دوزخ کا کیا گناہ کہ دوزخ کو ہم ملے

شاہد سردار  اتوار 9 جون 2019

تاریخی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ہمیشہ سے حکمرانی کے لیے ایک مشکل ترین ملک رہا ہے۔اس کی ہیئت اورساخت بنیادی طور پر ہمیشہ سے پیچیدہ تھی اور ہے۔اسے ایک اسٹیٹ یعنی ریاست بنانے کے لیے سنجیدگی سے کوشش نہیں ہوئیں۔ پھر بھارت اور افغانستان جیسے پڑوسی ممالک کی مسلسل معاندانہ پالیسیوں کی بنا پر پاکستان کو ہمیشہ خطرات اور بڑی حد تک حالت جنگ میں رہنا پڑا ہے۔ ان حالات میں مملکت کی تعمیر متوازن معاشرے کا قیام مشکل ہوتا ہے۔

نئی موجودہ حکومت کی اہلیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ’’ نالائق حکومت اور نالائق وزیر اعظم‘‘ کی آوازیں بازگشت بن کر سنائی دے رہی ہیں اور یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ تحریک انصاف میں تاریخ، سیاست، وژن یا فلسفے کا گہرا ادراک رکھنے والے لوگ بہت کم ہیں اور ان کا کوئی اہم کردار بھی نہیں ہے۔ حکومت نے اسٹیٹ بینک سے ایک ہفتے میں 16 کھرب روپے کا قرض لے کر ایک نیا ملکی ریکارڈ قائم کیا ہے۔

اسٹاک مارکیٹ میں گزشتہ ایک ماہ میں چار ہزار پوائنٹس کی کمی کے ساتھ کھربوں روپے ڈوب گئے، تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف بھاری بھرکم غیر ملکی قرضے لینا پڑ رہے ہیں اور دوسری طرف زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا رجحان غالب ہے اور اقتصادی ماہرین آنے والے دنوں میں اسے مزید ابتر ہوتا دیکھ رہے ہیں۔

بجٹ خسارہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر 28 کھرب تک پہنچنے کا غالب امکان ہے، ریونیو میں 450 ارب روپے کی کمی ہوگئی ہے اور ہر پاکستانی ایک لاکھ 59 ہزار روپے کا مقروض ہے اور سپریم کورٹ نے کہہ دیا ہے کہ ریاست اپنا کردار ادا نہیں کر رہی۔ کرپشن کے نام نامی سے آراستہ اور نیب کو مطلوب جہانگیر ترین نے غیر رسمی طور پر نائب وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال لیا ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ وہ معیشت اور اصلاحات کے ماہرین کی قیادت بھی کر رہے ہیں جو وزیر اعظم کو مشورہ دیتے ہیں۔

ملکی منظرنامے پر صاف دیکھنے کو مل رہا ہے کہ صرف دو فیصد اس ملک میں انواع واقسام کی چیزوں سے مالا مال ہیں جب کہ 98 فیصد کے لیے آسرے اور وعدوں کے لالی پاپ کے سوا کچھ نہیں۔ آصف زرداری کو نصف درجن کیسوں میں ایک ہی دن میں یہاں ضمانت مل جاتی ہے اور شریف خاندان کا کیس ترجیحی بنیادوں پر سنا جاتا ہے اور سہولتوں اور آسانیوں کے ساتھ ان کی دادرسی بھی کسی نہ کسی حوالے سے ہوتی رہتی ہے۔ پرویز مشرف ہوں یا لندن میں بیٹھے بھائی اور ڈار سبھی مزے میں ہیں۔ جزا اور سزا کا کوئی منصفانہ نظام سرے سے موجود ہی نہیں، گھوڑے گدھے ایک ہی لاٹھی سے ہانکے جا رہے ہیں۔ جو ڈکیتیاں وارداتیں ملک کے سابق حکمرانوں نے کرلیں ان کا حساب لینے نہیں دیا جا رہا اور جو ڈکیتیاں ہو رہی ہیں ان کو روکا نہیں جا رہا۔ لے دے کر گھوم پھر کر عوام سے ہی سب کچھ نکالا یا چھینا جا رہا ہے۔ اس صورتحال میں جون ایلیا کا یہ شعر بہت موزوں ہمیں نظر آتا ہے۔

ہم نے کیے گناہ تو دوزخ ملی ہمیں

دوزخ کا کیا گناہ کہ دوزخ کو ہم ملے

ایسے میں اس کڑوی سچائی کو بھی کوئی نہیں جھٹلاسکتا کہ موجودہ حکومت اپنی مقبولیت اور استحکام کی بنیادیں کھو چکی ہے۔ کاش حکومت جان پاتی کہ نئے ٹیکسوں کے نفاذ، پٹرول اور بجلی گیس کے نرخوں میں اضافے اور دیگر اقدامات سے صرف مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ نہیں ہوگا بلکہ اب حالات ’’انارکی‘‘ کی نہج پر پہنچ گئے ہیں۔ سنجیدہ لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ پاکستان میں جس شدت کا معاشی اور مالی بحران پیدا ہو چکا ہے اس کی سنگینی کا ادراک ارباب اختیار کو آخرکیوں نہیں ہو پا رہا؟

پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم نے آکسفورڈ سے تعلیم حاصل کی،کرکٹ کی وجہ سے پوری دنیا دیکھی اور اعلیٰ لوگوں میں اٹھے بیٹھے، ذہین لوگوں کے ساتھ بھی خاصا وقت انھوں نے گزارا لیکن ’’مملکتی امور‘‘ کیا ہوتے ہیں؟ کسی سیاسی جماعت کا وژن یا فلسفہ کیا ہوتا ہے؟ اور حکومت چلانے کے اہم ترین لوازمات کیا ہوتے ہیں ان سے وہ قطعی طور پر نابلد نظر آتے ہیں۔ ان کی حکومت وجود میں آتے ہی پرانی کاروں اور بھینسوں کی فروخت میں لگ گئی۔ وزرائے اعظموں کی قدیم قیام گاہوں کا ستیاناس کرنا انھوں نے شروع کردیا۔ انھوں نے اور ان کے رفقا نے اپنی تمام توانائیاں اور صلاحیتیں سابق حکمرانوں پر تنقید کرنے میں ہی صرف کردیں۔

تعلیم، روزگار، معیشت، بیروزگاری اور مہنگائی جیسے اہم مسائل کو انھوں نے بالائے طاق رکھ کر عالمی بینک سے قرضے کے حصول کو ہی اپنی ذہانت جان لیا، جب کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ عالمی مالیاتی ادارے پسماندہ ممالک کو قرضے دے کر اپنے جال میں پھنساتے ہیں اور پھر ان کی معیشت کو گروی رکھ لیتے ہیں۔آج کل پاکستان کے گرد بھی آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کے معاشی قاتل گھیرا تنگ کر رہے ہیں۔

ایتھوپیا جیسے ملک کے وزیر اعظم نے صرف ایک سال میں اپنے غریب، نادار اور جنگ زدہ ملکوں کو صرف افریقہ میں نہیں بلکہ ترقی یافتہ دنیا میں بھی امید کی علامت بنادیا ہے، ایک سال میں ایتھوپیا نے اپنی پوزیشن کو 40 درجے بہتر بنا دیا، آزادی صحافت اور انسانی حقوق کی صورتحال بہتر ہونے پر یورپی سرمایہ کاروں نے بھی ایتھوپیا کا رخ کرلیا ہے اور صرف ایک سال کے اندر اس ملک میں جگہ جگہ بلند وبالا عمارتیں تعمیر ہوتی نظر آرہی ہیں۔ چین سے لے کر برطانیہ تک اسے داد دے رہے ہیں اور یونیسکو جیسا عالمی ادارہ اسے امن انعام دے رہا ہے۔

ہماری دانست میں اس وقت تمام سیاسی قوتوں کو سارے اختلافات بھلا کر ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے ایک قومی ایجنڈا اپنانا چاہیے، سیاسی قوتوں کو اتفاق رائے سے ایک قومی حکومت تشکیل دینی چاہیے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کی شمولیت ہونی چاہیے۔ اس سے پہلے کہ یہ کام ’’غیر سیاسی قوتیں‘‘ کریں جس طرح چین نے 10 سال کے لیے صرف اپنے داخلی امور سنوارے تھے، اسی طرز پر پاکستان میں قومی حکومت تین سال کے لیے قائم ہوں کیونکہ قومی حکومت جنگوں اور بحرانوں میں بنائی جاتی ہے، تاریخ میں ایسی کئی مثالیں ہیں۔ روس معاشی بحران کی وجہ سے ہی ٹوٹا۔ آنے والی نسلوں کو ایک بہتر اور مستحکم پاکستان دینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ فیصلہ سیاسی قوتیں خود کریں، کیونکہ اس وقت اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر ملک و قوم کے عظیم تر مفاد میں ماہرین کی قومی کانفرنس بلاکر سنگین اقتصادی مسائل کا پائیدار حل تلاش کیا جائے۔

اب جب کہ پاکستان میں ’’میثاق معیشت‘‘ کے حوالے سے مل بیٹھنے کے اشارے سامنے آئے ہیں تو ہمارے ’’ارباب سیاست‘‘ کو اس بارے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ اور پھر یہ ایک ناقابل تردید حقیقت بھی تو کہ ملکی مفادات ذاتی اناؤں کے متحمل نہیں ہوتے، ملکی مفاد کے لیے تمام پارٹیوں کے رہنماؤں کو اپنے اختلافات پس پشت ڈال کر میثاق جمہوریت کی طرف آنا ہی ہوگا جس میں پہل ہماری حکومت کی طرف سے بلاتاخیرکی جانی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔