ڈھاکا میں پاکستانی سفارتخانے سے کمپیوٹر کی چوری

پاکستان نے اتنی سخت سیکیورٹی والے علاقے میں چوری کی واردات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔


Editorial November 29, 2018
پاکستان نے اتنی سخت سیکیورٹی والے علاقے میں چوری کی واردات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں پاکستائی ہائی کمیشن سے کمپیوٹر چوری ہو گئے ہیں۔ کمپیوٹر ہائی کمیشن کے قونصل سیکشن سے چرائے گئے اورتوڑپھوڑ بھی کی گئی ۔ منگل کو پاکستان کے دفترِ خارجہ نے ڈھاکا میں پیش آنیوالے واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ دفترِ خارجہ نے اسلام آباد میں اوربنگلہ دیش کے حکام سے واقعے پر احتجاج کیا ہے۔ ڈھاکا میں پاکستانی ہائی کمیشن دارالحکومت کے سفارتی علاقے میں واقع ہے جہاں سیکیورٹی کے سخت انتظامات ہوتے ہیں۔

پاکستان نے اتنی سخت سیکیورٹی والے علاقے میں چوری کی واردات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ترجمان دفترِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہائی کمیشن کے قونصل سیکشن سے کمپیوٹر چوری ہونے کے بعد فوری طور پر ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے اور بنگلہ دیش کے دفترِ خارجہ کو بھی اس بارے میں آگاہ کیا جا چکا ہے۔پاکستان نے اس واقعہ پر بنگلہ دیش کی حکومت اور پاکستان میں مقیم بنگلہ دیش کے سفارتی حکام سے شدید احتجاج کیا ہے اور بنگلہ دیش سے مطالبہ کیا ہے کہ ہائی کمیشن کو زیادہ سیکیورٹی فراہم کی جائے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ بطور میزبان بنگلہ دیش کی حکومت کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ پاکستان کے ہائی کمیشن کو مکمل سیکیورٹی فراہم کرے۔پاکستان نے بنگلہ دیش سے چوری کے اس واقعے کی مکمل تحقیقات کرنے، تحقیقاتی رپورٹ پاکستان کو دینے اور ملزموں کو سزا دینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

پاکستان کے سفارت خانے سے انتہائی سیکیورٹی کے باوجود کمپیوٹرز کا چوری ہونا بہت سے خدشات کو جنم دیتا ہے۔پاکستانی حکام نے یہ وضاحت نہیں کی کہ جو کمپیوٹرز چوری ہوئے ان میں کونسی معلومات فیڈ تھیں اور ان کے چوری ہونے سے پاکستان کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کمپیوٹرز میں ریکارڈ اور اہم معلومات ہوتی ہیں،یہ واردات کسی عام چور کا کام نہیں کیونکہ وہ اتنے حساس علاقے میں گھس نہیں سکتا، اس واقعہ کے پس منظر میں خاص منصوبہ بندی اور سازش کے کارفرما ہونے کے خدشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

کسی بھی دشمن ملک اور وطن مخالف ایجنسی کے ہاتھ معلومات کا لگنا تشویش کا باعث ہے اور مستقبل میں اس سے پاکستان کے لیے مشکلات جنم لے سکتی ہیں۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ خصوصی طور پر پاکستانی سفارت خانہ کو نشانہ بنایا گیا تاکہ اہم معلومات تک رسائی حاصل کرکے پاکستان کو نقصان پہنچایا جا سکے۔کمپیوٹرز کی چوری کوئی معمولی واقعہ نہیں، پاکستان کو بنگلہ دیش سے روایتی انداز میں احتجاج کرنے کے بجائے اس مسئلہ کو بھرپور طور پر اٹھانا چاہیے تاکہ آیندہ ایسا واقعہ رونما نہ ہو۔

مقبول خبریں