں اندرون بلوچستان پلاسٹک کے تھیلوں سے تقریبا سات ایکالو جیکل زونوں کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔

صوبہ بلوچستان کے پاس جہاں ملک کے کل ایک ہزار کلو میٹر ساحل میں سے 775 کلو میٹر ہے تو ساتھ ہی اس صوبے میں دشت ،صحرا ، میدانی اور پہاڑی علاقے بھی ہیں اور پھر سب سے اہم یہ ہے کہ پاکستان میں جغرافیائی اور موسمیاتی اعتبار سے پنجاب اور سندھ کے بیشتر علاقوں کا تعلق مون سون اور خلیج بنگال سے ہے اور یہ موسم گرما اور برسات میں اثرانداز ہوتا ہے جبکہ موسم سرما کی بارشوں اور ہواؤں کے لحاظ سے بلوچستان اہم ہے جس کی سرحدیں ایران اور افغانستان سے ملتی ہیں اور سرما کی بارشیں خلیج فارس سے آنے والی ہواؤں اور بادلوں سے ہوتی ہیں ۔

بلوچستان کے بیشتر علاقے خشکابہ یعنی بارانی ہیں ان میں ایک جانب گر م ترین علاقے ہیں تو دوسری جانب سرد ترین علاقے ہیں اور ان کا بہت گہرا تعلق مجموعی طور پر پورے ملک سے بنتا ہے۔ بدقسمتی سے ماحولیاتی تبدیلیوں اور تباہیوں کا آغاز 21 برس پہلے 1997 ء میں بلوچستان کی شدید ترین سات سالہ خشک سالی سے ہوا تھا اس خشک سالی کا پھیلاؤ سنٹرل ایشیا کی کچھ ریاستوں کے ساتھ افغانستان، ایران ، بلوچستان، تھر اور بھارتی علاقہ راجستھان سے تھا مگر ہمارے ہاں اس جانب توجہ نہیں دی گئی اور جب 2002-03 ء میں نوبت لاکھوں مویشیوں کی ہلاکت کے بعد انسانوں تک پہنچنے لگی تو پھر توجہ دی گئی اور دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والوں کو معلوم ہو ا کہ بلوچستان میں لاکھوں ایکڑ پر موجود باغات خشک ہونے پر کاٹ، کاٹ کر خشک لکڑیوں کے بھاؤ فروخت کئے گئے۔ اس صورتحال میں دیگر اسباب کے ساتھ ساتھ ایک بڑا سبب پلاسٹک کے بیگ بھی تھے۔

دوسری جانب ماحولیات کے لحاظ سے اس وقت دنیا بھر میں شہری آبادی زیادہ متاثر ہورہی ہے کیو نکہ اب دنیا میں شہری آبادی کا تناسب دیہی آبادی کے مقابلے میں زیادہ ہو چکا ہے۔ 2015 ء کے مطابق دنیا کی کل آبادی میں سے شہری آبادی کا تناسب 54% اور دیہی آبادی46% تھی یعنی 2015 ء میںدنیا کی کل آبادی 7 ارب 34 کروڑ سے زیادہ تھی اور اس میں شہری آبادی 3 ارب 96 کروڑ سے زیادہ تھی۔ واضح رہے کہ 1980 ء میں دنیا کی کل آبادی 4 ارب 43 کروڑ 90 لاکھ تھی اور اس میں سے شہری آبادی 1 ارب 73 کروڑ 10 لاکھ تھی ہمارے ہاں یعنی ایشیا میں اب بھی شہری آبادی کا تناسب 48% ہے جب کہ اس کے مقابلے میں شمالی امریکہ میں یہ تناسب 82 فیصد لاطینی امریکہ میں 80% یورپ میں 74% آسٹریلیا میں 71% اور شمالی افریقہ میں 52 فیصد ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مغربی ترقی یافتہ ممالک میں شہری آبادی کا تناسب زیادہ ہے لیکن یہ شہر مجموعی طور پر ہمارے شہروں کے مقابلے میں زیادہ آبادی کے اور گنجان آبا د شہر نہیں۔

اس وقت جہاں تک آلودگی کا تعلق ہے تو اس آرٹیکل میں صرف شہروں کی فضائی آلودگی کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور اس آلودگی کی بڑی وجہ دھواں، تیل، پیٹرول،ڈیزل اور معدنی کوئلے کا استعما ل ہے۔ جہاں تک دھوئیں کا تعلق ہے تو اس میں کچرے اور پلاسٹک کو جلانے سے پیدا ہونے والا دھواں زیادہ خطرناک ہے اس لیے اب شہروں میں رہنا اور سانس لینا بھی دشوار ہو گیا ہے اس کے لیے ماحولیات کے ماہرین نے فضائی آلودگی کی پیمائش کے پیمانے بنائے ہیں ۔ فضا میں مضر صحت دس عناصر زیادہ خطرناک ہیں، ان ذرات کے سائز کو مائیکرو میٹر سے ناپا جاتا ہے، مائیکرو میٹر کو یوں سمجھیں کہ انسانی بال کی مو ٹائی 100 مائیکرو میٹر ہوتی ہے اور 2.5 مائیکرو میٹر قطر کے ذرے کو پی ایم 2.5 کہتے ہیں، یہ ذرات بہت ہی چھو ٹے ہوتے ہیں اور یہ سانس کے ساتھ اندر چلے جاتے ہیں اور ان ذرات کو ناک کے بال بھی نہیں روک سکتے۔

اس کے بعد دوسرا پیمانہ ذرات کی موٹائی کے اعتبار سے چار گنا ہے جو پی ایم PM ۔10 ہے یہ ذرات بھی خطرناک ہوتے ہیں لیکن ان ذرات کو نا ک کے بال روک لیتے ہیں، اگر کسی علاقے کی فضا میں پی ایم 2.5 کی سطح 50 سے زیادہ ہو تو وہ انسانی صحت کے لیے خطرناک ہوتی ہے اور پی ایم 10فضا میں 200 سے زیادہ ہوں تو صحت کے لیے نقصان کا سبب بنتے ہیں، یوں نومبر 2017 ء کے مطابق بھارت کے شہر دہلی کو مجموعی طور پر دنیا کا سب سے زیادہ آلودہ شہر قرار دیا گیا، اس کے بعد PM-2.5 کے اعتبار سے فضائی آلودگی کے لحاظ سے ٹاپ ٹونٹی شہروں کی صورتحال یوں ہے، نمبر ایک پر ایران کا شہر زابل ہے ۔

جہاں پی ایم 2.5 کی تعداد فضا میں217 ہے، دوسرے نمبر پر بھارتی شہر گوالیار ہے جہاں یہ 176 ہے، تیسرے نمبر پر بھی بھارتی شہر الہ آباد ہے جہاں یہ 170 ہے، چوتھے نمبر پر سعودی عرب کا شہر ریاض ہے، جہاں156 ہے پا نچویں پر بھی سعودی عرب کا شہرالجبائل 152  ہے، نمبر 6 پر پٹنہ بھارت 149 ، نمبر7 پر رائے پور 144 ، نمبر 8 پر132  کے لحاظ سے کیمرون کا شہر بامانڈا نوٰن ، نمبر9 پر پی ایم 2.5 کے اعتبار سے چین کا شہر زنگٹائی ہے، نمبر10 پر چین ہی کا شہر باؤڈنگ126 ہے، نمبر11 پر بھارتی شہر دہلی ہے جہاں 122 پی ایم 2.5 ہے، نمبر 12پر بھارتی شہر لدھیانہ 122 کے ساتھ ، نمبر13 پر سعودی عرب کا شہر داما م121 پی ایم2.5 کے ساتھ ہے، نمبر چودہ پر چین کا شہر شی جیانگ زونگ ہے جہاں پی ایم 2.5 کی صورتحال 121 ہے۔

اس کے بعد بھارتی شہر کانپور، فیروزآباد، لکھنو چین کا شہر ہونڈان اور آخر میں پاکستان کا شہر پشاور ہے جہاں پی ایم 2.5 کی صورتحال 111ہے۔ جہاں تک تعلق PM-10 کا ہے تو یہ حقیقت ہے کہ اس مائیکرو میٹر قطر کے ذرات کو ناک کے بال تو روک سکتے ہیں مگر یہ منہ کے راستے گلے کو بھی متاثر کرتے ہیں اور نباتات ،حیوانات ،کھانے پینے کی تمام اشیا کو متا ثر کرتے ہیں۔

اس اعتبار سے دنیا بھر کے شہر وں کا جائزہ لیا گیا تو نائیجر یا کا شہر اونیتشہا PM-10 کی تعداد 594 کی بنیاد پر دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہے اس کے بعد پاکستان کا شہر پشاور 540 پی ایم 10 کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے۔ یوں PM-10 کی بنیادپر 527 سے225 تک جو دس مائیکرو قطر کے ذرات فضا میں مو جود ہیں ان کے لحاظ سے تیسرے نمبر سے بیسویں نمبر تک ترتیب یوں ہے ایران کا شہر زابل ، راولپنڈی پاکستان،کاڈونا نائجیریا، ابا نائجیرا، ریاض سعودی عرب، الجوبائل سعودی عرب، مزار شریف افغانستان،گوالیار بھارت، حماد ٹاؤن بحرین، الہ آباد بھارت ، شیجیزھئانگ چین ،کراچی پاکستان ، دامام سعودی عرب، یو ماحا نائیجیریا، رائے پور بھارت،کابل افغانستان ، ماامیر بحرین، بو شہر ایران ، یوں پی ایم 2.5 کے اعتبار سے ٹاپ ٹوینٹی میں پاکستان کا ایک شہر اور PM-10 کی بنیاد پر دو بڑے شہر شامل ہیں۔

اس سے بڑھ کر خطرناک بات یہ ہے کہ 9 نومبر 2017 کو یعنی آج سے سات ماہ پہلے شائع ہونے والی عالمی ادارہ صحت کی اس رپورٹ کے مطابق ڈبلیو ایچ او نے دنیا بھر کے  100 ملکوں میں جاکر 1600 شہری آبادیوں کے مقامات کا فضائی آلودگی کے لحاظ سے سروے کیا اور پوری دنیا میں اوسطاً شہری علاقوں میں سب سے زیادہ آلودہ شہری علاقے پاکستان کے ہیں جہاں PM-2.5 کی صورتحال فضا میں اوسطاً 115.7 ہے اس کے بعد 19 ممالک میں قطر ، افغانستان ، بنگلہ دیش ، مصر ، متحدہ عرب امارات، منگولیا، بھارت ، بحرین ،نیپال،گھانا، اردن، چین ، سینی گال، ترکی، بلغاریہ، موریتانیہ، پیرو، سربیا اور ایران شامل ہیں، یوں پوری دنیا میں اوسطا پاکستانی شہری علاقوں کی فضائی آلودگی بد ترین ہے، یہ بہت ہی خطرناک صورتحال ہے ۔

بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں ابھی تک اس جانب نہ تو ، توجہ حکومتی عہدیداروں کی جانب سے ہے اور نہ ماہر تعلیم اور سیاستدانوں کی طرف سے ہے اور یوں عوامی سطح پر صرف فضائی آلودگی کی وجہ سے روزانہ صحت پر کروڑوں روپے خرچ کئے جا رہے ہیںاورقدرتی اور زرعی وسائل کا اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے، اس کی وجہ سے جہاں اب پوری دنیا میں کلائمیٹ چینج اور گلوبل وارمنگ کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

وہاںاب ہمارے ہاں گرمیوں میں کراچی جیسے شہر نہ صرف ہیٹ ویوزس کی وجہ سے چند دنوں میں درجنوں افراد ہلاک لاکھوں متاثر ہوتے ہیں تو موسم سرما میں فضا میں PM-10 اور PM-2.5 کے خطرناک حد تک اضافے کی وجہ سے پاکستان کے بڑے شہروں میں بلکہ پنجاب اور سندھ کے اکثر علاقوں میں فوگ اور سموگ کی وجہ سے ایمرجنسی کی صورتحال کئی کئی دن متواتر جاری رہتی ہے۔ اس وقت ہمارے شہری علاقوں میںجہاںPM-2.5 کی فضا میں اوسط 115.7 ہے جب کہ PM-10 پشاورمیں 540 راولپنڈی میں448 اور کراچی میں 290 ہے۔ یوں اگر یہ کہا جائے کہ فضائی آلودگی سے ہمارے ملک کا دم گھٹ رہا ہے تو غلط نہ ہوگا اس فضائی آلودگی سے بچنے کے لیے اب اگر چہ شہری علاقوں میں لوگوں کی اکثریت ماسک استعمال کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود سالانہ لاکھوں افراد، دمے، ٹی بی، سانس ، سینے اور گلے کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔

اس وقت اگر چہ یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی 65 فیصد آبادی دیہی اور 35% شہری آبادی ہے اس طرح اگر 22 کروڑ آبادی میں سے کل شہری آبادی 7 کروڑ 70 لاکھ ہے مگر اس شہری آبادی کے اس تناسب اور اعدادوشمار کوکراچی سمیت دیگر شہروں کے بہت سے لوگ درست تصور نہیں کرتے۔ ہمارے دو ہمسائے ممالک چین اور بھارت جو دنیا میں آبادی کے لحاظ سے پہلے اور دوسرے نمبر پر ہیں، 2014 ء کے مطابق چین میںکل شہری آبادی 758 ملین یعنی 75 کروڑ 80 لاکھ تھی جو 2050 ء میں 1 ارب 5 کروڑ ہوگی، اسی طرح 2014 ء میں بھارت کی شہری آبادی 41 کروڑ ہے جو 32 سال بعد 2050 ء میں81 کروڑ 40 لاکھ ہوجا ئے گی اور ہماری شہری آبادی جس کو اگر8 کروڑ تسلیم کرلیا جائے تو یہ آبادی 32 سال بعد 2050 ء میں 16 کروڑ ہوگی۔ میری عمر اس وقت63 سال ہے اور مجھے اس بات کا ادراک ہے کہ 32 برس بہت جلد گزر جاتے ہیں۔

اب جہاں تک تعلق چین اور بھارت کا ہے تو یہ دونوں ملک فضائی آلودگی پھیلا نے والے دنیا کے بڑے ملک ہیں جو اپنی بڑ ھتی ہوئی آبادیوں کے لیے روز گار اور پیداوار بڑھانے کے عمل کو تیز سے تیز تر کرتے چلے جا رہے ہیں۔ چین کی فضائی آلودگی سے پاکستان کو خطرات لاحق نہیں کہ ہمارے درمیان ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے حائل ہیں اور پھر چین وہ ملک ہے جو اپنی آبادی کو پہلے بھی منجمد کرچکا ہے اور مستقبل میں بھی اس کا امکان روشن نظرآتا ہے مگر بھارت کی صورتحال یہ ہے کہ بھارت آبادی کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ ہے مگر یہاں سماجی شعورکی سطح بلند نہیں، یوں مستقبل قریب میں یعنی آیندہ 32 برسوں بھی یہاں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو بھی روکا نہیں جا سکے گا اور اندیشہ ہے کہ اس ملک میں دیگر آلودگیو ں سمیت فضائی آلودگی میں بہت زیادہ اضافہ ہو گا لیکن ہمارے لیے بھارت کی آلودگی ایک خطرناک ترین عذ اب کی صورت ہے، دہلی سے لاہور کا فاصلہ فضائی اعتبار سے 200 کلو میٹر کے قریب ہے، پنجاب اور سندھ آبادی کے لحاظ سے ہمارے دو بڑے صوبے ہیں۔

جن میں ملک کی تقریبا 80% آبادی رہتی ہے، ہمارے یہ علاقے موسموں کے حوالے سے بھارت اور خصوصا خلیج بنگال کے موسمیاتی نظام سے منسلک ہیں، اگر چہ سارک کی تنظیم میں ماحولیات اور آلودگی کے مسائل کو مشترکہ طور پر حل کرنے کو بنیادی اہمت حاصل ہے مگر اب تو برسوں سے خود سارک تنظیم کی اہمیت کو خصوصا بھارت نے سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا ہے، اس لیے اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم کس طرح اس مسئلے سے نبٹتے ہیں جب یہ آرٹیکل 22 مئی 2018 ء کو ان سطور پر پہنچا تو خبر ملی کہ بھارت کی ریاست تامل ناڈو میں آلودگی کے خلاف شہریوں کے احتجاج پر پولیس کی فائرنگ سے 11 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوگئے۔ اس کے مقابلے میں ترقی یافتہ ممالک کی صورتحال بالکل مختلف ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کردہ اسی رپورٹ میں ہی ان ملکوں کے ٹاپ ٹو ینٹی ملکوں کی فہرست بھی دی گئی ہے جہاں فضائی آلودگی مثالی طور پر بہت ہی کم ہے۔ نمبر 1 پر آسٹریلیا میں PM-2.5 صرف 5.7 ہے۔

نمبر 2 برونائی 6.6 ، نمبر 3 ۔ نیوزی لینڈ میں PM-2.5 کی سطح 6.8 ہے، نمبر 4 ۔اسٹونیا 7.2 ، نمبر5 ۔ فن لینڈ 7.3 ، نمبر6 ۔کینیڈا 7.5 ، نمبر7 ۔ آئی لینڈ 8.2 ، نمبر8 ۔ سوئیڈن 8.7 ، نمبر9 ۔آئر لینڈ8.8 ، نمبر10 ۔لیبریا 9.3 ، نمبر11۔ جاپان 10، 12۔بھوٹان  10۔ 13۔ ناروے10.9، نمبر14 ۔ مالٹا 12 ۔ نمبر 15۔ پرتگال 12.3 ، نمبر16 اسپین12.4، نمبر17 ۔ امریکہ 12.9، نمبر18 ۔مناکو13، نمبر19۔ ملائیشیا 13.2، یوں اگرچہ ان میں سے چند ممالک کو ترقی یافتہ ملک نہیں کہا جا سکتا مگر یہاں فضائی آلودگی کی سطح بہت ہی کم ہے اور یہ ٖفضا صحت کے لیے بہت ہی موزوں ہے۔2010 ء سے 2016 ء تک مرتب ہونے والی دنیا کے گنجان آباد شہر وں کی فہرست 99 شہروں پر مشتمل ہے مگر اس فہرست میں دنیا کے 42 شہر ایسے ہیں جن کی آبادیا ں 3 کروڑ78 لاکھ سے ایک کروڑ تک ہیں ان شہروں میں سے چین کے 15 شہر بھارت کے 4 شہر اور پاکستان اور جاپان کے دو دو شہر شامل ہیں ۔ یوں اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آئند ہ 32 برسوںمیں یعنی2050 ء تک اس دنیا میں شہری آبادیوں کی صورتحال کیا ہوگی اور اس کے نتیجے میں آلودگی کی صورتحال کیسی ہوگی اور ہمیں ان خطرات کے پیش نظر ابھی سے کس طرح کی پیش بندی کرنی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔