سیرت النبیؐ: چیدہ چیدہ واقعات  (دوسرا حصہ)

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی  جمعـء 8 نومبر 2019
drtayyabsinghanvi100@gmail.com

[email protected]

جنگ فجار میں شرکت:

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر بیس سال تھی، جب قبیلہ قریش اور قبیلہ ’’ قیس عیلان‘‘ کے درمیان ایک بہت ہی زبردست جنگ ہوئی، یہ جنگ ’’حرب الفجار‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ ’’بنی کنانہ‘‘ بھی اس جنگ میں قریش کے اتحادی تھے، یہ جنگ چونکہ ان مقدس مہینوں میں لڑی گئی جن میں قتل و غارت کرنا، فسق و فجور ناجائز اور حرام تھا، اس لیے اس جنگ کو ’’حرب الفجار‘‘ کا نام دیا گیا۔ قبیلہ قریش کے تمام ذیلی قبائل نے اس معرکے میں اپنی الگ الگ فوجیں قائم کی تھیں، بنو ہاشم کے علم بردار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زبیر بن عبدالمطلب تھے، جب کہ ان تمام قریشی فوجوں کی مشترکہ کمان حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے والد اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دادا ’’حرب بن امیہ‘‘ کے ہاتھ میں تھی جو رئیس قریش اور نامور جنگجو تھے۔

ابن ہشام کے مطابق بازار عکاظ میں ہونے والا ایک قتل اس جنگ کی وجہ بنا ، دونوں ہی فریقوں نے ایک دوسرے کو اس قتل کا ذمے دار قرار دیا ، بڑھتے بڑھتے یہ تنازعہ اتنا بڑھا کہ ان میں جنگ کی نوبت آ گئی۔

چونکہ اس تنازعے میں قریش خود کو برسر حق سمجھتے تھے اور پھر خاندان کے ننگ و نام کا معاملہ بھی تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنے چچاؤں کے ساتھ اس جنگ میں شریک ہوئے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوران جنگ کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا، بلکہ صرف اپنے چچاؤں کو تیر اٹھا اٹھا کر دیتے رہے، اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ جنگ ان مقدس مہینوں میں ہوئی جن میں جنگ کرنا حرام تھا ، دوسری طرف ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دونوں ہی فریق مشرک تھے، اس لیے اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو اس بے مقصد قتل و غارت گری سے محفوظ رکھا ، کیونکہ مومن کو قتال اور جہاد و جنگ و جدل کا حکم فقط اس لیے دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو اور اسی کا بول بالا ہو، جب کہ یہ جنگ محض نسلی و قبائلی نام و نمود کے لیے لڑی گئی۔

جنگ شروع ہوئی تو اول، اول قبیلہ قیس عیلان کا پلہ بھاری رہا، لیکن دوپہر کے بعد قریش بتدریج غالب ہوتے گئے اور بالآخر قریش ہی فتحیاب ہوئے، تاہم دونوں طرف کے بزرگوں کی کوشش سے دونوں قبائل میں صلح کی آواز اٹھی اور یہ تجویز آئی کہ فریقین کے مقتولین گن لیے جائیں، جدھر زیادہ ہوں ان کو زائد کی دیت دے دی جائے، چنانچہ اسی پر صلح ہو گئی اور یوں قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ تھم گیا۔

معاہدہ حلف الفضول میں شرکت:

معمولی معمولی باتوں پر لڑائیوں کا سلسلہ عرب میں مدتوں سے جاری تھا ، جس نے سیکڑوں گھرانے برباد کر دیے تھے اور قتل و سفاکی موروثی اخلاق بن گئے تھے، حرب الفجارکے بعد بعض صالح طبیعتوں میں اس بے معنی جنگ و جدل سے بیزاری پیدا ہوئی اور یہ خیال پیدا ہوا کہ جس طرح زمانہ سابق میں قتل و غارت گری اور ظلم و ستم کے انسداد کے لیے ’’فضل بن فضالہ، فضل بن وداعہ اور فضل بن حارث‘‘ نے ایک معاہدہ مرتب کیا تھا، جو انھی کے نام پر ’’حلف الفضول‘‘ کے نام سے مشہور ہوا، اسی طرح اب دوبارہ اس کی تجدید کی جائے، (چونکہ ان سب کے نام میں فضل کا لفظ شامل تھا، اس لیے معاہدہ کو حلف الفضول کہتے ہیں)۔

جنگ فجار سے جب لوگ واپس مکہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا اور خاندان بنو ہاشم کے سردار جناب زبیر بن عبدالمطلب نے سب کے سامنے یہ تجویز پیش کی، چنانچہ خاندان بنو ہاشم، بنو زہرہ اور بنو تیم ’’عبداللہ بن جدعان تیمی‘‘ کے گھر میں جمع ہوئے، وہ سن و شرف میں ممتاز تھا، وہاں یہ معاہدہ طے پایا کہ ہم میں سے ہر شخص مظلوم کی حمایت کرے گا اورکوئی ظالم مکہ میں نہ رہنے پائے گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ’’اس معاہدے کے وقت میں بھی عبداللہ بن جدعان کے گھر حاضر تھا، اس معاہدے کے مقابلے میں اگر مجھ کو سرخ اونٹ بھی دیے جاتے تو ہرگز پسند نہ کرتا ’’ اور اگر اب زمانہ اسلام میں بھی اس قسم کے معاہدے کی طرف بلایا جاؤں تو بھی اس کی شرکت کو ضرور قبول کروں گا۔‘‘

اس معاہدے کا سبب یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ زبید کا ایک آدمی سامان لے کر مکہ آیا اور ’’عاص بن وائل‘‘ نے اس سے سامان خریدا، لیکن اس کا حق روک لیا، اس نے حلیف قبائل عبدالدار، مخزوم، سہم اور عدی سے مدد کی درخواست کی، لیکن کسی نے توجہ نہ دی، اس کے بعد اس نے جَبَلِ ابو قُبَیس پر چڑھ کر بلند آواز سے چند اشعار پڑھے، جن میں اپنی داستان مظلومیت بیان کی تھی، اس پر جناب زبیر بن عبدالمطلب نے دوڑ دھوپ کی اور کہا کہ یہ شخص بے یار و مددگار کیوں ہے؟ ان کی کوشش سے اوپر ذکر کیے ہوئے قبائل جمع ہو گئے، پہلے معاہدہ طے کیا اور پھر عاص بن وائل سے زبیدی کا حق دلایا۔

حلف الفضول کا یہ واقعہ حرب الفجار کے 4 ماہ بعد اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے 20 سال پہلے پیش آیا، جسے قتل و غارت گری اور ظلم و ستم کی روک تھام میں ایک سنگ میل کا درجہ حاصل ہوا، اس لیے اس معاہدے کو زمانہ جاہلیت کے بہترین معاہدے کی حیثیت سے یاد رکھا گیا ہے۔  (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔