ایک نامعلوم ’عظیم انسان‘ کے نام۔۔۔!

رضوان طاہر مبین  اتوار 14 اپريل 2019
سچ پوچھیے تو ہمیں کتوں کی یہ سرشت خالص ’سرمایہ دارانہ‘ معلوم ہوتی ہے، جس کا زور غریبوں و بے کسوں پر ہی چلتا ہے۔

سچ پوچھیے تو ہمیں کتوں کی یہ سرشت خالص ’سرمایہ دارانہ‘ معلوم ہوتی ہے، جس کا زور غریبوں و بے کسوں پر ہی چلتا ہے۔

خانہ پُری
ر۔ ط۔ م

غالباً مشتاق احمد یوسفی نے کہیں لکھا ہے کہ ’جس دن بچے کی جیب سے فضول چیزوں کے بہ جائے پیسے برآمد ہوں، تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب اُسے کبھی سکون کی نیند نصیب نہیں ہوگی!‘ ہم نے گزشتہ دنوں ایک کچرا چننے والے محنت کش بچے کی کچھ ایسی ہی ویڈیو دیکھی، جو خود بھوکا ہے، لیکن ایک بلی کے لیے دودھ خرید کر لایا ہے!

ویڈیو میں ایک بند دکان کے تھلّے پر بلی دودھ پی رہی ہے اور ایک کچرا چننے والا بچہ نزدیک رکھے ہوئے اپنے بورے کی طرف جا رہا ہوتا ہے۔ عکس بندی کرنے والا اُسے پکارتا ہے، تو وہ خوف زدہ انداز میں چونک کر پلٹتا ہے، جیسے کوئی چوری پکڑی گئی ہو، لیکن جب اُس سے مدعے کی بات کی جاتی ہے، تو یک دم چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ یہ شاید کسی کوڑے دان کا اوپر سے بند اور ایک طرف سے کھلا ہوا مخصوص ڈھکنا ہے، جو بلی کے اوپر سائبان بنا کر رکھا ہوا ہے۔ اندر بلی دودھ پی رہی ہے، بوسیدہ سی جوتی پہنا وہ بچہ آکر ایک ہاتھ کی کہنی اس ڈھکنے پر ٹکاتا ہے اور دوسرا ہاتھ کمر پر رکھ کر اعتماد سے کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس کی میلی کچیلی قمیص پر رفو گری نمایاں ہو جاتی ہے۔ اس سے پوچھتے ہیں کہ وہ بلی کو کیا پلا رہا ہے، وہ بتاتا ہے کہ ’دودھ ہے۔۔۔!‘

سوالاً جواباً گفتگو میں پتا چلتا ہے کہ اس نے یہ دودھ بلی کے لیے 20 روپے میں خریدا۔۔۔! جب اس سے یہ دریافت کرتے ہیں کہ کیا تم نے خود کھانا کھایا؟ تو شاید وہ یہ جتانا نہیں چاہتا کہ وہ خود بھوکا ہے، اس لیے ناں کہتے کہتے، ہاں کہہ دیتا ہے، مگر جب دوبارہ پوچھتے ہیں کہ کب کھایا؟ تو اس کی یہ مصلحت یا ’دنیا داری‘ بُری طرح چغلی کھانے لگتی ہے، سراپا اعتماد بنی ہوئی ’بدن بولی‘ ساتھ چھوڑے دیتی ہے، وہ نگاہیں چراتا ہے۔۔۔ اُسے کوئی جواب سجھائی نہیں دیتا۔ وہ بلاوجہ گردن کھجاتا ہے اور اپنی نگاہ بچاتے ہوئے بات بناتا ہے کہ ’ہم نے ناشتا کیا ہے۔۔۔!‘ لیکن جسمانی حرکات وسکنات اس کم زور عذر کا ذرا بھی ساتھ نہیں دیتیں، بلکہ یوں لگتا ہے کہ ’بدن بولی‘ چیخ چیخ کر اس کے خالی پیٹ کی شکایت کر رہی ہو۔۔۔! پھر اِس سے کہتے ہیں، ناشتا تو صبح کیا تھا، ابھی دوپہر کا کھانا؟ اب اس کی ساری ’مصلحت‘ اس سے چھُوٹی جاتی ہے، مگر مسکراہٹ پُرعزم ہے، وہ دبا دبا سا اعتراف کر لیتا ہے کہ نہیں! پھر پوچھا کہ تم نے خود نہیں کھایا اور اس بلی کے لیے کھانا لے آئے؟ تو وہ کہتا ہے ’ہاں!‘

اس سے پوچھتے ہیں ’’تمہیں بھوک لگ رہی ہے؟‘‘ وہ اپنے اعصاب کو مضبوط بناتے ہوئے خالی شکم کی پُکار کا گلا گھونٹ دیتا ہے اور مسکراتے ہوئے گردن نفی میں ہلا دیتا ہے۔۔۔!!

پوچھا جاتا ہے ’کیوں۔۔۔؟‘ تو اس سے پھر کوئی جواب نہیں بن پاتا، وہ اِدھر اُدھر دیکھنے لگتا ہے، جیسے یہ وقت ٹالنا چاہتا ہو۔۔۔ یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے کہہ رہا ہو کہ ’’جس کی جیب خالی اور دل احساس سے بھرا ہوا ہو، وہ بھوک سے ماورا ہو جایا کرتا ہے صاحب۔۔۔!‘‘

اس کے چہرے پر اب بھی مایوسی، دکھ یا پریشانی کے کسی بھی رنگ کے بہ جائے گہری شادمانی کسی ’رئیس زادے‘ کی سی شبیہ بنا رہی ہے، جیسے کوئی ’سرپرست‘ اپنی ’کفیلوں‘ کا ذمہ پورے ہونے پر خوب مطمئن ہوتا ہو۔

’تمہیں کھانا کھانا ہے؟‘ اس سوال پر بھی اس کی خودداری اُسے اثبات میں سر ہلانے سے روکے رکتی ہے، وہ چُپکا اپنے اسی انداز میں مسکراتا رہتا ہے۔ اُسے کھانے کے لیے کچھ پیسے دینے کا کہتے ہیں، تو وہ مان لیتا ہے۔۔۔!

اس ویڈیو میں بچے کے پس منظر میں اشیائے ضروریہ کے تھیلے بھر کر آنے جانے والے بھی دکھائی دے رہے ہیں، یعنی وہ لوگ جب ’کھا‘ کر پھینک دیں گے، تو وہ باسی غذا، گتے، شیشے اور پلاسٹک جیسی اشیا اس جیسے ہزاروں لوگوں کی زندگی کا سامان بن جائیں گی۔ اس بچے نے اپنی بھوک قربان کر کے بلی کے لیے 20 روپے کا دودھ خریدا۔ ان 20 روپوں کا مطلب ان بچوں کی کئی گھنٹوں کی ’کمائی‘ ہے، بلکہ شاید کبھی تو یہ سارا دن کی اُجرت بنتی ہو۔۔۔!

شہر کی کچرا کنڈیوں سے لے کر ہماری آپ کی گلیوں تک روزانہ ہزاروں بچے صبح اندھیرے منہ کچرے سے اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں۔۔۔ بہت سی گلیوں میں جو بے شعور لوگ کچرے کی تھیلیاں پھینک دیتے ہیں، جب یہ ان تھیلوں کو چاک کر کے ’’کارآمد‘‘ چیز تلاش کرتے ہیں، تو اکثر مکین ان پر برہم ہوتے ہیں کہ گلی میں سارا کچرا پھیلا دیا! وہ تو ’انسان‘ ٹھیرے، لیکن انہی محنت کشوں کی طرح ’بے گھر‘ آوارہ کتوں کو جانے کیوں ان سے اللہ واسطے کا بیر رہتا ہے۔۔۔ بھونک بھونک کر ان کا گلی سے لَنگنا دوبھر کر دیتے ہیں۔۔۔ یہ غریب بھی کبھی سوچتے ہوں گے کہ ہم بھی کتنے بدنصیب ہیں کہ انسان تو انسان، ہمیں تو گلی کے آوارہ کتے تک برداشت نہیں کرتے۔۔۔!‘

سچ پوچھیے تو ہمیں کتوں کی یہ سرشت خالص ’سرمایہ دارانہ‘ معلوم ہوتی ہے، جس کا زور غریبوں و بے کسوں پر ہی چلتا ہے۔ آج ’خانہ پُری‘ کے ٹوٹے پھوٹے سے یہ الفاظ اس نامعلوم عظیم انسان کی نذر ہیں، جس نے مفلسی کے عالم میں بھی اپنی بھوک ایک بے زبان بلی کی بھوک پر وار دی۔۔۔! یہ معصوم بچہ ہم جیسے ’باشعوروں‘ اور حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے والوں سے ہزارہا درجہ بہتر ہے۔

۔۔۔

ٹڈی دَل
مستنصر حسین تارڑ
اُن دنوں ٹڈی دَل بہت آتے تھے۔ صرف کھلی آبادیوں اور کھیتوں پر ہی نہیں شہروں کے آسمان بھی ان سے ڈھک جاتے تھے اور جب کبھی ٹڈیوں کے یہ بادل لاہور کے آسمان کی روشنی پر اپنی متحرک سیاہ چادر ڈالتے تو مشاہد کے فلیٹ کے عین سامنے رہنے والا ’لاری خاندان‘ ہاتھوں میں بیڈ منٹن کے ریکٹ پکڑے چھت پر آجاتا اور اُچھل اُچھل کرٹڈیوں کا شکار کرنے لگتا۔ شام کو ان ٹڈیوں کو سرسوں کے تیل میں فرائی کرنے سے جو بُو مشاہد کے فلیٹ کے اندر تک جاتی تو اُس کی آپا جی ناک پر ململ کا دوپٹا ڈالے اُن مہاجروں کو کوستیں جو دیسی گھی کے بہ جائے کھانے میں تیل استعمال کرتے تھے اور ٹڈیوں جیسی مکروہ شے کو شوق سے نوش کرتے تھے۔
(ناول ’راکھ‘ سے اقتباس)

۔۔۔

اندھیر آکاش میں ایک برسات
مرسلہ: سارہ شاداب، کراچی
ایک تو رات اندھیاری اس پر بدلی کاری۔۔۔! تمام عالم پر گناہ کی سی تیرگی طاری۔۔۔ کالی گھٹائیں بجلی کی طرح کوند رہی تھی، جیسے تیرہ باطن پر خواہشِ گناہ آتشیں کوڑے برسائے، تیرگی منہ سے یہ کہہ رہی تھی کہ جہانِِ سیاہ کاری کا نچوڑ ہوں۔ آسمان پر ابر ایسے تہ بہ تہ چڑھے تھے جیسے روزِ حشر ابنائے آدم کے گناہ انبار در انبار جمع کیے گئے ہوں۔ بارش یوں ہو رہی تھی جیسے عفریت طغیان زدہ عرقِ گناہ میں شرابور ہو یا عصیاں شعاروں کو غرق کرنے طوفان نوح بپھر کرآیا ہو۔ بادلوں کی گرج اس مست ہاتھی کی چنگھاڑ معلوم ہوتی، جو حیات پامال کرنے زنجیریں تڑا کر نکلا ہو۔ زمین نے اپنی سوتین کھول دی تھیں، آسمان پر سے تڑیڑے پڑ رہے تھے سما و سمک عذاب اگلتے نظر آتے تھے!
(کتاب ’’ابلیس‘‘ از خواجہ محمد شفیع بی اے سے انتخاب)

۔۔۔

اقلیتی مسلمان
سعداللہ جان برق
مملکت خداداد پاکستان کے نام پر ایک مملکت ایسے علاقوں میں قائم ہوئی، جہاں مسلمانوں کو پہلے ہی سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ کیوں کہ ان خطوں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ پنجاب، سندھ بنگال، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں اگر ہندوستان متحد بھی ہوتا تو مسلمانوںکا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا، نہ بُلٹ کے ذریعے اور نہ بیلٹ کے ذریعے۔ سارا مسئلہ ان لوگوں کا تھا، جو ہمارے خیال میں ہندووں کے علاقے میں رہتے تھے، ان کی آبادی کچھ کم نہیں تھی، ان کی تعداد تقریباً اتنی ہی تھی جتنی مسلمان مملکت کی تھی۔ یہ مسلمان اس خطرے کے بیچ میں رہ گئے اور پھر نقل مکانی میں بہت زیادہ جانی ومالی نقصان بھی ہوا۔
(تصنیف ’’مقدس خوں ریزیاں‘‘ سے چند سطریں)

۔۔۔

’’میں کام یاب ہوچکا؟‘‘
مرسلہ: اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ
ایک دانش ور سے یہ پوچھا گیا کہ کام یابی کسے کہتے ہیں؟ انہوں نے بڑا دل چسپ جواب دیا کہ ’’ہم انسانوں نے کام یابی کے اپنے اپنے پیمانے بنائے ہوئے ہیں۔ کوئی دولت اور کوئی شہرت حاصل کرنے کو کام یابی سمجھتا ہے، لیکن کام یابی انسان کے اپنے بس کی بات نہیں۔ انسان کی کام یابی یا ناکامی کا فیصلہ اوپر والی ذات کرتی ہے ہم انسان نہیں۔ کام یابی کی اصل تعریف یہ ہے کہ میں زندگی میں جو کچھ چاہتا تھا وہ میں نے پا لیا بس۔ مجھے اب کوئی اقتدار نہیں چاہیے، کوئی شہرت نہیں چاہیے۔ میں نے زندگی میں جو مقاصد حاصل کرنا تھے، کر لیے، یعنی میں کام یاب ہو چکا۔ آسان الفاظ میں یہ کہ میں جس طرح کی زندگی گزارنے کا خواہش مند تھا، میں نے گزار لی ہے تو میں کام یاب ہوں۔

۔۔۔

’’مدد‘‘
رضوان طاہر مبین
مسافروں سے لدی ہوئی اُس بس میں ثمر بھی ’بے بس‘ تھا، جو رکتی زیادہ اور چلتی کم تھی۔۔۔
گرمی کا یہ عالم تھا کہ سورج سوا نیزے پر معلوم ہوتا۔۔۔ سانس لینا بھی دوبھر تھا۔
کچھ دیر بعد ثمر کے قریب ایک نشست خالی ہوئی، لیکن وہ اس نشست سے دست بردار ہو گیا۔
’’آپ بیٹھ جائیے۔۔۔!‘‘
اُس نے خندہ پیشانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک نوجوان کو جگہ دے دی۔
میں ثمر کے ایثار پر بہت حیران تھا، لیکن اگلے ہی لمحے بس بائیں جانب مڑ گئی۔
اب اُس نشت پر بہت تیز دھوپ پڑ رہی تھی۔۔۔!

۔۔۔

سنتوش کمار کے پان اور سنسر بورڈ
مرسلہ: سید اظہر علی، گلشن اقبال
اب ایک بالکل مختلف قسم کی صبح یاد آرہی ہے۔ صبح ہی صبح گھر سے نکلا اور جہاز میں جا بیٹھا۔ کشور ناہید ہم سفر ہیں۔ جرنیل ضیاء الحق کے دربار میں ہماری طلبی ہے۔ کس جرم میں۔ ابھی بتاتا ہوں۔ ادب سے اس پیشی کا تعلق نہیں ہے ۔ یہ فلموں کا چکر ہے۔ اس زمانے میں کشور ناہید اور میں دونوں ہی فلم سنسر بورڈ کے رکن تھے۔

اس واسطے سے مجھے بس ایک ہی شخصیت اس وقت یاد آرہی ہے، سنتوش کمار، کہ وہ بھی ان دنوں اس بورڈ کے رکن تھے اور جو گاڑی انہیں لینے جاتی تھی وہ رستے میں سے مجھے بھی بٹھا لیتی تھی۔ میں گاڑی میں بیٹھا اور سنتوش کمار نے پان کی ڈبیا کھولی۔ کس سلیقہ اور محبت سے پان پیش کرتے تھے۔ میں نے پان ناصر کے ساتھ بہت کھائے تھے۔ وہ زمانہ گزرگیا تو پان کھانا ہی چھوڑ دیا۔ اب سنتوش کمار کی صحبت میں پھر پان کھانے شروع کردیے تھے، بلکہ بہت سی فلمیں تو ایسی ہوتی تھیں کہ اگر سنتوش کمار کی پانوں کی ڈبیا اور چھالی الائچی کے بٹوے کا سہارا نہ ہوتا تو پتا نہیں ہمارا کیا حال ہوتا۔ کیا باغ و بہار آدمی تھے اور کیسے بانکے سجیلے۔ میں نے شروع میں انہیں اس وقت دیکھا تھا جب 1948ء کے اوائل میں مسعود پرویز کی فلم میں جس کی کہانی منٹو صاحب نے لکھی تھی۔

وہ ہیرو کا رول ادا کررہے تھے اور منٹو صاحب کہتے تھے کہ یہ نوجوان پاکستان کا دلیپ کمار بنے گا یا اب دیکھ رہا تھا، جب وہ اداکاری کے کاروبار سے فارغ ہو چکے تھے، مگر اسی طرح سرخ و سفید۔ وہی سفید براق کرتا پاجاما ، قریب سے اب دیکھا احساس ہوا کہ بہت باغ و بہار شخصیت ہیں۔ فلم کے بارے میں وہ کہہ دیتے کہ ہاں تو پھر میں بھی ان کی ہاں میں ہاں ملا دیتا۔ جب ہی تو فلم پاس، فیل کے سلسلہ میں سفارش میرے پاس کم کم پہنچتی تھی۔ انہیں پتا تھا کہ جو دو پنچوں سنتوش کمار اور کشور ناہید کی رائے ہوگی وہی اس شخص کی بھی رائے ہوگی ۔ میں اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ اصل رائے کے اظہار کی وہاں گنجائش کہاں تھی۔ اس حساب سے تو مشکل ہی سے کوئی فلم اس لائق نکلتی کہ اسے پاس کیا جا سکے۔

(انتظار حسین کی کتاب ’’چراغوں کا دھواں‘‘ سے چُنا گیا)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔