بھارتی کمزوری، پاکستان کے لیے سبق

رفیق پٹیل  ہفتہ 24 اگست 2019

بھارت میں مودی کے دوسرے دور اقتدار میں بی جے پی بہت زیادہ طاقتور ہوگئی ہے، لیکن بی جے پی نے جو راستہ اختیارکیا ہے اس سے بھارت کا سیاسی اور معاشرتی ڈھانچہ کمزور ہوگیا ہے۔

بھارتی قانون مذہبی منافرت پھیلانے اور انتخابات میں مذہبی علامات کے استعمال کی اجازت نہیں دیتا۔لامحدود انتخابی اخراجات کی بھی اجازت نہیں ہے بی جے پی نے حالیہ انتخابات میں ان قوانین کو تہس نہس کر دیا، عدلیہ خاموش رہی۔ انتخابات میں ہر جگہ ایک خوف اور دہشت کا ماحول پیدا کیا گیا۔ میڈیا کو مکمل کنٹرول میں کر لیا گیا۔

پلواما کا پر اسرار واقعہ ہوا۔اس واقعے کو بنیاد بنا کر بھارتی قومیت اور پاکستان سے نفرت کا جذباتی ہیجان پیدا کیا۔ مخالفین کو پاکستانی ایجنٹ قرار دیا گیا۔ بی جے پی کی مخالف جماعتیں مزید کمزور ہو گئیں۔ کئی مخالف رہنما بی جے پی میں شامل ہوگئے یا اندرون خانہ بی جے پی سے ہاتھ ملا لیا۔ تقریباً تمام آزاد ادارے بشمول عدلیہ، الیکشن کمیشن اور تحقیقاتی ادارے بی جے پی کے دباؤ میں ہیں یا ان میں براہ راست بی جے پی کا عمل دخل ہے۔

کانگریس کو تتر بترکرکے ختم کرنے کا ہدف پہلے ہی بے جی پی کے منصوبے کا حصہ تھا جس میں کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔ مسلمانوں ، دلتوں اور عیسائیوں کوگھیرکر مارنے کے واقعات پر ہجوم کی خوشی اور عوامی خاموشی ظاہرکرتی ہے کہ بھارتی معاشرہ کس پستی کا شکار ہو رہا ہے۔ بی جے پی نے بھارتی قوم پرستی، ہندو بالادستی اور پاکستان دشمنی کے نام پر جو جذباتی اور جنونی فضا پیدا کی ، اس میں بھارتی دانشور بہہ چکے ہیں۔ بی جے پی نے ایک خوف کی فضا بھی پیدا کی ہے، تاکہ مخالفت میں آواز نہ آسکے۔

ان حالات میں ملازمتوں اور دیگر امور میں اقلیتوں کے ساتھ مزید امتیازی سلوک ہوگا۔ ہندو توا کا فلسفہ عام ہونے کی وجہ سے نچلی ذات کے ہندوؤں کے ساتھ بھی نا انصافی عام ہوگی، بی جے پی کے اس عروج کے نتیجے میں بھارتی معاشرہ تقسیم در تقسیم ہو رہا ہے۔کمزور طبقوں اور اقلیتوں کے ساتھ ظلم اور ناانصافی بتدریج اور غیر محسوس طریقے سے بڑھ رہی ہے۔ بھارتی آئین میں تبدیلی کے ذریعے آئینی دفعہ 370 اور 35A کا خاتمہ کر دیا گیا ہے، جس سے کشمیرکو خصوصی درجہ حاصل تھا۔اس مقصد کے حصول کے لیے تمام کشمیریوں کو ان کے گھروں میں بند کردیا گیا۔ 9 لاکھ فوج کو متحرک کیا گیا۔ راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں 500 کشمیری رہنماؤں کوگرفتار کیا گیا۔

ٹیلی فون، موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سروس بند کردی گئی۔ سخت ترین غیر اعلانیہ کرفیوکے نفاذ کے باوجود کشمیری احتجاج کے لیے باہر آئے تو شدید تشدد کیا گیا۔ جاں بحق ہونے اور زخمی ہونے والوں کی تعداد کو خفیہ رکھا گیا۔کسی بھی میڈیا کے نمایندے کو رسائی نہیں دی گئی۔ ٹی وی چینلز بھی بند رہے۔ محض ایک سرکاری ٹی وی جاری رہا۔ بھارتی میڈیا جو پہلے ہی بی جے پی کی سیاست اور نظریات کا پرچار کر رہا تھا اس نے کشمیر کے حالات کو عوام تک پہنچنے نہ دیا اور یہ ظاہر کرتے رہے وہاں خوشی کا دور دورہ ہے۔ وہاں انسانی حقوق کی تنظیمیں اور حزب اختلاف کے بعض رہنماؤں نے اس پر آواز بلند کی لیکن میڈیا میں ان آوازوں کو دبا دیا گیا۔

دوسری طرف لائن آف کنٹرول پر محاذ کو گرم کر دیا گیا۔ آزاد کشمیر کی شہری آبادی بھی غیر محفوظ ہوگئی بے گناہ شہری نشانہ بنے۔ اس سارے اقدامات سے بھارت کے خلاف دنیا بھر سے آوازیں اٹھنے لگیں۔ بی جے پی کے بعض رہنماؤں نے چند ایسے بیانات دیے جو یہ ظاہر کر رہے تھے جیسے انھیں کشمیریوں سے نہیں کشمیر کی زمین اور وہاں کی عورتوں سے دلچسپی ہے۔ اس قسم کے بیانات سے کشمیری عوام کے غم و غصے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بی جے پی کو طاقت کے نشے میں مخالف بیانات جو بیرونی دنیا سے آ رہے ہیں اس کی کوئی فکر نہیں ہے۔

بھارتی انتظامیہ کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ افغانستان سے امریکا کی واپسی کے بعد افغانستان میں اس کا کردار برقرار رہے۔ لہٰذا وہ کشمیر کے معاملے پر کسی عالمی دباؤ پر سودے بازی کرسکے یا امریکا کو یہ باور کراسکے کہ وہ خطے کا اہم کھلاڑی ہے یہ سارا عمل بھارت کے معاشی، سیاسی اور سماجی ڈھانچے کو کمزور کر رہا ہے اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ وہاں کا جمہوری عمل شفاف نہیں رہا۔ الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری مشکوک ہوگئی۔ بی جے پی نے انتخابی قوانین کو پامال کر دیا۔ مسلم، عیسائی، سکھ اور دلت خود کو غیر محفوظ تصور کر رہے ہیں۔ تقسیم اور نفرت عام ہو رہی ہے۔ میرٹ کا نظام متاثر ہو رہا ہے، غیر ہندوؤں سے امتیازی سلوک کی حوصلہ افزائی جاری ہے۔ آبادی کے دباؤ اور غربت کے علاوہ ماحولیاتی آلودگی کے مسائل بڑھ کر خطرناک صورت اختیار کرگئے ہیں۔

بی جے پی کے اقتدار میں معاشرتی تقسیم اور اقلیتوں سے ناروا سلوک میں اضافہ جاری رہے گا معاشرے کی یہ تقسیم بھارت سے سیکولر نظام کو عملاً ختم کرچکی ہے۔ بھارت دنیا میں اپنی جو تصویر پیش کرتا تھا، بی جے پی نے اسے اتنا داغ دارکردیا ہے کہ اسے ٹھیک کرنا انتہائی مشکل ہے۔ بھارت کا یہ اندرونی خلفشار اسے روز بروز کمزور کر رہا ہے جو رفتہ رفتہ بھارت کے وجود کے لیے خطرہ بن رہا ہے۔ اس کا احساس بھارت میں بہت کم لوگوں کو ہے۔ چند لوگ جو اس طرح کے بھارت کو خطرناک سمجھتے ہیں وہ بے بس ہیں۔ پاکستان کو اس صورتحال میں محتاط رہنا چاہیے اور اپنے عوام کی خوشحالی، ترقی، آزادی اور خودمختاری کی طرف بھرپور توجہ رکھنی چاہیے۔

بھارتی عوام کا اس سلسلے میں کوئی قصور نہیں ہے وہ جذباتی نفرتوں، نفرت کی سیاست کے جال میں پھنس گئے ہیں بی جے پی نے اپنے شکنجے میں بھارتی نظام کو جکڑ لیا ہے اور اس کی اصلی و پرانی پہچان، روایات، ثقافت کو بدل دیا ہے بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بھارتی معاشرے اور سیاست پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ بتدریج اس کے نتائج سامنے آئیں گے۔ یہ سلسلہ طویل مدت تک بھی جاری رہ سکتا ہے پاکستان کو ایسے حالات پیدا کرنے ہوں گے جس سے جذباتی فضا سے دور رہا جائے۔ دفاع کے مکمل اقدامات ہوں، سفارتی سرگرمی جاری رہے۔

میڈیا میں جو بھی گفتگو ہو وہ جذبات کے بجائے دلیل، تحقیق اور حقائق پر مبنی ہو۔ پاکستان کو اس بات سے اجتناب کرنا چاہیے جس سے وہاں کے میڈیا کو موقع ملے کہ وہ نفرت کے جذبات کو فروغ دیں۔ یہ بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ پاکستان کے عوام اور تمام طبقات میں یکجہتی برقرار رہے اور مزید مستحکم ہو۔

بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا نقصان بھارت کو ہی ہوگا۔ لیکن اس کا فائدہ کسی کو نہیں ہوگا۔ خطے میں کوئی تباہی ہوتی ہے تو اس کا نقصان ہی ہوتا ہے فائدہ نہیں ہوتا۔ فائدہ صرف اس صورت میں ہوتا ہے جب استحکام ہوتا ہے، امن ہوتا ہے۔

حکومتوں کی توجہ عام لوگوں کی خوشحالی اور بہبود کی طرف ہوتی ہے کشمیر میں حالات خراب کرکے بھارت نے اپنے ملک کو عدم استحکام سے دوچارکرلیا ہے اور اب وہ ایسا کوئی اقدام کرسکتا ہے جس سے خطہ بھی متاثر ہو۔ بھارت کے حالات سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہیے کہ معاشرے میں تقسیم، امتیازی سلوک، نفرت، عدم برداشت اور انتہا پسندی وہ خطرناک رجحانات ہیں جسے معاشرے میں پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دینا چاہیے اور ایسی قانون سازی کرنی چاہیے جس میں انصاف اور میرٹ کو بنیاد بنایا جائے۔ رنگ، نسل، علاقہ، مذہب کچھ بھی ہو۔ تمام لوگ برابر ہیں۔ پاکستان میں خوشحالی کا واحد راستہ پیداوار میں اضافہ اور تعلیم کا فروغ ہے اس کے لیے ہر سطح پر بھرپور اقدامات ضروری ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔