کورونا کی نئی صورت حال

ایڈیٹوریل  بدھ 18 نومبر 2020
گزشتہ10دن کے دوران پاکستان میں کورونا کیسز چار گنا بڑھ گئے ہیں، کورونا سے اموات بھی تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ فوٹو: فائل

گزشتہ10دن کے دوران پاکستان میں کورونا کیسز چار گنا بڑھ گئے ہیں، کورونا سے اموات بھی تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ فوٹو: فائل

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ قوم نے اگر پہلے کی طرح کورونا سے بچاؤکے ضابطہ کار پر عمل کیا تو لوگوں کے ساتھ ساتھ اپنے کاروبار اور معیشت کو بچانے میں کامیاب رہیں گے، اگر ایس او پیز پر عمل درآمد نہ کیا گیا تو صورت حال انتہائی تشویش ناک ہو سکتی ہے، ہم نے احتیاط نہ کی تو اسپتالوں پر دوبارہ دباؤ بڑھے گا، اگرمریضوں کی یہی تعداد برقرار رہی تو ملک میں پھر جون جیسی صورت حال پیدا ہو گی، جب اسپتال مریضوں سے بھر گئے تھے، موجودہ تناظر میں یہ صورت حال مزید بگڑ سکتی ہے کیونکہ کورونا اب زیادہ شدت اور تیزی سے پھیل رہا ہے۔ گلگت بلتستان میں انتخابات کے بعد کورونا تیزی سے پھیلا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ کورونا وباء کے تناظر میں ہم اپنا جلسہ منسوخ کر رہے ہیں، ملک بھر میں جلسے، جلوسوں پر پابندی ہو گی، فیکٹریوں، دکانوں اور کاروباری مراکز میں کورونا سے بچاؤکے ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے، اسکولوں میں کورونا کی صورت حال کا مزید جائزہ لے کر آیندہ ہفتے فیصلہ کیا جائے گا۔

گزشتہ روز کورونا سے متعلق قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ کے دوران وزیر اعظم نے کورونا کیسز میں تیزی سے اضافے کی جو صورت حال بیان کی ہے، وہ سنگین خطرات سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات کا تقاضا کرتی ہے، اصولاً گلگت بلتستان میں کورونا کے اچانک پھیلاؤ کا ڈیٹا عوام کے سامنے لایا جاتا تو اس سے آگہی مہم کو زبردست توانائی ملتی، لوگوں کو یقین ہو جاتا کہ صورت حال سنگین ہے، وزیراعظم کی معروضات کا سیاق و سباق داخلی اور خارجی حوالے  سے ہمیں اس بات پر غورکرنے کی دعوت دیتا ہے کہ کورونا کو ایک ناگزیر قومی جنگ سمجھنا چاہیے۔

تاہم کورونا کی دوسری لہرکے سامنے ہماری مضبوط مزاحمت کا بیانیہ کمزور نہیں پڑنا چاہیے، ہماری قوم نے استقامت کا تاریخ ساز مظاہرہ کیا، یہی وہ استقامت ، صبر وتحمل، مستقل مزاجی تھی جسے ماہرین نے ہرڈامیونیشن کا نام بھی دیا، جب کورونا کی وبا سے قومی زندگی مفلوج ہونے لگی تھی تو وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے غریب عوام کو مہنگائی ،بیروزگاری اور ذہنی دباؤ سے بچانے کے لیے امدادی پروگرام جاری کیے، مگر ان کی اجتماعی افادیت بے سود ثابت ہوئی۔

دیہاڑی دار مزدور امداد کے منتظر ہی رہے، توقع تھی کہ کورونا کے خلاف ملک گیر منصوبہ بندی کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ہزاروں اہلکار اور عملہ اپنے روایتی کاموں کی انجام دہی کے لیے میدان میں نکلے گا۔ ملیریا، ڈنگی اور پولیو کی طرح گھر گھر ،گلی گلی حفظان صحت کی خدمات میں مصروف ہو گا، وباؤں امراض سے بچاؤ کے لیے چھڑکاؤ ہو گا۔

نالے صاف ہوں گے، کچرا ٹھکانے لگے گا، ضلع سطح پر ہنگامی ڈسپنسریز قائم ہوںگی جن میں کورونا کے علاوہ دیگر بیماریوں کے علاج کے کیمپ لگیں گے، مگر کچھ نہیں ہوا، ان دنوں طبی شعبہ نے بھی شبہ ظاہر کیا تھا کہ کورونا کے وبا کے باعث دیگر امراض کو بھی کورونا کی فہرست میں شامل کیا جا رہا ہے جس سے تاثر یہ ملتا ہے کہ سارے امراض ختم ہو گئے اور صرف کورونا باقی ہے، کئی ایسے واقعات بھی ہوئے کہ جنھیں کورونا تھا وہ اسپتالوں سے چھپتے پھرتے تھے، صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج بعض ماہرین ڈاکٹروں اور مریضوں کے درمیان بے اعتمادی کی شکایت کرتے ہیں۔

لاز م ہے کہ دوسری لہر کا راستہ روکنے میں حکومت کی پالیسی واضح اور شفافیت پر مبنی ہو، اگر جلسے جلوس پر پابندی کا فیصلہ ہوا ہے تو انسانی صحت کے اس مسئلہ کی حساسیت کو سیاسی مسئلہ نہیں بننا چاہیے، اس فیصلے سے ایک ہفتہ پہلے پنجاب حکومت نے ریلی نکالی تھی۔

ادھر اپوزیشن کا جلسوں کا پروگرام ہے، لہٰذا دور اندیشی کا تقاضاہے کہ ارباب اختیار مصالحتی اور مفاہمانہ مکالمے کا درکھولیں، پی ڈی ایم سے روادارنہ رابطے کو ناگزیر سمجھتے ہوئے بریک تھروکرنا دانش مندی ہو گی، بہرحال قوم کو متحد ہو کرکورونا کا مقابلہ کرنا ہے، علاوہ ازیں حکومت اور صحت حکام کو کورونا کی ہولناک واپسی کے بنیادی اسباب کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے قوم کے صائب رسپانس کو بھی خوشدلی سے پیش نظر رکھنا چاہیے جس کے تعاون اور اشتراک عمل سے کورونا کو شکست دینا ممکن ہوا تھا،ادھر کورونا کی دوبارہ غضب ناکی پر ارباب اختیارکو قوم کو اعتماد میں لے کر کورونا سے نمٹنے کی ہمہ گیر آگہی مہم میں ہمدردانہ حکمت عملی کا وسیع ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ جنگ ہمیں کورونا کے مریضوں اور ان کے لواحقین پر سختی یا جبر سے زیادہ اشتراک وتعاون، رابطہ، مشترکہ مزاحمتی اسٹرٹیجی اور موثر حکمت عملی سے جاری رکھنی ہو گی، حقیقت یہ ہے کہ کورونا کی پہلی جنگ میں قوم ہی نے ایس او پیز پر صدق دل سے عمل کیا اور شدید غربت، بیروزگاری اور مہنگائی کے باوجود وبا سے نمٹنے میں ہر قسم کی قربانی دی اور ایثار کا مظاہرہ کیا، علاج کے معاملے میں بے شمار مصائب جھیلے جب کہ سہولتوں کے فقدان، ٹیسٹنگ کی محدودات اور اسپتالوں پر دباؤ کے پیش نظر کورونا میں مبتلا مریضوں نے صبر آزما دن گزارے، ہزاروں گھرانے دو وقت کی روٹی سے محروم ہوئے۔

قیمتی جانیں گئیں، لیکن قوم کو معلوم نہیں ہو سکا کہ کورونا سے متاثرین کے لیے حکومتی ریلیف اور فنڈز کی فراہمی کا میکنزم کتنی وسعت رکھتا تھا، صوبوں کے غریب عوام کوکورونا کے علاج، قرنطینہ اور اس سے بحالی میں اتھارٹیز، ٹاسک فورسز اور وزارت صحت کی طرف سے کیا امداد ملی۔ وزیراعظم کاکہنا ہے کہ پاکستان پر اﷲ کا خاص کرم رہا جب کہ  بھارت اور ایران میں حالات زیادہ خراب ہیں، بھارت میں لاک ڈاؤن کے باعث معاشی صورت حال انتہائی خراب ہو گئی۔

گزشتہ10دن کے دوران پاکستان میں کورونا کیسز چار گنا بڑھ گئے ہیں، کورونا سے اموات بھی تیزی سے بڑھ رہی ہیں، اموات کی شرح ایک دن میں چار، پانچ سے بڑھ کر 25 ہو  گئی ہے۔ اسکولوں میں سردیوں کی چھٹیاں زیادہ اور گرمیوں کی چھٹیاں کم بھی کی جا سکتی ہیں۔ ٹائیگر فورس موبائل فون کے ذریعے ایس او پیزکی خلاف ورزی کی نشاندہی اور ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بنانے میں تعاون کرے گی۔پہلے کی طرح اب بھی ہم نے ایس او پیز پر عمل کیا تو لوگوں کے ساتھ ساتھ اپنے کاروبار اور معیشت کو بھی بچا لیں گے۔

این سی سی کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیاہے کہ وزیر اعظم نے رشکئی میں ہونے والا اپنا اجتماع منسوخ کر دیا ہے، بڑے اجتماعات اور 300 افراد سے زیادہ کے آؤٹ ڈور تمام اجتماعات پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ شادی کے لیے ان ڈور تقریبات کی اجازت نہیں ہو گی، صرف 300 تک مہمانوں کے ساتھ آؤٹ ڈور شادی کی تقریب کی اجازت ہو گی۔

ریسٹورنٹس میں ان ڈور ڈائننگ کی اجازت کا ایک ہفتے بعد دوبارہ جائزہ لیا جائے گا، عوام کے آؤٹ ڈور ڈائننگ یا کھانا گھر لے جانے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ علاوہ ازیں وزیر اعظم نے کورونا ریلیف فنڈ کی نگرانی کے لیے قائم پالیسی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کی جس میں فنڈ کے استعمال کی تفصیلات کا جائزہ لیا گیا۔کورونا ریلیف فنڈ میں اندرون و بیرون ملک سے مخیر حضرات کی جانب سے 4.8 ارب روپے عطیہ کیے گئے ہیں جن میں سے 1.08 ارب روپے بیرون ملک جب کہ  3.8 ارب روپے اندرون ملک سے عطیہ کیے گئے۔

ماضی میں مخیر حضرات کے فنڈز استعمال کرنے میں کم شفافیت تھی تاہم وزیراعظم کورونا ریلیف فنڈ نے شفافیت کی نئی مثال قائم کی ہے۔ عمران خان نے کہا کہ پاکستانی سب سے زیادہ خیرات دینے والی قوم ہے، میں انھیں یقین دلاتا ہوں کہ ہم تمام مخیر حضرات کی جانب سے دیے گئے گئے یہ فنڈز شفاف طریقہ سے استعمال کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کی زیر صدارت بین الصوبائی وزرائے تعلیم کا اجلاس ہوا۔ تعلیمی اداروں کی بندش سے متعلق فیصلہ ایک ہفتہ کے لیے موخر کر دیا گیا۔

شفقت محمود نے کہا صوبائی وزرائے تعلیم کا دوبارہ اجلاس 23نومبر کو ہو گا جس میں سردیوں کی تعطیلات اور اسکولوں کی بندش کے حوالے سے حتمی فیصلہ ہو گا۔ بچوں اور اساتذہ کی جان سب سے زیادہ عزیز ہے۔ سیکریٹری نیشنل ہیلتھ سروس تعلیمی اداروں کو فوری بند کر کے آن لائن سسٹم کے تحت تعلیم جاری رکھنے کی تجویز دی۔ صوبائی وزرائے تعلیم نے تعلیمی ادارے فوری بند کرنے کی مخالفت کی۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا کورونا ٹیسٹ مثبت آ گیا ہے۔ مراد علی شاہ نے بتایا کہ ڈاکٹروں کی ہدایت پر میں نے خود کو آئسولیٹ کیا ہے۔ طبیعت کافی بہتر ہے۔ سندھ کابینہ کے ایک وزیراور دو رکن سندھ اسمبلی کے بھی کورونا ٹیسٹ مثبت آئے ہیں۔ قومی ادارہ برائے امراض قلب میں 3 ڈاکٹرز اور عملے میں کورونا مثبت آنے کے بعد تمام سرجریز ایک ہفتے کے لیے ملتوی کر دی گئیں۔

یہ حقیقت ہے کہ کورونا کی دوبارہ واپسی ایک آزمائش ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ حکمراں اور عوام اس میں کیا صائب فیصلہ اور طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔