اکلوتی باعزت سرکاری نوکری

میاں عمران احمد  ہفتہ 27 اپريل 2019
 آپ جیسا بھی جرم چاہیں بے خوف و خطر کر سکتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آپ جیسا بھی جرم چاہیں بے خوف و خطر کر سکتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پاکستان میں ایک سرکاری نوکری ایسی بھی ہے جس میں ملازمت کے دوران آپ جو جرم کرنا چاہیں، کرسکتے ہیں اور یہ جرائم کرنے کے بعد بھی آپ کو کوئی سزا نہیں ہوگی بلکہ آپ کو آئینی اور قانونی تحفظ حاصل ہوگا۔ شرط صرف یہ ہے کہ آپ دوران ملازمت استعفیٰ دے دیں۔ جرائم کی تفصیلات درج ذیل ہیں:

آپ کسی کا بھی حق کھا سکتے ہیں، زنا کرسکتے ہیں، شراب پی سکتے ہیں۔ آپ کسی کو بھی زندہ دفن کرسکتے ہیں، کسی کے منہ پر کالک پوت سکتے ہیں، کسی کی بھی عزت سر عام نیلام کر سکتے ہیں، آپ کسی کی بھی جائیداد پر قبضہ کر سکتے ہیں، آپ کسی کو بھی دھوکا دے سکتے ہیں، آپ ہیروئن اسمگل کرسکتے ہیں، آپ بھتہ وصول کرسکتے ہیں، ٹارگٹ کلرز کا گینگ چلا سکتے ہیں، زمینوں پر قبضہ کرسکتے ہیں، خودکش دھماکا کروا سکتے ہیں، ڈالر لانچوں میں بھر کر دبئی منتقل کروا سکتے ہیں، اغوا کروا سکتے ہیں، ملک دشمنوں کے سہولت کار بن سکتے ہیں۔

آپ جتنی چاہے کرپشن کرسکتے ہیں، جتنے چاہیں غلط فیصلے دے سکتے ہیں، جتنے چاہیں آمدن سے زیادہ اثاثے بنا سکتے ہیں، اپنی تنخواہ سے سو گنا زیادہ اخراجات کر سکتے ہیں، آپ دبئی اور پانامہ سمیت کسی بھی ملک میں منی لانڈرنگ کر سکتے ہیں، آپ دہشت گردوں کے سہولت کار بن سکتے ہیں۔ ایک خاندان کے اکلوتے وارث کو بے گناہ قتل کرنے والوں کو باعزت بری کرسکتے ہیں، آپ خود کش دھماکوں کے مجرموں کو باعزت رہائی دے سکتے ہیں، ظالموں سے رشوت لے کر مظلوموں کو ساری عمر کےلیے جیل میں بند کر سکتے ہیں۔

پانچ لاکھ تنخواہ لینے والے سرکاری افسر کے بچے پانچ کروڑ کی گاڑی میں گھوم سکتے ہیں، جج کا بیٹا باپ کا نام لے کر پوری دنیا میں عیاشیاں کرسکتا ہے اور جب باپ سے پوچھا جائے تو وہ لاعلمی کا اظہار کرکے معصوم بن سکتا ہے۔ آپ اپنے بھائی کا بدلہ لینے کےلیے لیور ٹرانسپلانٹ کے بہترین ادارے کے معتبر ڈاکٹرز کو عدالتوں میں بلاکر ذلیل کرسکتے ہیں۔ نیز کہ آپ جیسا بھی جرم چاہیں بے خوف و خطر کر سکتے ہیں۔

آپ جب چاہیں ریٹائر ہوسکتے ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آپ سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ آپ نے یہ غلط فیصلے کیوں کیے ہیں۔ بلکہ آپ کو ان تمام جرائم کے بعد تحفے کے طور پر پنشن، گھر اور ملازم سمیت وہ تمام سہولیات میسر ہوسکتی ہیں جو ایک ایماندار سرکاری افسر کو دی جاتی ہیں۔ آپ ظالم ہونے کے باوجود مظلوم عوام کی خون پسینے کی کمائی سے حاصل کردہ وسیع و عریض گھر کے لان میں بیٹھ کر، شراب پی کر، سوئمنگ کرتے ہوئے اپنی بیگم سے یہ کہتے ہوئے زندگی گزار سکتے ہیں کہ ناانصافی نے ہمارے ملک کو تباہ کر دیا ہے… اور حیرت کی بات یہ ہے کہ پورے ملک کے کسی بھی ادارے یا شخص کی جرأت نہیں ہوسکتی جو آپ سے یہ پوچھ لے کہ آپ نے اپنے دور میں جو جرائم کیے ہیں ان کا ذمہ دار کون ہے؟ آپ کو ان کی سزا کیوں نہ دی جاسکی؟ آپ کے ڈسے لوگوں کو انصاف کیوں نہ مل سکا؟

آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کونسی سرکاری نوکری ہے؟ محترم قارئین! آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ نوکری ایک جج کی نوکری ہے۔ جی ہاں ملک پاکستان میں اگر آپ جج ہیں تو آپ کوئی بھی جرم کرلیں اور آپ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں درخواست چلی جائے، آپ کے خلاف انکوائری شروع ہوجائے اور جیسے ہی الزام ثابت ہونے لگیں، آپ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں۔ آپ کے خلاف تمام انکوائریاں اسی وقت ختم ہوجائیں گی اور مرتے دم تک تمام سہولیات بھی ملتی رہیں گی۔

آئیے آپ کو ان کے عملی ثبوت بھی دیتے ہیں:

لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج مظہر اقبال سِدّھو کی وجہ شہرت اچھی نہیں تھی۔ ان پر رشوت لے کر غلط فیصلے دینے کے الزامات تھے۔ سپریم جوڈیشل کونسل میں ان کے خلاف انکوائریاں چل رہی تھیں۔ برسوں تک انکوائریاں چلتی رہیں۔ جب سِدّھو صاحب کے خلاف فیصلہ قریب دکھائی دینے لگا تو سِدّھو صاحب نے فروری 2017 میں جج کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ استعفیٰ دیتے ہی ان کے خلاف تمام انکوائریاں ختم ہوگئیں۔ اب وہ باعزت شہری کی حیثیت سے پاکستانی عوام کے ٹیکس کے پیسوں پر زندگی گزار رہے ہیں۔

لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج جناب فرخ عرفان صاحب پر آف شور کمپنیاں بنانے، آمدن سے زیادہ اثاثے بنانے اور غیر قانونی طریقے سے رقم بیرون ملک بھجوانے جیسے الزامات تھے۔ ان کے خلاف بھی سپریم جوڈیشل کونسل میں انکوائری چل رہی تھی۔ گواہوں کے بیانات قلمبند ہوچکے تھے۔ اب جسٹس فرخ کا بیان ریکارڈ کرنے کا وقت تھا۔ اس سے پہلے کہ بیان ریکارڈ ہوتا، جسٹس صاحب نے 9 اپریل 2019 کو صدر مملکت پاکستان کو اپنا استعفیٰ بھجوا دیا۔ مستعفی ہوتے ہی جسٹس صاحب کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں تمام انکوائریاں بند ہوگئیں اور مبینہ طور پر منی لانڈرنگ اور آمدن سے زیادہ اثاثے بنانے کے کیسز منوں مٹی تلے دفن ہوگئے۔ اب جسٹس صاحب صادق بھی ہیں اور امین بھی؛ اور عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے تمام سہولیات سے لطف اندوز بھی ہو رہے ہیں۔

ان حقائق کے پیش نظر میری پاکستان کے باسیوں کو تجویز ہے کہ اگر پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں تو زندگی میں آپ کچھ بنیں یا نہ بنیں لیکن ایک مرتبہ جج ضرور بنیں تاکہ آپ کی کرپشن کو قانونی تحفظ مل جائے۔ اگر آپ اس ملک میں رائج نظامِ انصاف پر تھوکنے کے قابل نہ ہوسکے اور جج نہ بن سکے تو یہ نظام آپ کے منہ پر تھوکتا رہے گا؛ اور آپ بھی پوری دنیا سے اپنا منہ چھپاتے پھریں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

میاں عمران احمد

میاں عمران احمد

بلاگر نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی لندن سے گریجویشن کر رکھا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے کالمنسٹ ہیں، جبکہ ورلڈ کالمنسٹ کلب اور پاکستان فیڈریشن آف کالمنسٹ کے ممبر بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔