میٹرک تک ترجمے کے ساتھ مکمل قرآن مجید پڑھانا چاہیے، ڈاکٹر محمد امین

حسان خالد  منگل 18 جون 2019
’تحریک اصلاح تعلیم‘ کے روح و رواں ڈاکٹر محمد امین سے گفتگو

’تحریک اصلاح تعلیم‘ کے روح و رواں ڈاکٹر محمد امین سے گفتگو

ایک درجن سے زائد کتابوں کے مصنف ڈاکٹر محمد امین، سکالر، محقق، مدیر اور استاد ہیں۔ وہ قیام پاکستان کے سال ضلع گجرات کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔

مذہبی رجحان رکھنے والے دادا اور والد کاشتکاری کرتے تھے۔ ڈاکٹر محمد امین نے سائنس کے مضامین کے ساتھ میٹرک کیا، پھر آئی کام کی طرف چلے گئے۔ آئی کام کے بعد ان کی ملازمت ہو گئی، سال، ڈیڑھ سال میرپور میں رہے، پھر لاہور آ گئے۔ فکر روزگار کے لیے دوسرے شہروں اور بیرون ملک بھی کل وقتی اور جز وقتی کام کیا، لیکن اس دوران اپنے شوق کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ ٹوٹنے نہیں دیا۔

انہوں نے پنجاب یونیورسٹی، لاہور سے اسلامی علوم، تاریخ اسلامی اور عربی زبان میں تین ایم اے کیے۔ ایم فل سعودی عرب کی ’جامعہ السعود‘ سے کیا، جبکہ جامعہ پنجاب سے ’’تعمیر شخصیت: اسلام اور مغربی فکر میں تقابلی مطالعہ‘‘ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ’’اسلامائزیشن آف لاز‘‘ کے عنوان سے ایک تحقیقی مقالہ یونیورسٹی آف لندن کے ’سکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز‘ کے لیے بھی لکھا، جو کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں متعارف کرائے گئے اسلامی قوانین سے متعلق ہے۔

ان کا یہ سب تحقیقی اور علمی کام کتابی صورت میں شائع ہو چکا ہے۔ وہ اس وقت لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی میں علوم اسلامیہ کے پروفیسر ہیں۔ انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی سے بھی منسلک رہے، جبکہ دس سال جامعہ پنجاب کے شعبہ ’اردو دائرہ معارف اسلامیہ‘ (اردو انسائیکلوپیڈیا آف اسلام) میں خدمات انجام دیں۔

1986ء میں ڈاکٹر محمد امین سعودی عرب سے وطن واپس لوٹے، جلد ہی وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ معاشرے اور ریاست کو اسلامی مزاج کے مطابق بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ افراد کی صحیح خطوط پر تعلیم و تربیت کی جائے جو کہ تعلیمی نظام میں اصلاح کے بغیر ممکن نہیں۔ ان کے مطابق وطن عزیز میں دینی قوتوں کی ناکامی کی وجہ بھی یہ ہے کہ انہوں نے پہلے افراد کی فکری و عملی تربیت کا اہتمام نہیں کیا۔ چنانچہ انہوں نے اصلاح تعلیم کا بیڑا اٹھا لیا اور اس ضمن میں جدوجہد کرنے لگے۔ ان کے بقول، ’’ہمارے سکول، کالجوں اور جامعات میں مذہبی تعلیم کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ ان کا نظام مغرب زدہ ہے۔

دوسری طرف دینی مدارس کا نظام بھی ناقص ہے کیونکہ اس میں مذہب کے علاوہ دوسرے علوم نہیں پڑھائے جاتے۔ مدارس کا نصاب صدیوں پرانا ہے، جو عصری ضروریات کو پورا نہیں کرتا۔ میرا خیال تھا کہ ان دونوں نظاموں کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے توہم نے ’’تحریک اصلاح تعلیم‘‘ کے نام سے ایک چھوٹی سی تحریک کا آغاز کیا، یہ ایک ٹرسٹ کی صورت میں رجسٹرڈ ہے۔ اسلام میں دین، دنیا کی تفریق نہیں ہے۔ ہمارے پیش نظر یہ ہے کہ جدید تعلیمی نظام کے ساتھ دینی مدارس کی بھی اصلاح کریں تو یہ کام ہم کر رہے ہیں۔ اس موضوع پر میری اب تک چھے سات کتابیں شائع ہو چکی ہیں، دو کتابیں تربیت سے متعلق ہیں۔ ہم ’البرہان‘ کے نام سے ایک ماہانہ فکری و علمی مجلہ بھی شائع کرتے ہیں، جس میں ’اصلاح تعلیم‘ کے مباحث شامل ہوتے ہیں۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ مغربی تہذیب کے بنیادی عناصر سیکولر ازم، لبرل ازم ، کیپٹل ازم اور مغربی جمہوریت ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں اسلام کا اپنا فکری، سیاسی اور معاشی نظام ہے۔ ’’جب آپ مغربی تہذیب کو قبول کر لیتے ہیں تو اسلام سے دور چلے جاتے ہیں۔ مثلاً اسلام کہتا ہے کہ دین، دنیا میں کوئی تفریق نہیں، جبکہ سیکولر ازم کے مطابق یہ الگ الگ ہے۔ اسی طرح لبرل ازم ہے، اسلام میں کوئی لبرل ازم نہیں، مسلمان اللہ کا بندہ ہے اور اس کا حکم ماننے کا پابند ہے۔ مغرب کی جمہوریت سیکولر، لبرل اور سرمایہ درانہ ہے، جبکہ اسلام میں شورائیت کا تصوراس سے مختلف ہے۔ اس لیے ہمارے ہاں کے گزشتہ ستر سالہ مغربی جمہوری نظام سے سیکولر، لبرل ازم کو فروغ ملا ہے اور اسلام برائے نام رہ گیا ہے۔

تو جب مسلمان بچہ اس ماحول میں پروان چڑھے گا تو وہ کنفیوز ہو گا۔ اسلام میں اصلاح و توبہ کا طریقہ کار واضح ہے کہ پہلے ندامت، پھر ترک گناہ اور اللہ کی طرف رجوع اور اس کی سچی اطاعت۔ چنانچہ سب سے پہلے ’تحریک اصلاح تعلیم‘ موجودہ تعلیمی اداروں کو توجہ دلا رہی ہے کہ شعبہ تعلیم میں جو ہو رہا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے اوراس کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ جوں جوں یہ احساس بیدار ہوتا جائے گا لوگ غلامانہ سوچ سے باہر آتے جائیں گے اور جب وہ مغربی تہذیب کی مرعوبیت سے باہر آ کر سوچیں گے تو اصلاح کا عمل آسان ہو جائے گا۔‘‘

اپنے مجوزہ اصلاحی تعلیمی نظام کے بارے میں وہ بتاتے ہیں، ’’ہر نظام تعلیم میں نصاب، طلبہ، انتظامیہ، اساتذہ اور تعلیمی ماحول شامل ہوتے ہیں۔ ان سب کو بدلنا پڑے گا، میں ان کو تشکیل نو کہتا ہوں۔ مثلاً اساتذہ کے تربیتی پروگراموں میں یہ بات شامل نہیں ہوتی کہ استاد کا یہ فریضہ ہے کہ طلبہ کو اچھا مسلمان بنائے۔ ہمارا نصاب اور نظام تعلیم بنیادی طور پر لارڈ میکالے کا چلا ہوا آ رہا ہے، انگریز کو تو تابعدار ملازم درکار تھے جو ان کی سلطنت کا کام چلا سکیں توانہوں نے تو اس طرح کا نظام بنایا تھا۔ مذہبی علوم کے بعد دوسری اہمیت سماجی علوم کی ہے، جو ذہن سازی کرتے ہیں۔ ان میں یہ بھی پڑھانا چاہیے کہ اسلام کا معاشرتی، معاشی، سیاسی اور معاشرتی نظریہ کیا ہے۔مسلمان فلسفی اور عالموں نے جو نظریات پیش کیے ہیں، ان کا علم ہونا چاہیے۔ اسلامی اور سماجی علوم کے نصاب پر نظرثانی ہونی چاہیے، جبکہ جو لائف سائنسز یا پیشہ ورانہ تعلیم ہے وہاں اخلاقی تربیت اور بنیادی دینی تعلیم پر زور دینا چاہیے۔‘‘

وہ تعلیم کے ساتھ طلبہ کی تربیت پر بھی زور دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، ’’تربیت اساتذہ بھی کریں اور والدین بھی۔ ہر ایک کی جتنی ذمہ داری بنتی ہے، وہ اسے ادا کرنی چاہیے۔ تعلیمی اداروں میں ایک ’تربیت کمیٹی‘ ہونی چاہیے، جو انفرادی طور پر بچوں کا اخلاق دیکھے اور جس بچے میں جو خامی ہے اس کو دور کرنے پر زور دے۔ یہ کمیٹی والدین کے ساتھ بھی رابطے میں رہے۔ میٹرک تک ہر بچے کے لیے مکمل قرآن مجید ترجمے کے ساتھ پڑھنا لازمی ہو۔ اس کے لیے ہم نے نصاب بھی بنا رکھا ہے کہ بچوں کو کیسے مرحلہ وار قرآن مجید پڑھایا جائے۔ اس طرح وہ خود قرآن مجید پڑھنے اور سمجھنے کے قابل ہو گا۔ دوسرے کے درس قرآن کا وہ اثر نہیں ہوتا جو خود پڑھنے سے ہو گا۔ گویا اس طرح ہم بچوں کو قرآن کے ساتھ وابستہ کر دیں گے۔‘‘

ڈاکٹر محمد امین سمجھتے ہیں کہ مغربی معاشروں کی خوبیوں سے یہ دھوکہ نہیں کھانا چاہیے کہ ان کا پورا نظام حق و انصاف پر مبنی ہے۔ جن خوبیوں مثلاً ایمانداری، ڈسپلن، صفائی کی اسلام تلقین کرتا ہے، ان پر ہمیں مغرب سے زیادہ عمل پیرا ہونا چاہیے۔ کیونکہ ایک سچے مسلمان کی یہی نشانی ہے۔ ان کے بقول، ’’ہمارے ہاں مذہبی آدمی کا ایک خاص مفہوم طے کر لیا گیا ہے، جو چند رسومات پر عمل کرتا ہو۔ ہم کہتے ہیں کہ جو نماز پڑھتا ہے، حج کرتا ہے، یاجس کا ایک خاص طرح کا حلیہ ہے، ایسا شخص مذہبی ہے، جوکہ ٹھیک نہیں۔ جو بندہ نماز، روزے کی پابندی کرتا ہے لیکن ساتھ جھوٹ بولتا ہے، بے ایمانی کرتا ہے، ایسا شخص برائے نام مسلمان ہے، کیونکہ وہ اسلامی تعلیمات پر تو عمل کر ہی نہیں رہا۔ معاملات بھی ٹھیک کرنے ہوں گے۔‘‘ دو بیٹوں کے والد ڈاکٹر محمد امین اپنی جدوجہد سے مطمئن ہیں۔

کہتے ہیں، ’’اللہ نے تھوڑی بہت جو صلاحیت دی تھی اسے استعمال کرتے ہوئے کچھ کام کرنے کی توفیق ملی ہے، اگرچہ ہم دنیاوی اعتبار سے بہت کامیاب نہیں ہو سکے لیکن الحمدللہ ہم نے محنت اور پوری کوشش کی ہے۔میں سمجھتا ہوں ہر آدمی کو اپنی اور اپنی اولاد کی فکر کرنی چاہیے، اس لحاظ سے کہ کل اللہ کے حضور پیش ہونا ہے، اپنی عاقبت کی فکر کرنی چاہیے اور اپنی اولاد کی تربیت کرنی چاہیے، صرف ان کی دنیا کا ہی نہیں سوچنا چاہیے کہ انہیں اچھی نوکری ملے اور وہ اچھے پیسے کمائیں۔ اس وقت عمومی طور پر ایک مادہ پرستی کی فضا ہے، ہم یہ نہیں سوچ رہے کہ سب کچھ یہیں رہ جانا ہے اور ہم آخرت کی تیاری نہیں کر رہے، اپنے لیے سوچتے ہیں نہ اپنی اولاد کے لیے، اس کے لیے ضروری ہے کہ گھر میں بھی تربیت کا ماحول بنائیں اور تعلیمی اداروں میں بھی اور ہمارے علماء کو بھی اس مقصد کے حصول کے لیے کوشش کرنی چاہیے ۔‘‘

۔۔۔

ملی مجلس شرعی
ہم نے محسوس کیا کہ فرقہ پرستی مذہبی رجحان رکھنے والے لوگوں اور علماء کو ایک دوسرے کے قریب نہیں آنے دیتی۔ دوسروں کو بھی طعنے دینے کا موقع ملتا ہے کہ یہ لوگ کسی ایک ایشو پر اکٹھے تو ہو نہیں سکتے۔ ہم نے سوچا کہ کبھی تمام مکاتب فکر کے لوگ اکٹھے بیٹھ جائیں اور کسی مسئلے جیسے سود کا مسئلہ ہے، اس پر مل کر غور و فکر کریں، مشترکہ موقف اور ردعمل دیں، تو آج سے دس بارہ سال پہلے ہم نے جامعہ نعمیہ میں تمام مسالک کے علماء کو اکٹھا کر کے ’ملی مجلس شرعی‘ کے نام سے ایک پلیٹ فارم بنایا۔ اس میں تمام مکاتب فکر کے علماء شامل ہیں۔

اس میں ہم دو کام کرتے ہیں، ایک تو معاشرے کو جو مسائل درپیش ہیں ان کے سامنے رکھتے ہیں اور کچھ عرصہ ملاقاتیں کر کے، اس پر بات چیت کر کے کوئی متفقہ موقف دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک مرتبہ سپریم کورٹ میں ٹی وی چینلز کے حوالے سے یہ کیس چلا کہ فحاشی پھیلا رہے ہیں، چینلز والے کہنے لگے یہ فحاشی نہیں بلکہ ثقافتی سرگرمیاں ہیں تو جسٹس افتخار نے ریمارکس دیئے کہ پھر فحاشی کی تعریف کیا ہو گی، جس پر سب متفق ہوں۔ تو ہم نے ایک ڈرافٹ بنایا، سارے مسالک کے علماء کو جمع کیا اور کہا کہ اس میں کمی بیشی کریںاور اس کی جانچ کریں، تو ہم نے کوشش کر کے ایک رپورٹ تیار کی اور سپریم کورٹ کو بھجوا دی کہ سارے مکاتب فکر کے علماء کی یہ رائے ہے کہ فحاشی کیا ہے۔ ابھی ہم رویت ہلال کے حوالے سے ایک میٹنگ کرنے والے ہیں۔ ہم یہ میٹنگز بدل بدل کر مختلف مکاتب فکر کے اداروں میں رکھتے ہیں۔

مذہبی سیاسی جماعتیں ناکام کیوں؟
جب میں نے مذہبی سیاسی جماعتوں کی ناکامی کے اسباب پرغور کیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ صرف سیاسی جدوجہد سے دینی فکر غالب نہیں آ سکتی جب تک آپ فرد کو تبدیل نہ کریں۔ انہوں نے لوگوں کی تربیت نہیں کی، اس لیے لوگ کیوں ووٹ دیں گے۔ بدقسمتی سے ہماری مذہبی سیاسی جماعتیں بھی دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح بن چکی ہیں۔

انتخابی سیاست کے بارے میں مولانا مودودی بھی اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے اور میرے علم کے مطابق انہوں نے جماعت کی مجلس شوری میں یہ بات کہی بھی تھی لیکن جماعت والوں کو شاید یہ بات سمجھ نہیں آئی، وہ اس وقت بوڑھے اور بیمار ہو چکے تھے، انہوں نے سوچا کہ اس پر زیادہ اصرار کیا تو جماعت میں خلفشار پیدا ہو گا، باہر بھی اچھا تاثر نہیں جائے گا، اس لیے خاموشی اختیار کیے رکھی۔ میرے خیال میں انہوں نے سوچا ہو گا کہ اس بارے میں ان کی لکھی ہوئی تحریریں موجود ہیں، اگر کوئی حکمت عملی میں تبدیلی کی ضرورت محسوس کرے گا تو ان کو دیکھ لے گا۔ دوسرے یہ جماعتیں فرقہ واریت میں پڑ جاتی ہیں۔ بریلوی، دیوبندی، اہلحدیث جماعتوں کو دوسرے مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ ووٹ کیوں دیں۔ دینی اور سیاسی جدوجہد میں مسلک پرستی نقصان دہ ہے اور ہم دینی قوتوں کو یہ بتانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ وہ اس سے باہر نکلیں۔

ماڈل سکول، جامعات اور مدارس کا قیام
ہم نے اپنی تصانیف میں واضح نقشہ پیش کر دیا ہے کہ ایک مثالی اسلامی سکول، یونیورسٹی اور مدرسے کو کیسے ہونا چاہیے۔ اگر کوئی اس پر عمل کرنا چاہے توہماری تحریریں رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ پہلے مرحلے پر ہم چاہتے ہیں کہ اس پر عمل کرتے ہوئے ماڈل سکولوں، جامعات اور مدارس کا قیام عمل میں لایاجائے اور پھر ان کو مزید فروغ دیا جائے۔ ہم پاکستان کے عوام ، پڑھے لکھے لوگوں، دین دار اور مخیر حضرات سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسے سکول، کالج اور یونیورسٹیاں بنائی جائیں جن کا ماڈل موجودہ ماڈل سے مختلف ہو۔ ان میں فیس سٹرکچر بھی لاگو کیا جا سکتا ہے اور مدارس کی طرح لوگوں کے تعاون سے بھی چلایا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔