پی ایس ایل کو تباہی سے بچائیں

سلیم خالق  ہفتہ 26 ستمبر 2020
لڑائی ہر مسئلے کا حل نہیں ہوتی آپ کو ڈپلومیسی سے کام لینا پڑتا ہے، جو طاقت ملی ہے اس کا مثبت استعمال کریں۔
 فوٹو: فائل

لڑائی ہر مسئلے کا حل نہیں ہوتی آپ کو ڈپلومیسی سے کام لینا پڑتا ہے، جو طاقت ملی ہے اس کا مثبت استعمال کریں۔ فوٹو: فائل

’’کمرے میں اس وقت گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی،ایسے میں ایک آواز گونجی تو سب متوجہ ہوئے، ان صاحب نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم آپ کو یقین دہانی کراتے ہیں کہ پہلے  سیزن میں 1.3 سے 1.5 ملین ڈالر دیں گے، اب تو مطمئن ہیں ناں، یہ سن کر میٹنگ کا تلخ ماحول تھوڑا نارمل ہوا‘‘

یہ 2015کی بات ہے جب پی  ایس ایل کا پہلا ایڈیشن کرانے کی تیاریاں جاری تھیں،پاکستان کی ٹی20لیگ کا خواب ذکا اشرف نے دیکھا مگر اسے عملی جامہ نجم سیٹھی نے پہنایا، انھیں لگا کہ ٹیمیں خریدنے کیلیے لوگوں کی لائنیں لگی ہوں گی مگر ایسا نہ ہو سکا، پھرملکی محبت جگا کر اور ذاتی تعلقات استعمال کر کے فرنچائزز بیچی گئیں،مستقبل کے سہانے خواب بھی دکھائے گئے،ان سے کہا گیا کہ براڈ کاسٹ سمیت دیگر معاہدے بہت بڑی رقوم کے ہوں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا تو پھر توقع سے کم رقم پر ڈیل فائنل کرنا پڑیں،اس پرٹیمیں پریشان ہوئیں اور دستبرداری کا سوچنے لگیں۔

ایسے میں پی سی بی کو انھیں بہتری کی یقین دہانی کرانا پڑی،بعد میں اس حوالے سے ای میل بھی بھیجی اور 1.3ملین ڈالر ہر فرنچائز کو ملے،چونکہ یہ معاہدے کا حصہ نہیں تھا لہذا آڈٹ رپورٹ میں  مشکوک قرار پایا اور اب تک اس کی تحقیقات چل رہی ہیں، بورڈ نے فرنچائزز سے پہلے سیزن کے بعد پی ایس ایل کو الگ کمپنی بنانے کا وعدہ بھی کیا تھا جس میں ان کے نمائندے بھی شامل ہوتے، یہ بھی کہا گیا کہ اسے گلوبل لیگ  بنایا جائے گا جس میں اومان، قطر اور یو اے ای کی ٹیمیں بھی آئیں گی۔

پیسے کی ریل پیل ہوگی، یہ بھی  نہ ہوا، لیگ کا ماڈل ہی ٹھیک نہ تھا، سلمان سرور بٹ نے آئی پی ایل،امریکا سے آئے ہوئے شعیب نوید نے این ایف ایل اور فٹبال کے شوقین فیصل مرزا نے انگلش پریمیئر لیگ  سے تھوڑی تھوڑی چیزیں لے کر مکسچر بنایا جسے پی ایس ایل ماڈل کا نام دیا گیا، نجم سیٹھی کو چونکہ کرکٹ کا کچھ پتا نہیں تھا اس لیے وہ ان پر ہی انحصار کرتے رہے، سلمان سرور  بورڈ سے چلے گئے تو نجم سیٹھی نائلہ بھٹی کو لے آئے مگر بات وعدوں سے آگے نہ بڑھی، فرنچائزز نقصان اٹھاتی رہیں، البتہ پی ایس ایل ایک بڑا برانڈ بن گئی جس کی وجہ سے تین سیزن کے بعد میڈیا رائٹس اور اسپانسر شپ کا بڑا معاہدہ ہوا،اس سے قبل ہی حکومت تبدیل ہونے پر نجم سیٹھی کو جانا پڑا تھا۔

نئے بورڈ حکام بھی بظاہر ماڈل سے مطمئن نہ تھے مگر وہ ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالتے رہے کہ وہ اسے ٹھیک کرے گا مگر ایسا  نہ ہوا، ہر بار  بینک گارنٹی لینے کے بعد معاملہ پھر سرد خانے میں چلا جاتا، اس سال بھی ایسا ہی ہوتا مگر فرنچائزز کورٹ چلی گئیں، پی ایس ایل کے معاملات میں خرابی کی جڑ نجم سیٹھی ہی تھے، انھوں نے اپنے آپ کو ہیرو بنانے کے چکر میں مستقبل کا سوچے بغیر جلد بازی میں لیگ کرا دی، بعد میں بھی ان کے پاس بہتری کا موقع تھا مگر کچھ نہ کیا۔

پی ایس ایل کا معاہدہ یکطرفہ سا تھا،اس میں نجم سیٹھی نے فرنچائزز کے مفادات کا خیال نہ رکھا،انھیں 10سال کیلیے ٹیم ملی، یہ بھی غلط ہے آپ اتنی محنت سے برانڈ بنائیں اور پھر 10سال بعد کسی وجہ سے مالکانہ حقوق برقرار نہ رکھ سکیں تو کیا ہوگا؟ نجم سیٹھی اپنے مزاحیہ پنجابی لب و لہجے سے لوگوں کو شیشے میں اتارنا جانتے تھے،جب تک وہ بورڈ میں رہے فرنچائزز جب شکایت کرتیں وہ سبز باغ دکھا کر منا لیتے، مگر موجودہ بورڈ حکام کا انداز مختلف ہے، ان کا رویہ تحکمانہ اور لچک کم ہے۔

انھوں نے فرنچائز اونرز کو زیادہ لفٹ نہیں کرائی بلکہ انہی میں سے ایک شعیب نوید کو دوبارہ نوکری پر رکھ لیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ جو شخص فرنچائزز کا نمائندہ بن کر بورڈ سے مذاکرات میں پیش پیش رہتا تھا اب سب اہم معلومات جاننے کے بعد پی ایس ایل کا پروجیکٹ ایگزیکٹیو بن کرفرنچائزز سے بات کرتا ہے، اس حوالے سے ’’کولنگ آف پیریڈ‘‘ کا بھی خیال نہ رکھا گیا اور فوراً ملازمت دے دی۔

ایک اور صاحب عمران احمد خان کو لگتا ہے کہ لیگ انہی کے دم سے چل رہی ہے، تمام ٹیم اونرز اپنے اپنے شعبوں کی اہم شخصیات ہیں، ان سے صرف چیئرمین یا سی ای او لیول کے افراد کو ہی بات کرنی چاہیے تھی مگر ایسا نہ ہوا، اعتماد کی فضا خراب ہوئی، فرنچائزز سے وعدہ کیا گیا تھا کہ جب لیگ مکمل طور پر پاکستان آئے گی تو خوب آمدنی ہو گی مگر یہ بھی نہ ہو سکا۔

اسی لیے فرنچائزز نے فنانشل ماڈل کی تبدیلی کا مطالبہ سامنے رکھا، اس بار معاملہ یوں مختلف رہا کہ تمام اونرز یکجا ہیں، درمیان میں ان کا اتحاد توڑنے کی بعض لوگوں نے کوششیں کیں مگر ناکام رہے، بورڈ کو پتا چل چکا تھا کہ معاملہ عدالت جانے والا ہے، اس لیے ملاقات پر آمادگی ظاہر کی مگر ساتھ پہلے اگلے ایڈیشن کی بینک گارنٹی جمع کرانے کی شرط عائد کر دی۔

عالمی وبا کے سبب سب کا کاروبار چوپٹ پڑا ہے،پانچواں ایڈیشن ابھی مکمل نہیں ہوا اس کے باوجود یہ رویہ فرنچائزز کیلیے ناقابل قبول تھا، اس لیے انھوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیا، یہ آخری کارڈ تھا جو انھوں نے شو کیا، اگر1،2 ٹیمیں ناراض ہوتیں تو شاید بورڈ انھیں ایونٹ سے ہی باہر کر دیتا مگر سب کو کیسے نکالے گا؟ حکام کو سوچنا چاہیے کہ کیوں تمام فرنچائزز ناراض ہوگئیں۔

کیوں میڈیا پارٹنر سے بھی قانونی جنگ چل رہی ہے، انٹرنیشنل میڈیا رائٹس کا معاہدہ بھی ختم کرنا پڑا، لیگ کے ساتھ اتنے زیادہ مسائل کیوں ہیں؟5سال کے اکاؤنٹس نکالیں پی سی بی کو توخوب فائدہ ہوا ہے تو اگر فرنچائزز کو بھی کچھ رقم مل جاتی تو کیا غلط ہوتا، اب بھی وقت ہے معاملے کو سلجھانے کی کوشش کریں پی ایس ایل میدانوں میں ہی ہوتی اچھی لگتی ہے، ایسا فنانشل ماڈل بنائیں جو سب کیلیے قابل قبول ہو، ورنہ ابھی آپ موجودہ اونرز سے ٹیمیں واپس لے بھی لیں تو نئے مالکان کا بھی1،2 سال میں جب جوش ٹھنڈا ہو گا تو وہ بھی نقصان کا رونا روئیں گے۔

لڑائی ہر مسئلے کا حل نہیں ہوتی آپ کو ڈپلومیسی سے کام لینا پڑتا ہے، جو طاقت ملی ہے اس کا مثبت استعمال کریں، برسوں بعد پاکستان نے ایک بڑا برانڈ بنایا اسے تباہ نہ کریں، قانونی جنگ بڑھی تو پانچویں ایڈیشن کے بقیہ میچز اور اگلے سال کی لیگ بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے جس کا سراسر پاکستان کو ہی نقصان ہوگا، مجھے یقین ہے کہ بورڈ نہ ہی فرنچائزز ایسا چاہیں گی لہذا افہام و تفہیم سے کام لے کر معاملات طے کریں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔