دعوت و تبلیغ کا باوقار انداز

دنیا بھر کے مفکرین اور دانش ور اس حیرت میں مبتلا ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے مختصر ترین دور میں اتنا بڑا انقلاب کیسے برپا کر دیا



مفہوم: ’’اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ حکمت اور اچھی نصیحت سے اور ان سے بہترین طریقے پر گفت گُو کرو ۔‘‘

نبی اکرم ﷺ اعلان نبوت کے بعد مکہ معظمہ میں تیرہ سال دعوت اسلام میں مصروف رہے۔ اس عرصے میں تقریباً ایک سو افراد حلقہ بہ گوش اسلام ہوئے۔ سرور کائنات ﷺ نے ان کی سیرت کی اس طرح تعمیر فرمائی کہ ان میں سے ہر فرد یگانہ روزگار بنا۔ یہ حضرات مہاجرین کے محترم لقب کے ساتھ ملقب ہوئے۔ ہجرت کے بعد حضور اکرم ﷺ سے بہ راہ راست اکتساب فیض کرنے والے خوش قسمت حضرات صحابہ کرامؓ کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرگئی۔ مدینہ منورہ کے خوش بخت صحابہ کرام انصار کہلاتے ہیں۔

نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں چار کارنامے نہایت نمایاں نظر آتے ہیں۔ دنیا کے سامنے دین اسلام پیش کیا، جو دنیا و آخرت کی کام یابیوں کی ضمانت ہے۔ نئی حکومت تشکیل دی۔ عرب کے مختلف قبائل کو ایک امت اور ایک قوم بنا دیا۔ ایک ایسا قانون نافذ کیا جس کے سامنے تمام قوم نے سر تسلیم خم کیا۔ یہ وہ کارنامے ہیں جنھیں انجام دینے کے لیے صدیوں کی ضرورت تھی

۔ عرب قوم مختلف اور متصادم قبیلوں میں بٹی ہوئی تھی، ان قبائل کو ایک قوم کی صورت میں ڈھال دینے کے لیے طویل عرصے کی ضرورت تھی تب جا کر ان میں اجتماعیت پیدا ہو سکتی تھی۔ انھیں چند سالوں میں ایک قوم بنا دینا بھی تاریخ کا نادر واقعہ ہے۔ پھر اس قوم میں تئیس سال کے مختصر عرصے میں ایسے قانون کا نافذ کر دینا جو نہ صرف اس قوم کی ضروریات کو پورا کرتا ہو بلکہ اس کی ترقی کا بھی ضامن ہو اور پوری قوم کا بغیر کسی اختلاف کے اس قانون پر عمل پیرا ہوجانا بھی ایسا واقعہ ہے جس کی مثال پوری دنیا میں پیش نہیں کی جا سکتی۔

یہ عظیم الشان کارنامے اس امر کی دلیل ہیں کہ ان کا سرانجام دینے والا اﷲ تعالیٰ کے نبی اور رسول ﷺ برحق ہیں۔ ان کارناموں نے دنیا بھر کے مفکرین اور دانش وروں کو حیرت میں مبتلا کیا ہوا ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ایک ہستی نے مختصر ترین دور میں اتنا بڑا انقلاب کیوں کر برپا کر دیا ؟ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی نصرت و تائید اپنے نبی اور رسول مکرم ﷺ کے شامل حال تھی اور یہ سب کچھ نبی اکرم ﷺ کی دعوت و تبلیغ کی معجزانہ تاثیر کا نتیجا تھا۔

امام بخاری و مسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ رات کو اتنا قیام کرتے کہ آپ ﷺ کے پائے مبارک میں ورم آجاتا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ ﷺ! آپ اتنی دیر کھڑے ہو کر نماز کیوں پڑھتے ہیں ؟ حالاں کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے اگلوں اور پچھلوں کے امور کی مغفرت فرما دی ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا میں شکر گزار بند نہ بنوں؟

امت کے لیے پانچ نمازیں فرض ہیں، لیکن آپ ﷺ باقاعدگی کے ساتھ تہجد بھی ادا فرماتے۔ امت پر رمضان کے روزے فرض ہیں مگر آپ ﷺ پیر اور جمعرات کو روزہ رکھتے۔ سفر و حضر میں ایام بیض کے روزے رکھتے۔ شعبان کے اکثر روزے رکھتے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ہر وقت اﷲ تعالیٰ کا ذکر کیا کرتے تھے ۔

سیر طیبہ ﷺ مطالعہ کیجیے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ نبی اکرم ﷺ کی حیات اقدس کا ہر ایک لمحہ کس طرح اﷲ تعالیٰ کی یاد میں گزرتا تھا۔

تبلیغ اسلام کے سلسلے میں نبی اکرم ﷺ نے جس محنت اور تسلسل سے کام کیا اور اﷲ تعالیٰ کی راہ میں جس قدر تکالیف برداشت کیں، دعوت و تبلیغ کی تاریخ میں اس کی مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ جتنی تکلیفیں ہمیں دی گئی ہیں کسی نبی کو نہیں دی گئیں ۔

نبی اکرم ﷺ نے شخصی طور پر لوگوں سے رابطہ کیا، عرب کے مختلف قبیلوں سے ملاقات کر کے اسلام کا پیغام پیش کیا، تبلیغ دین کے لیے سفر کیے، لوگوں کے اجتماعات میں تشریف لے گئے، اپنے نمائندے بجھوائے، بیرونی وفود حاضر ہوتے اور مبلغ بن کر واپس ہوتے، سلاطین اور امراء کو اسلام کی دعوت دی، صحابہ کرامؓ کو حکم دیا کہ دین کی تعلیم حاصل کریں اور دوسرے لوگوں کو تعلیم دیں۔ مجاہدین کو حکم دیا کہ دعوت اسلام پیش کرنے سے پہلے جنگ نہ کریں۔ نیز تمام مسلمانوں کو تبلیغ اسلام کا حکم دیا جس کا نتیجا یہ نکلا کہ اسلام کا پیغام دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ گیا ۔

نبی اکرم ﷺ کا پیغام کیا تھا ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! لا الہ الا اﷲ‘‘ کہو! کام یاب ہو جاؤ گے۔ یعنی شرک چھوڑ دو، اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کو معبود نہ مانو۔

رسول کریم ﷺ کی دعوت تھی کہ اﷲ وحدہٗ لاشریک کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، تمہارے آباء و اجداد جو کچھ کہتے تھے اسے چھوڑ دو، اس کے علاوہ نماز، سچائی، پاک دامنی اور صلہ رحمی کا درس فرماتے تھے۔

یہ اعلان اہل مکہ کے لیے دھماکے سے کم نہ تھا، ایک ایک فرد دشمن جان بن گیا۔ (استغفراﷲ العظیم) عقبہ بن ابی معیط نے آپ ﷺ کے گلے میں چادر ڈال کر اس زور سے کھینچی کہ آپؐ گھٹنوں کے بل زمین پر آگئے۔ نماز پڑھتے ہوئے اونٹنی کی اوجڑی آپؐ کی پشت پر ڈالی گئی، آپؐ کو سب و شتم کیا گیا۔ شاعر، کاہن اور جادو گر کہا گیا، آپ ﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، آپ ﷺ کے صحابہ کرامؓ کو اذییتیں دی گئیں، بعض کو شہید کر دیا گیا، تین سال تک شعب ابو طالب میں صحابہ کرامؓ کے ساتھ محصور رہے، اس عرصے میں مشرکین نے مکمل مقاطعہ کیا۔ طائف والوں کو دعوت اسلام دی تو انھوں نے آپ ﷺ پر پتھر برسائے یہاں تک کہ جسد اقدس لہولہان ہوگیا، نعلین شریفین خون مبارک سے تر ہوگئے۔

نبی اکرم ﷺ عرب کے معزز ترین قبیلہ قریش سے تعلق رکھتے ہیں ۔ خود صداقت و امانت کا پیکر ہیں، عمر شریف تقریباً چالیس سال ہے ، اپنی سابقہ زندگی کو بہ طور چیلنج پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تمہیں میری پوری زندگی میں کوئی عیب دکھائی دیا ہے ؟ کسی کو انگشت نمائی کی جرأت نہیں ہوتی۔ پھر مقصد کتنا عظیم ہے کہ اپنی قوم کو جہنم سے بچانا چاہتے ہیں۔ لیکن قوم ہے کہ پوری ڈھٹائی سے اپنے کفر پر مصر ہے، سب و شتم کرتے ہیں، حملے کرتے ہیں، شہید کرنے کے منصوبے بناتے ہیں، صحابہ کرامؓ کو ناقابل برداشت اذیتیں دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ برداشت کرنا اور اپنے مشن پر نہ صرف قائم رہنا، بلکہ اسے کام یابی سے ہم کنار کرنا اﷲ تعالیٰ کے سچے رسول ﷺ ہی کا کام ہو سکتا ہے، کوئی دوسرا یہ عظیم کارنامہ سرانجام نہیں دے سکتا۔

پھر اس عظیم راہ نما ئی اور انتہائی قیمتی تعلیم پر کسی قسم کے معاوضے کا مطالبہ نہیں بلکہ صاف ارشاد فرما دیا کہ ہم تبلیغ دین پر تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتے۔ حلقہ بہ گوش اسلام ہو جاؤ اور دنیا و آخرت میں کام یاب ہوجاؤ۔

حضور سید عالم ﷺ کا انداز تبلیغ اور اسلوب دعوت سب سے انوکھا، سب سے نرالا اور سب سے زیادہ کام یاب تھا، جو ہر دور، ہر زمانے اور ہر قوم و قبیلے کے لیے کام یابی و کام رانی کا سرچشمہ ہے۔

مقبول خبریں