ڈالر کے تعاقب میں بے لگام سرمایہ کار

ڈالر بائیکاٹ مہم جاری ہے لیکن عوام کے پاس اتنے ڈالر موجود نہیں جتنے چند فیصد سرمایہ کاروں کے پاس ہیں


وقاص عارف May 29, 2019
مقامی سرمایہ کار نے ڈالر کی بے حساب ذخیرہ اندوزی کرکے پورے ملک کو بحران میں مبتلا کردیا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

دنیا کے کسی بھی ملک کے نظامِ معیشت میں سرمایہ کار ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ سرمایہ کار ہی مختلف کاروبار میں سرمایہ کاری کرکے اپنے ہم وطنوں کو روزگار مہیا کرتا ہے۔ اِس کے علاوہ حکومت کو ٹیکس بھی دیتا ہے اور برآمدات کے ذریعے زرِمبادلہ کی مقدارِ کثیر سے بھی نوازتا ہے۔ لیکن جب یہی سرمایہ کار بدنیت ہوجائے یا اپنے سرمایہ کاری کے فیصلے ملکی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر کرنے لگے تو ملکی معیشت تشویش ناک صورتحال اختیار کرلیتی ہے۔

آج سے گیارہ سال قبل تک سرمایہ کاروں کا رجحان صنعتوں کی طرف تھا، یعنی تقریباً ہر سرمایہ کار کی کوشش ہوتی تھی کہ کسی صنعت کار کے ساتھ مل کر کوئی کمپنی شروع کی جائے اور پھر اِس سے روپیہ بنایا جائے، لیکن زرداری دورِ حکومت میں پہلے سے موجود بجلی کا بحران شدت اختیار کرگیا تھا جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ سرمایہ کاروں نے اپنی توجہ صنعت کاری کے بجائے درآمدات کی طرف کرلی اور یوں ہماری درآمدات میں اضافہ ہوتا گیا۔ درآمدات پر بہرحال ڈیوٹی ضرور ملتی رہی لیکن جو ''ڈی انڈسٹریلائزیشن'' (Deindustrialization) سے بیروزگاری میں اضافہ ہوا اور ملکی برآمدات میں کمی ہوئی، اگر اُنہیں مدنظر رکھا جائے تو حاصل شدہ ڈیوٹی فقط اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف تھی۔ اُس وقت کی حکومت کچھ بھی عملی اقدامات کرنے سے قاصر رہی، البتہ ڈالر کی قدر میں اضافے سے سرمایہ کاروں کو ڈالر ذخیرہ کرکے مال بنانے کا موقع ضرور فراہم کیا گیا۔

اگلی حکومت نے اللہ اللہ کرکے اپنے دور کے آخری سال میں لوڈ شیڈنگ سے تو خاصی حد تک جان چھڑائی لیکن اُس وقت تک چڑیا کھیت چُگ چکی تھی۔ مسلم لیگی حکومت کے پانچ سال میں سرمایہ کاروں نے درآمدات کے علاوہ اسٹاک ایکسچینج اور پراپرٹی کا رخ بھی کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹاک مارکیٹ پچاس ہزار کی بلند ترین سطح تک بھی گئی لیکن پراپرٹی میں سرمایہ کاری نے غریب عوام کا اپنے گھر کا خواب دیکھنا تک مہنگا کردیا تھا۔ کراچی میں تو زمین سونے کے بھاؤ ملنے لگی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ فروخت کرنے والا بھی سرمایہ کار اور خریدار بھی۔ پراپرٹی بروکرز کے درجنوں سرمایہ کاروں کی قطار لگی ہوتی تھی اور انہی انویسٹرز نے آپس میں ہی خرید وفروخت کرکے زمینوں کے دام آسمان تک پہنچا دیئے تھے، لیکن یہ مزے زیادہ دیر تک نہ چل سکے۔ سپریم کورٹ نے ایک پراپرٹی ٹائیکون کے خلاف نوٹس لے کر ان سب کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا۔ فیصلہ تو جرمانے کے بعد بحالی کی صورت میں آیا لیکن اِس دوران سرمایہ کاروں کی راتوں کی نیند حرام ہوگئی تھی۔

جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تو ہر ایک کو اندازہ تھا کہ آئی ایم ایف کے بغیر گزارہ نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا سرمایہ کاروں نے اپنا رخ ڈالر کی طرف کرلیا اور ڈالر کی ذخیرہ اندوزی سے ڈالر کی قلت ہوگئی جس کی وجہ سے ڈالر اوپن مارکیٹ میں انٹر مارکیٹ سے بھاری فرق کے ساتھ ملنے لگا؛ اور یہ تماشا اب بھی جاری ہے۔ مذکورہ بالا تمام طریقہ کار بروئے کار لاتے ہوئے سرمایہ کار خوب روپیہ بناتا ہے لیکن انہیں لگام دینے والا کوئی نہیں۔

حال ہی میں پشاور میں نو ہزار کلو لیموں ذخیرہ کرکے مصنوعی بحران پیدا کرنے کی کوشش بے نقاب تو ہوئی لیکن یہ ہرگز پہلا واقعہ نہ تھا، اشیائے خور و نوش کی ذخیرہ اندوزی جیسی روایتی واردات تو خاصی پرانی ہے۔

ملک میں ڈالر بائیکاٹ مہم جاری ہے لیکن عوام کے پاس اتنے ڈالر موجود نہیں جتنے اِن چند فیصد سرمایہ کاروں کے پاس ہیں، لہٰذا موجودہ حالات میں انہیں لگام دینا انتہائی ضروری ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں بہت سے محب وطن سرمایہ کار بھی پائے جاتے ہیں لیکن جب سرمایہ کار ذخیرہ اندوزی اور ملک دشمنی پر اتر آئے تو اُس ملک کا غریب، غریب تر اور امیر، امیر تر ہوتا جاتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے، آمین۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مقبول خبریں