اپنی اصلاح آپ، مگر کیسے!

راحیلہ چوہدری  جمعـء 14 جون 2019
’’بے مقصد زندگی چاہے کتنی طویل کیوں نہ ہو، موت سے بدتر ہے۔‘‘ فوٹو : فائل

’’بے مقصد زندگی چاہے کتنی طویل کیوں نہ ہو، موت سے بدتر ہے۔‘‘ فوٹو : فائل

دنیا کے مشکل ترین امور میں ایک کام اپنی اصلاح آپ کرنا ہے، بل کہ یوں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ فتنوں کے اس دور میں سب سے مشکل کام ہی اپنے آپ کو صراط مستقیم یعنی درست سمت میں رکھنا ہے۔

ہر انسان اپنی خوبیوں اور خامیوں کے بارے میں جانتا ہے لیکن اپنی خامیوں کو دُور کیسے کرنا ہے یہ کوئی کوئی جانتا ہے۔ اپنی اصلاح کیسے کی جائے ؟ یہ سوال انسان اکثر اپنے آپ سے کرتا ہے لیکن جب جواب نہیں ملتا تو پریشانی اور مایوسی کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے اور نتیجہ کسی نہ کسی نفسیاتی بیماری کی صورت میں نکلتا ہے۔

آ ج ہم دیکھیں گے کہ اپنی اصلاح کے لیے وہ کون سی چند ایسی باتیں ہیں جنہیں اپنا کر ہم ہمیشہ درست سمت میں رہنے کی کوششیں کرسکتے ہیں۔ اپنی اصلاح کے لیے سب سے پہلے جس بات کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے وہ ہے نماز۔ اگر آپ نماز پابندی سے نہیں پڑھتے تو نماز کو پابندی سے ادا کرنے کی کوشش کیجیے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر نماز کا ترجمعہ یاد نہیں تو ترجیحی بنیادوں پر نماز کے ترجمعے کو یاد کیجیے۔ نماز پڑھتے ہوئے اگر نماز کو سمجھ کے نہ پڑھا جائے تو اس کے بغیر نماز کی اصل روح کو نہیں سمجھا جاسکتا اور نہ ہی تعلق بااللہ مضبوط کیا جاسکتا ہے۔

قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، مفہوم: ’’نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔‘‘ اس آیت کی روشنی میں ہم سب کو اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا ہماری نماز ایسی ہے جو ہمیں واقعی برائی اور بے حیائی سے روکتی ہے ۔۔۔ ؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ ہم نے نماز کو اس کی روح اور پورے شعور کے ساتھ ادا ہی نہیں کیا۔

اصلاح کے لیے دوسری اہم بات دعا ہے۔ روزانہ کی بنیادوں پر اپنی دعا کے الفاظ پر غور کریں کہ میں اللہ سے کیا مانگ رہا ہوں اور مجھے اللہ سے کیا مانگنا چاہیے۔ دعا میں اللہ سے صرف اپنی دنیاوی ضروریات کا مطالبہ مت کیجیے بل کہ بار بار اپنے مقصد حیات کو مانگیے۔ اللہ سے بار بار یہ سوال کریں کہ میرا مقصدِ حیات کیا ہے۔ میں دنیا میں کس کام کے لیے آیا ہوں۔ یہ دعا آپ کو اپنے مقصدِ حیات کی طرف توجہ دلائے گی اور مقصدِ حیات کی جستجو ہی آپ کو دنیا اور آخرت میں کامیابی دلائے گی۔ اپنی اصلاح کے لیے یہ ایک انتہائی ضروری امر ہے کہ انسان کو اپنا مقصدِ حیات معلوم ہو۔ اگر آپ کو اپنا مقصدِ حیات پتا نہیں یا مقصدِ حیات بنایا نہیں تو آج ہی سے اپنے مقصدِ حیات کو تلاش کیجیے۔

واصف علی واصف فرماتے ہیں : ’’ بے مقصد زندگی چاہے کتنی طویل کیوں نہ ہو، موت سے بدتر ہے۔‘‘ مقصدِ حیات کے لیے ضروری ہے کہ آپ روزانہ نہ ہوسکے تو کبھی کبھی تہجد کا اہتمام کیجیے اور اس وقت اللہ تعالیٰ سے پورے خشوع و خضوع کے ساتھ دعا کیجیے۔ نماز اور دعا کی درستی کا جائزہ لینے کے بعد تیسری اہم چیز جو ہمیں اپنی زندگی میں شامل کرنے کی اشد ضرورت ہے وہ ہے روزہ۔ ہر ماہ تقریبا تین نفلی روزوں کا خاص طور پر اہتمام کیجیے۔ نفلی روزوں اور نفلی عبادتوں کے بغیر عمل کی پختگی ممکن نہیں اور نہ ہی نفس کی درستی اور نفلی عبادتوں کے بغیر خود شناسی سے خدا شناسی تک کے سفر کو کام یاب نہیں بنایا جاسکتا۔ آج کل بسیار خوری ایک فیشن بن چکا ہے۔ افسوس کے ساتھ خاص طور پر نوجوان نسل نے اپنا مقصدِ حیات اور خوشی حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہی اچھا کھانے پینے کو بنا لیا ہے۔ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی جنسی بے راہ روی اور زنا بالجبر کے بڑھتے ہو ئے واقعات کی ایک وجہ بھی یہی بیسار خوری کی عادت اور نفلی عبادات سے دُوری ہے۔

اس سلسلے میں شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں : ’’جب انسان کا پیٹ بھرا ہوا ہوتا ہے تو اس کے اعضاء بھوکے ہوتے ہیں (یعنی اس میں جنسی حس زیادہ ہوتی ہے) اس وقت اس پر حیوانیت طاری ہوتی ہے اور اگر اس کا پیٹ خالی ہو تو اس کے اعضاء سیر ہوتے ہیں۔ (یعنی جنسی جذبات سرد پڑ جاتے ہیں)‘‘ اس قول کو مدِنظر رکھتے ہوئے خاص طور پر ماؤں سے درخواست ہے کہ وہ فرض روزوں کے ساتھ نفلی روزوں کو اپنے گھروں میں سختی سے رواج دیں تاکہ ہم اپنے بچوں کو گناہِ کبیرہ کے پاس بھی پھٹکنے سے بچا سکیں۔

جب ہماری آنکھوں کے سامنے سے دفاتر، یونی ورسٹی اور کالجز، مدارس اور دیگر جگہوں اور ہماری بستیوں میں زنا بالجبر کے واقعات کی خبریں گزرتی ہیں تو روح کانپ کے رہ جاتی ہے کہ ہمارا آج کا مسلمان نوجوان کیا کررہا ہے۔ کیا یہ ہمارے بچے ہیں؟ اور یہ کس کی ذمے داری ہیں؟ آج کا نوجوان یہ تربیت کہاں سے لے کر آ رہا ہے؟ افسوس کہ آج کے اساتذہ اور والدین نے بچوں اور نوجوانوں کی روحانی تربیت کے حوالے سے اپنی آنکھیں بالکل بند کر لی ہیں۔

اپنی اصلاح کے لیے چوتھی اور اہم بات ذکر الہٰی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’دل دو چیزوں غفلت اور گناہ سے زنگ پکڑ تا ہے اور دو چیزوں سے ہی زنگ دُور کیا جاسکتا ہے، استغفار اور ذکرِ الہٰی۔‘‘

نماز، روزہ، حج، زکوۃ یہ سب عبادتیں تو ذکرِ الہٰی ہیں ہی لیکن کچھ تسبیحات ایسی ہیں جن کو پڑھنے کی نبی کریم ﷺ نے بے شمار جگہ بہت تاکید فرمائی ہے، ان تسبیحات کو زندگی میں قطرہ قطرہ روزانہ کی بنیاد پر شامل کرنے سے انسان بہت سے گناہ کرنے سے بچ جاتا ہے اور انسان تھوڑے وقت میں زیادہ اجر اکھٹا کر لیتا ہے۔ اس کے ساتھ ذکر کرنے سے انسان کوئی بھی عمل کرتے ہوئے ہمیشہ اللہ کو اپنے سامنے اور ساتھ پاتا ہے اور نفس کو درست سمت میں رکھنا آسان ہوجاتا ہے۔ سورۃ الاعراف میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، مفہوم: ’’ اور تُو اپنے رب کو صبح شام اپنے دل میں عاجزی اور خوف کے ساتھ یاد کیا کر اور اُونچی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ اور غافلوں میں سے نہ ہو جانا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اور عاجزی کے ساتھ صبح اور شام اللہ تعالیٰ کا ذکر کر اور اس کی یاد سے غفلت مت برت۔ اس آیت سے ہمیں ذکرِ الہٰی کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کے نفس کو درست سمت میں رکھنے کے لیے ذکر کتنا ضروری ہے۔

ایک مرتبہ آپ ﷺ کی لختِ جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے چکی کی مشقت اور دیگر معمولات کی زیادتی و تکالیف کی شکایت کرتے ہوئے آپ ﷺ سے خادم طلب فرمایا۔ تو آپ ﷺ نے سیدہ فاطمہؓ کو خادمہ دینے کے بہ جائے رات کو سوتے وقت 33 مرتبہ سبحان اﷲ، 33 مرتبہ الحمدﷲ اور 34 مرتبہ اللہ اکبر پڑھنے کا ارشاد فرمایا۔

ہمیں تعلیم کیا گیا ہے کہ جس شخص نے اللہ اکبر، الحمدﷲ، لا الہ الا اللہ اور استغفراللہ کہا اور لوگوں کے راستے سے پتھر یا کانٹے یا ہڈی کو دُور کردیا یا نیکی کا حکم یا برائی سے منع کیا تو اس نے اپنے آپ کو جہنم سے بچالیا۔ اگر ہم اپنی اس مصروف زندگی میں صرف اس ایک تسبیح کو اپنا لیں اور روزانہ اس کو اطمینان اور سکون سے پڑھ لیں تو ہم بڑی حد تک اپنے نفس کو درست رکھنے میں کام یاب ہوجائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔