خواتین اور ملکی خوشحالی

1985 میں خواندہ مرد 38.9 فیصد اور خواندہ خواتین 17.00 فیصد تھیں


رفیق پٹیل December 29, 2019

KARACHI: گزشتہ 100 سالہ تاریخ نے واضح طور پر ثابت کردیا ہے کہ قوموں کی ترقی، خوش حالی اور استحکام کے لیے خواتین کا موثرمرکزی کردار اور بھر پور شراکت ضروری ہے۔ 2017 میں جاری کی گئی ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق سنگاپور میں کل ملازمتوں میں 45 فیصد خواتین ملازمت کرتی ہیں۔

سنگاپورکی ٹیلی کمیونی کیشن کی بہت بڑی کمپنی سنگ ٹیل کے اعلیٰ عہدوں پر ایک تہائی خواتین فائز ہیں۔ سنگاپور میں خواتین کو با اختیار بنانے انھیں بہتر تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ آج سنگاپور ترقی کی جس منزل پر ہے، اس میں خواتین نے مردوں کے ساتھ اہم کردار ادا کیا ہے۔

2019 میں خواتین کی حیثیت کے بارے میں عالمی جائزے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خواتین کی ملازمتوں کے حوالے سے آئس لینڈ ترقی یافتہ ملک ہے، جہاں 79.1 فیصد خواتین ملازمت کرتی ہیں۔ دوسرے نمبر پر سوئیڈن ہے جہاں 76.1 فیصد اور تیسرے نمبر پر نیوزی لینڈ ہے جہاں 73.6 فیصد خواتین ملازمت کرتی ہیں۔ سلوینیا، ناروے، لگژمبرگ ، ڈنمارک ، پولینڈ، فن لینڈ اور بیلجیم بالترتیب خواتین کی ملازمتوں کے لحاظ سے آگے ہیں یہ وہ ممالک ہیں جہاں سیاسی ومعاشی استحکام ہے خوشحالی اور ترقی ہے۔ مجموعی طور پر عوام خوش اور مطمئن ہیں۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں خواتین کی جدوجہد جاری ہے۔ اکثر محققین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ خواتین کو مزید با اختیار بنانے اور معاشرے سے صنفی امتیاز کا خاتمہ اور صنفی توازن ضروری ہے۔ پاکستان کی ترقی و خوشحالی میں ایک اہم رکاوٹ خواتین کی تعلیم و تربیت تحفظ اور ان کی معاشی ترقی کے لیے ناکافی اقدامات ہیں۔ پاکستان کو پسماندگی سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ فرسودہ رسم و رواج سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ معاشرے میں صنفی امتیازکا خاتمہ کیا جائے۔

فرسودہ رسم و رواج کی وجہ سے آج بھی ایک بھاری اکثریت لڑکے کی پیدائش پر خوشی مناتی ہے اور لڑکی کی پیدائش پر افسردہ ہو جاتی ہے۔ بچپن ہی سے لڑکا، لڑکی کو علیحدہ رہنا، لڑکی کی ذمے داری گھر سنبھالنا، لڑکوں کے لیے باہر کام کرنے کا تصور عام ہے۔ خصوصی طور پر یہ تصور درمیانے اور نچلے درمیانے طبقے اورکسی حد تک اونچے درمیانے طبقے میں بہت زیادہ ہے۔

بعض گھرانوں میں کھانے پر پہلا حق مردوں کا تصور کیا جانا، خواتین کو بعد میں کھانا دیا جاتا ہے۔ سندھ میں کاری کی رسم میں کسی لڑکی کو شادی سے پہلے کسی لڑکے سے ملنے پر اس کے عزیز و رشتے دار اسے گناہ گار قرار دیتے ہیں۔ سزا کے طور پر اسے قتل کردیا جاتا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کا سلسلہ ملک کے تمام دور دراز پسماندہ علاقوں میں جاری ہے۔ 1975 میں خواندہ مردوں کی تعداد 31.8 فیصد تھی۔ خواتین کی خواندگی 13 فیصد تھی۔ 1980 میں خواندہ مرد 34.8 فیصد اور خواندہ خواتین 15.7 فیصد تھیں۔

1985 میں خواندہ مرد 38.9 فیصد اور خواندہ خواتین 17.00 فیصد تھیں۔ 1990 میں یہ تعداد مردوں میں 43.4 فیصد اور خواتین میں 19.1 فیصد رہی۔ 1995 میں مرد 48.7 فیصد اور خواتین 22.5 فیصد خواندگی کے معیار پر تھیں آج یہ تعداد 60 فیصد مرد اور 30 فیصد خواتین پر مشتمل ہے خواندگی سے مراد صرف وہ مرد و خواتین ہیں جو اپنا نام لکھ اور پڑھ سکتے ہیں۔ اس سے ہم پرائمری تک کی تعلیم کا تصور تسلیم کرسکتے ہیں۔

ورلڈ بینک کی 2016 کی رپورٹ کے مطابق 15 سے 19 سال تک کی 35.46 فیصد خواتین تعلیم سے محروم تھیں۔ 20 سے 24 سال کی خواتین میں 44.12 فیصد تعلیم سے محروم تھیں جب کہ 25 سال سے زائد خواتین جو تعلیم سے محروم تھیں ان کی تعداد 60.03 فیصد تھی۔ اس طرح 15 سال سے زائد خواتین کی کل تعداد 5 کروڑ 46 لاکھ اور 3 ہزار تھی جو مکمل ناخواندہ تھی۔ تعلیم سے محرومی کی وجہ سے خواتین کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کام کرنے کی خواہش مند خواتین مزدوری اور گھروں میں کام کرتی ہیں۔

تعلیم یافتہ خواتین بھی دفتروں میں اعلیٰ عہدے تک نہیں پہنچ سکتی ہیں۔ جو خواتین اعلیٰ عہدوں تک پہنچتی ہیں ان کی تعداد بہت کم ہے۔ سڑکوں، گلیوں، محلوں، درسگاہوں اور دفتروں میں انھیں ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ایک فرسودہ تصور یہ ہے کہ عورت ناقص العقل ہے۔ اس قسم کے ماحول کی وجہ کسی بھی خاتون کے اہل خانہ خوف کا شکار ہو کر اسے باہر جانے اور کام سے روک دیتے ہیں۔ پاکستان میں عمومی طور پر مردوں کا معاشرہ ہے۔ خواتین کی صلاحیتوں کا اعتراف انتہائی مشکل سے کیا جاتا ہے۔ خواتین کا اغوا خواتین سے زیادتی، غیر مسلم خواتین کو اغوا کرکے جبراً مذہب کی تبدیلی کی خبریں آئے دن اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ اس پر احتجاج بھی ہوتا ہے، لیکن انصاف کے نظام کی کمزوری سے ملزمان فائدہ اٹھاتے ہیں۔

ورلڈ اکنامک فورم نے خواتین کے با اختیار ہونے کے حوالے دنیا کے خراب ترین ممالک کے آخری درجے سے صرف ایک درجہ اوپر کا ملک قرار دیا ہے۔ یعنی پاکستان 144 ممالک کی فہرست میں 143 ویں نمبر پر تھا۔ جب کہ بنگلہ دیش 47 ویں درجے پر تھا بھارت 108 ویں درجے پر تھا۔ یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے ملک کی ترقی اور خوشحالی میں بہت بڑی رکاوٹ ہے عام لوگوں پر خصوصاً ملک کی غریب آبادی پر اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ شہروں میں کام کرنے والی خواتین کی تعداد 18.4 فیصد ہے جب کہ مردوں کی تعداد 91.6 فیصد ہے، جب کہ بہت بڑی تعداد بے روزگار ہے۔

خواتین کے لیے ملازمتوں کے مواقع کم ہیں۔ کم اجرتوں اور کم درجے کی ملازمتیں خواتین کے لیے ہیں۔ خواتین کے قانونی مسائل میں مقدمات کے بھاری اخراجات، قانونی امداد تک رسائی سے محرومی، انصاف میں تاخیر، پیچیدہ عدالتی نظام کے علاوہ انھیں ہراسانی کا سامنا کرنا شامل ہے۔

بنگلہ دیش کے مسلم علما اور حکومت نے مل کر خواتین کی ترقی خود مختاری اور آزادی کے ساتھ بہبود آبادی کی مہم چلائی جس کے حیران کن نتائج سامنے آئے یہ مہم گھر گھر چلائی گئی تھی۔ جس نے بنگلہ دیش کی خوشحالی میں مرکزی کردار ادا کیا۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں کونسلرز کی سطح پر خواتین کو آگے لائیں بلدیات میں خواتین کو زیادہ سے زیادہ نمایندگی دیں۔

گھر گھر مہم چلا کر بچیوں کو تعلیم کے لیے آمادہ کریں۔ پارٹی کے مرکزی عہدوں پر اور وزارتوں میں انھیں برابر کی نمایندگی دیں تو صورتحال میں مزید بہتری آسکتی ہے۔ تعلیم کو عام کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر اسکولوں کے قیام خواتین اور مرد اساتذہ کی تعداد میں بڑے پیمانے پر اضافے ان کی بہتر تربیت اور ان کی تعلیمی قابلیت پر بھی توجہ انتہائی ضروری ہے۔ سعودی عرب نے قدم بقدم خواتین کو آگے لانے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ رفتہ رفتہ یہ سلسلہ آگے بڑھے گا۔ تو اس بات کا امکان ہے کہ مستقبل میں سعودی خواتین پولیس، کسٹمز، بینکوں، اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، دفتروں، دکانوں، ذاتی کاروبار سمیت ہر مقام پر ایک موثر کردار ادا کرتی ہوئی نظر آئیں گی۔

دنیا تیز رفتاری سے تبدیل ہو رہی ہے لیکن بعض عناصر اپنے فرسودہ رسم و رواج کو ترک کرنے سے گریزاں ہیں ان کا ہدف خواتین کی اعلیٰ تعلیم و تربیت اور انھیں اعلیٰ عہدوں تک پہنچنے میں رکاوٹ ڈالنا ہے حالانکہ پاکستانی خواتین انتہائی باصلاحیت ہیں اور ملک میں خوشحالی لانے میں بھرپور کردار ادا کرسکتی ہیں۔ اس کے لیے ایک عوامی مہم بھی ضروری ہے۔

مقبول خبریں