پاکستان میں کورونا وائرس کے علاج کے لیے دوا کی تیاری اہم مرحلے میں داخل

اسٹاف رپورٹر  ہفتہ 21 نومبر 2020
 ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی کی نگرانی میں ڈاکٹر شوکت علی اور ان کی ٹیم نے (C-IVIG) پروجیکٹ پر کام کا آغاز کیا۔(فوٹو، اسٹاف)

ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی کی نگرانی میں ڈاکٹر شوکت علی اور ان کی ٹیم نے (C-IVIG) پروجیکٹ پر کام کا آغاز کیا۔(فوٹو، اسٹاف)

 کراچی: پاکستان میں کورونا وائرس کے علاج کے لیے دوا کی تیاری اہم مرحلے میں داخل ہوگئی۔

ترجمان ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے مطابق کلینیکل ٹرائل میں شامل شدید بیمار مریضوں میں صحت یابی کی شرح سو فی صد رہی جب کہ آئی سی یو میں داخل انتہائی بیمار مریضوں میں صحت یابی کی شرح  60 فی صد سے زائد رہی۔ صحت یاب ہونے والے 50 فیصد مریضوں کو محض 5 روز میں اسپتال سے فارغ کردیا جاتا ہے۔

یاد رہے ڈاؤ یونیورسٹی میں (C-IVIG) کے پری کلینکل ٹرائل اپریل کے اوائل میں شروع ہوئے تھے اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان ڈریپ نے فوری طور پر اس کے کلینیکل ٹرائل کی منظوری دے دی تھی۔ (C-IVIG) کی تیاری کے پروجیکٹ کے لیے بنیادی فنڈنگ ڈاؤ یونیورسٹی نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اشتراک سے کی جبکہ قیمتی انسانی جانوں کے بچاؤ میں ڈریپ کا کردار قابلِ ستائش رہا کہ اس کی جانب سے اجازت کے بعد کورونا میں مبتلا افراد کی جانیں بچانے کے لیے موثر اقدامات کیے جاسکے۔

ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی کی نگرانی میں ڈاکٹر شوکت علی اور ان کی ٹیم نے (C-IVIG) پروجیکٹ پر کام کا آغاز کیا۔

ڈاکٹر شوکت علی نے اس ضمن میں میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ (C-IVIG) (انجیکشن) کورونا سے صحت یاب مریضوں کے پلازما سے حاصل شدہ اینٹی باڈیز کو علیحدہ کرکے تیار کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے مریضوں میں (C-IVIG) کا موثر ہونا انتہائی اہم کام یابی ہے۔ جس کے لئے کورونا کے صحت یاب مریضوں کی جانب سے پلازما کا عطیہ کرنے کی درخواست ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس ضمن میں سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی نے بھی خصوصی طور پر اجازت دے دی تھی تاہم جس طرح کورونا کی لہر تیز ہو رہی ہے، مطلوبہ مقدار میں دوا کی تیاری ممکن نہیں ہو پائے گی کیونکہ پلازما عطیہ کرنے کا رحجان کم ہے۔

ڈاکٹر شوکت علی نے بتایا کہ کلینکل ٹرائل میں شریک مریضوں کی عمر اوسطَ ساٹھ برس تھی اور تقریباَ تمام شوگر، بلڈ پریشر اور دل کے امراض میں مبتلا تھے جس کی وجہ سے ان کی جانوں کو زیادہ خطرہ لاحق تھا۔ اس طرح کے مریضوں میں (C-IVIG) کا موثر ہونا انتہائی اہم کامیابی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ڈاؤ یونیورسٹی اسپتال میں C-IVIG کے کلینکل ٹرائل جون کے اوائل میں شروع ہوئے تاہم کورونا کی دوسری لہر میں تیزی کے بعد کلینکل ٹرائل میں تیزی آگئی۔

دوا پر تحقیق کرنے والی ٹیم میں  منیب الدین، میر راشد علی، فاطمہ انجم، ڈاکٹر شیخ محمد مھیمن، ڈاکٹر فرح فرحان، عائشہ علی، مجتبی خان، علیشا شالم، تحریم مشتاق، فیصل شہاب، عبد الصمد خان اور اقرا احمد شامل تھے، جن کی مدد سے بنیادی کام اور پری کلینکل ٹرائل ممکن ہوئے جبکہ کلینکل ٹرائل ڈاؤ یونیورسٹی میں ڈاکٹر شوبھا لکشمی اور سندھ انفیکشئیس ڈیزیز اسپتال میں ڈاکٹر منیبہ سید کی نگرانی میں مکمل کئے جارہے ہیں۔

کورونا وائرس کیوں جان لیوا ثابت ہوتا ہے؟

ڈاکٹر شوکت علی نے بتایا کہ یوں تو کورونا کی بیماری کے بارے میں تحقیق تاحال جاری ہے لیکن کورونا عموماَ تین وجوہات کے باعث جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ کورونا انسانی پھیپھڑوں پر حملہ آور ہوکر انہیں نقصان پہنچاتاہے، دوسری وجہ یہ وائرس متاثرہ شخص کے امیون سسٹم (انسانی مدافعتی نظام) کو بے قابو یا کنٹرول سے باہر کر دیتاہے، جسے سائیٹو کائن اسٹروم (CYTOKINE STORM) کا نام دیا گیا ہے۔  تیسری وجہ یہ ہے کہ شدید بیمار افراد میں ثانوی بیکیٹریائی انفیکشن (Secondary Bacterial Infection) کی وجہ سے سیپسز (Sepsis) پورے جسم میں پھیل جاتا ہے جو جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔

یہ خبر بھی پڑھیے: پاکستان نے پھیپھڑوں میں کورونا وائرس کی تشخیص کا جدید آلہ تیار کرلیا

کورونا سے صحت یاب افراد کے پلازما سے حاصل ہونے والی اینٹی باڈیز جنہیں سی آئی وی آئی جی کا نام دیا گیا ہے  جو جسم میں داخل ہو کر تباہی پھیلانے والے وائرس کو نیوٹرلائز (غیر موثر) کردیتی ہیں۔

انسانی امیون سسٹم کو بے قابو ہونے سے روک کر اسے باقاعدہ کر دیتا ہے جب کہ خاص طریقے سے حاصل کئے گئے شفاف پلازما میں موجو ددیگر اینٹی باڈیز ثانوی بیکڑیل انفیکشن کو روکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔