نرگسیت کا شکار لوگ

مدثر حسیب  پير 30 ستمبر 2019
خودپسندی یا نرگسیت ایک نفسیاتی عارضہ ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

خودپسندی یا نرگسیت ایک نفسیاتی عارضہ ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہمارے ہاں ذہنی صحت پر شائد بہت کم بحث کی جاتی ہے اور بہت کم ہی توجہ دی جاتی ہے۔ شائد ذہنی بیماریوں کی تعلیم کا رواج اور معاشرے میں ان کی وجوہات پر ریسرچ بھی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ اصل میں ذہنی صحت بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ جسمانی صحت۔ یہ ضروری نہیں کہ صرف پاگل خانے میں بھجوائے جانے والے افراد ہی ذہنی مریض ہوں۔

خودپسندی یا نرگسیت ایک نفسیاتی عارضہ ہے۔ ماہرین کے مطابق خودپسندی (Narcissistic personality disorder) کا شکار انسان اپنی ہی ذات میں مرتکز رہ کر دنیا کا مشاہدہ کررہا ہوتا ہے۔ یہی چیز آگے چل کر اس کی شخصیت کی خودغرضی، تکبر اور انتہا کی بڑھی ہوئی لالچی طبیعت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ یہ ایک ذہنی عارضہ ہے جس کا علاج تب ہی ممکن ہے جب انسان خود اپنے بارے میں سوچے اور اپنا ذاتی احتساب کرے۔ کیو نکہ اس کی دوا پوری دنیا میں موجود نہیں ہے۔ ایسے لوگ ہمارے اردگرد موجود ہیں۔ وہ ہمارے ہمسائے ہوسکتے ہیں، ہمارے دوست، رشتے دار یا ہمارے بہن بھائی ہو سکتے ہیں۔ وہ ہمارے سینئر، کولیگ یا ہمارے باس ہوسکتے۔ وہ کسی کو اپنے جیسا نہیں سمجھتے اور ان کے مطابق نہ کوئی ان کی عقلی دانش مندی کی برابری کرسکتا ہے۔ یہ نرگسیت یا خودپرستی جسمانی، ذہنی، معاشی یا معاشرتی ہوسکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ انہیں کیسے پہچانا جائے؟ اور ایسے خودپرست لوگوں میں رہ کر اپنے آپ کو کیسا بچایا جاسکتا ہے؟

ایک پہچان تو خودپرست کی یہ ہے کہ وہ اپنا رویہ بہت جلد تبدیل کرلیتے ہیں۔ ان کے طرز معاشرت اور بول چال میں بھی swing ہوتا ہے۔ ایک منٹ پہلے وہ آپ کو آپ کی اہمیت بتارہے ہوتے ہیں اور اگلے ہی لمحے وہ آپ سے اپنے مطلب کی بات کا جواب ان کی مرضی کا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ وہ اپنی ہر بات کا الزام دوسرے کے سر تھوپنے کے بھی ماہر ہوتے ہیں۔ اپنے اوپر کی گئی چھوٹی سے چھوٹی تنقید پر بے بہا برہم ہوجاتے ہیں اور اونچا بول کر ناقد کو ڈرانے دھمکانے لگتے ہیں۔ اکثر بات کو ذاتی حملے کا رنگ دے کر جواب میں ذاتی حملے شروع کردیتے ہیں۔ ان کی پہلی شرط یہ ہوتی ہے کہ ان سے اختلاف نہ کیا جائے بلکہ ان سے ان کی شرائط کے مطابق معاملات کیے جائیں۔

اپنے آپ کو اہمیت دینا ہر انسان کا حق ہے لیکن ایک خودپرست انسان اپنی پوجا کرتا ہے۔ غرور، تکبر اور اپنی بڑائی میں غیر حقیقی افضلیت (superiority) کا قائل ہوتا ہے۔ میرا علم، میری لُکس، میری دولت، میری گاڑی، میرے گھر کا واش روم، میرا اسٹیٹس، میری ذات، میرا قبیلہ وغیرہ اس کے فقروں میں عام استعمال ہوتے ہیں۔ دوسرا انسان ان کےلیے صرف ایک غیر معنی حقیقت یا اچھوت جیسا ہوتا ہے، جسے وہ اپنے مقاصد کےلیے استعمال کرسکتے ہیں۔ دوسروں کا استحصال کرنا، ان کا حق مارنا وہ بھی کسی شرمندگی کے بغیر، لوگوں کو سبز باغ دکھانا، دوسروں کا مذاق اڑانا اور ان پر ہنسنا، یہ سب بھی ایسے لوگوں کا شیوہ ہے۔

یہ ساری خصوصیات صرف انفرادی سطح کی نہیں بلکہ اجتماعی طور پر قوموں، قبیلوں، حتیٰ کہ ملکوں کے درمیان لڑائیاں بھی اسی خودپرستی یا نرگسیت کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ آپ دیکھیے کہ کوئی سے بھی دو قبیلوں کے درمیان ہمیشہ لڑائی کی وجہ یہی رہی ہے کہ ایک ان میں سے افضل اور طاقتور ہے، دونوں اسی بنیاد پر لڑے۔ زمانہ جاہلیت میں بھی مختلف قبیلوں کی آپس میں لڑائیوں میں سے ایک وجہ یہی نرگسیت تھی۔ موجودہ دور کی پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں جہاں اور بہت سی وجوہات تھیں، وہاں قومی نرگسیت اور بڑائی بھی ایک وجہ تھی۔ جرمن، جاپانی اور اٹلی کی قومیں اپنے آپ کو باقی دنیا سے افضل جانتی تھیں۔ اسی طرح انگریز اور فرنچ اپنے آپ کو اعلیٰ سمجھتے تھے اور اب بھی سمجھتے ہیں۔ اسی طرح کسی انڈین سے پوچھا جائے تو وہ باقی دنیا کو ملیچھ اور ناپاک سمجھتا ہے اور اپنے پوتر ہونے کی گردان سناتا ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں پائی جانے والی ذاتیں اور مختلف قبیلے، جو کہ ہر صوبے میں موجود ہیں، ایک دوسرے پر افضلیت کے قائل ہیں۔ کئی ایک ایسے ہیں جو اپنا شجرہ نسب لے کر دوسرے کو چھوٹا ثابت کرنے پر مصر ہیں۔

لیکن یہاں اصل موضوع یہ ہے کہ ایسے انفرادی خودپرست انسان، جو کہ ذہنی مریض ہیں، سے کیسے بچا جائے یا کیسے ان سے محفوظ رہ کر ڈیل کیا جائے؟

سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کوئی انسان دوسرے سے اس لیے برتر نہیں ہوجاتا کہ مثلاً وہ دو لوگوں کے ملاپ سے کسی قوم یا قبیلے میں پیدا ہوگیا ہے یا اس کے منہ میں سونے کا چمچ ہے۔ پھر ان تمام مقناطیسی قوتوں کو پچھاڑنا ہوگا جو کہ ایک شاطرانہ انداز میں ایسا فرد دوسرے افراد کے اردگرد پیدا کردیتا ہے، تاکہ وہ ذہنی طور پر اس کے اشاروں پر چلیں۔ ایسے لوگوں کا مقصد آپ کو مدد دینا نہیں بلکہ اپنے مقصد کےلیے آپ کو exploit کرنا ہے۔ ان کے جھوٹ اور حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے پر آخرکار دوسرے فرد کو اپنا راستہ الگ کرنا ہی پڑتا ہے، جس کےلیے ہمت درکار ہوتی ہے۔

ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ان سے ڈیل کرنے کےلیے کچھ حدود و قیود طے کرلی جائیں اور ان کو اس سے آگے نہ بڑھنے دیا جائے۔ اس صورت میں ذہنی طور پر اپنے تعلق میں تبدیلی کےلیے بھی تیار رہا جائے، کیونکہ خودپرست بہت جلدی اپنے احساسات اور جذبات کو بدل لیتے ہیں۔ جونہی انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اگلا بندہ ان کے کسی کام کا نہیں، وہ فوراً اپنا تعلق بدل لیں گے۔

اللہ رب العزت نے فرمایا ہے ’’اور ہم نے تم میں سے ہر ایک کو دوسرے کی آزمائش کا ذریعہ بنادیا۔ کیا تم صبر کرو گے؟ تیرا رب سب کچھ دیکھنے والا ہے۔‘‘ (الفرقان،20) پھر آگے چل کر فرمایا ’’رب کے سچے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب بے علم لوگ ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے۔‘‘ (الفرقان،63)

ایک اور اہم کام جو ایک خودپرست کے متعلق کیا جاسکتا ہے، وہ یہ کہ اس کی کسی بات کو جذبات سے نہ پرکھا جائے اور اس کی رائے کو اس کی ذاتی رائے سے تشبیہ دی جائے۔ یہ بات آپ جانتے ہیں کہ اصل حقائق کیا ہیں؟ اور آپ کے نزدیک سچ کیا ہے؟ وہ جو بھی سمجھتا رہے۔ ساری باتوں کا نچوڑ ہے کہ کبھی اس کو کاپی نہ کیا جائے، ورنہ ایک عام فرد میں اور خودپرست میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مدثر حسیب

مدثر حسیب

بلاگر نے مالیات (فائنانس) کے شعبے میں ایم فل کیا ہوا ہے اور دس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ آج کل متحدہ عرب امارات میں بھی شعبہ مالیات میں کام کررہے ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔