علاقائی امن…

ناصر الدین محمود  ہفتہ 7 دسمبر 2013

موجودہ حکومت کے سامنے دم توڑتی معیشت اور دہشت گردی کی وجہ سے خوفناک حد تک امن و امان کی خراب صورتحال سب سے اہم چیلنج ہے۔ معیشت کی ابتری اور امن و امان کی خرابی کی بڑی وجہ دور آمریت میں اختیار کی گئی غیر حقیقت پسندانہ خارجہ اور معاشی پالیسی تھی، جس کی وجہ سے ملک میں مذہبی اور فرقہ وارانہ انتہا پسندی کو مزید فروغ حاصل ہوا اور پاکستان عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہوگیا۔

اقتدار پر فرد واحد کے قبضے کے نتیجے میں خارجہ پالیسی کے زیادہ موثر نہ ہونے کے براہ راست اثرات ملکی معیشت پر مرتب ہوئے۔ اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ کرنے کے بجائے ہر بار عالمی مالیاتی اداروں اور ترقی یافتہ ممالک سے سود پر قرضے حاصل کرکے امور ریاست کو چلانے کا آسان راستہ اختیار کیا گیا جس سے ملک کے قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوتا گیا۔ یہ صورتحال اس قدر گمبھیر ہوئی کہ قرضوں کا سود ادا کرنے کے لیے کڑی شرائط پر مزید قرض حاصل کرنا پڑا اور اس عمل نے پاکستان کی آزادی، خود مختاری اور وقار کو بری طرح مجروح کیا۔ موجودہ حکومت نے برسر اقتدار آنے کے بعد پہلے مرحلے میں ملک کو درپیش مسائل کا پوری طرح سے ادراک کیا اور اس سے نکلنے کے راستے تلاش کیے اور اپنے اوپر ہر طرف سے ہونے والی مخاصمانہ یلغار کی فکر نہ کرتے ہوئے اپنی پوری توجہ مسائل کے حل کی جانب مرکوز کردی۔

وزیراعظم نواز شریف سمجھتے ہیں کہ خارجہ پالیسی کے خطوط تبدیل کیے بغیر معاشی ترقی کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی حکومت کے چھ ماہ کے قلیل عرصے میں عالمی اور علاقائی سطح کے کئی ممالک کے دورے کیے جن میں امریکا کے علاوہ چین، سعودی عرب اور اب افغانستان کا دورہ قابل ذکر ہے۔ اس کے علاوہ بھارت اور ایران کے ساتھ بہتر تعلقات کے ضمن میں ان کے انتہائی واضح بیانات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات کے خواہشمند ہیں۔ وہ اس حقیقت کو پوری طرح جان چکے ہیں کہ جب تک کسی دوسرے ملک کی آزادی اور خود مختاری کا احترام نہیں کیا جائے گا اس وقت تک دنیا بھی ہماری آزادی اور خود مختاری کا احترام نہیں کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے حالیہ دورۂ افغانستان کے موقع پر دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان افغانستان کے اندر کسی دھڑے کی حمایت نہیں کرے گا۔ افغان عوام اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں۔ ان کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان میں امریکی اڈوں کا فیصلہ کابل حکومت خودکرے گی اور پاکستان، افغانستان میں پائیدار امن کے لیے سیاسی تصفیہ کی حمایت اور اپنا مثبت کردار ادا کرے گا۔

وزیراعظم نواز شریف نے اپنے دورۂ افغانستان میں صرف ان کی آزادی اور خود مختاری کے احترام کا ہی پیغام نہیں دیا بلکہ دونوں ہمسایہ ممالک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ کرکے پائیدار امن کے قیام کے ساتھ ساتھ اقتصادی تعلقات بڑھانے پر بھی زور دیا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے کابل میں دونوں رہنماؤں کے درمیان 2015 تک دو طرفہ تجارت کا حجم پانچ ارب ڈالر تک بڑھانے کا عزم کیا گیا۔ اس موقع پر دونوں رہنماؤں کے درمیان پاک افغان تجارت میں پیش آنے والی مشکلات میں کمی اور آمد و رفت میں بہتری کے لیے پشاور سے کابل تک موٹر وے کی تعمیر کے علاوہ جلال آباد اور چمن کے درمیان ریلوے لائن کی تعمیر کے منصوبے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں افغانستان میں تجارت کے فروغ کے لیے پاکستانی بندرگاہیں انتہائی مددگار ثابت ہوں گی اور اس کے عوض پاکستان کو اربوں ڈالر کا قیمتی زر مبادلہ حاصل ہوگا جو دونوں ممالک کی خوشحالی کا ذریعہ بنے گا۔

اخباری اطلاعات کے مطابق دونوں ممالک نے کاسا 1000 اور تاپی گیس جیسے منصوبوں کا کام تیز رفتاری کے ساتھ مکمل کرنے کا بھی عزم کیا ہے۔ جس کی بدولت پاکستان میں توانائی کے بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی جب کہ کاسا 1000 کی توسیع کے بعد پاکستان کو وسطی ایشیا سے 1300 میگاواٹ بجلی حاصل ہوسکے گی۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان تمام منصوبوں کی تکمیل کے ساتھ ہی پاکستان اور افغانستان میں حقیقی ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوجائے گا جو علاقائی اور عالمی امن کا ضامن ہوگا۔ پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ دونوں ممالک نائن الیون کے بعد سے شدید دہشت گردی کا شکار ہیں لہٰذا یہاں فوری طور پر قیام امن کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں۔ دونوں ممالک کو دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے اقدامات کرنا ہوں گے اور یہ عمل نہ صرف ابھی بلکہ امریکا اور اس کے اتحادی نیٹو افواج کے افغانستان سے واپسی کے عمل کے اختتام کے بعدبھی جاری رہنا چاہیے۔

وزیراعظم نواز شریف کی سوچ و فکر میں کوئی ابہام نہیں۔ آج کی تسلیم شدہ حقیقت یہ ہے کہ عالمی تجارت میں اپنا حصہ بڑھانے اور معاشی ترقی کے لیے دوستانہ علاقائی تعلقات بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر اور معاشی بحران کے شکار ملک کے لیے یہ امر انتہائی ناگزیر ہے کہ وہ ہمسایہ ممالک یا دنیا کے کسی دوسرے ملک کے سیاسی معاملات میں دلچسپی لینے کے بجائے اپنی معاشی اور تجارتی پالیسی کو نئے خطوط پر از سر نو استوار کرے تاکہ وہ اپنی موجودہ اقتصادی مشکلات سے نکل سکے۔ قدرت نے پاکستان کو بے پناہ قیمتی دھاتوں اور نایاب معدنیات جیسے وسائل سے مالا مال کیا ہے۔ اس کے پاس بہترین انسانی سرمایہ ہے جس کو بروئے کار لاکر پاکستان معاشی معجزے رونما کرسکتا ہے۔

وزیراعظم میاں نواز شریف علاقائی امن کے لیے روز اول سے کوشاں ہیں۔ اس ضمن میں وہ پہلے ہی اپنی حکومت کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے کہہ چکے ہیں کہ وہ علاقے کے تمام ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات چاہتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ ہمارے نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے تک دشمنوں جیسے تعلقات رہے ہیں۔ اب وہ اس کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔ نواز شریف، اپنے پچھلے دور حکومت میں بھی بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں تھے۔ 1998 میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی بس پر سوار ہوکر لاہور تشریف لائے تھے اور مینار پاکستان پر حاضری دی تھی۔ اس زمانے میں بھی پاکستانی اور بھارتی وزرائے اعظم کے مابین ہونے والے معاہدہ لاہور کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان برسوں سے موجود کشیدگی کے ماحول میں کمی ہوئی تھی۔ اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کے فروغ، ویزہ کی پابندیوں میں نرمی جیسے بنیادی نوعیت کے فیصلے ہوئے تھے لیکن بدقسمتی سے بہت جلد تمام امیدیں دم توڑ گئیں۔

آج تقریباً 15 برس بعد ایک بار پھر وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف علاقائی امن کی اپنی اسی پالیسی پر دوبارہ سرگرداںہیں اور اس بار وہ صرف بھار ت ہی نہیں بلکہ علاقے کے تمام ممالک افغانستان، ایران اور چین سے بھی برابری کی سطح کے بہترین تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔ آج دنیا کے تقریباً تمام ملک امن، دوستی اورمعاشی تعاون کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ آج پاکستان میں مٹھی بھر سخت گیر نظریات کے حامل ایسے افراد موجود ہیں جو زمانہ سرد جنگ کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ دنیا کے حالات کو ان کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے اور سمجھا جائے لیکن وہ خود آج کی تبدیل شدہ دنیا کو اس کے تقاضوں کے مطابق سمجھنے کو ہرگز تیار نہیں ہیں۔ ایسے عناصر کو سمجھنا چاہیے کہ اس طرز عمل سے ملک کو نقصان ہوگا۔ انھیں یہ بھی جاننا چاہیے کہ تاریخ کے ارتقائی عمل سے ٹکرانا لاحاصل ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔