کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 16 مئ 2021
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے فوٹو : فائل

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے فوٹو : فائل

غزل
میں تیرے ہجر میں یوں بھی دہائی دیتا نہیں
زمیں کا شور فلک پر سنائی دیتا نہیں
عجب تلاش کے سرکل میں گھومتے ہوئے لوگ
کسی کے پاؤں کو رستہ سجھائی دیتا نہیں
ہمیں جلا کہ ضرورت ہے روشنی کی تجھے
انھیں دکھا کہ جنھیں کچھ دکھائی دیتا نہیں
زمیں کی سالگرہ پر میں خاک بانٹتا ہوں
کسی کو ورنہ میں اپنی کمائی دیتا نہیں
سمے نچوڑ کہ دو چار پل ملیں تجھ سے
گھڑی کا ہجر تو اتنی رسائی دیتا نہیں
پرانی جڑ سے نکلتا ہے شاخِ نو کا وجود
تبھی تو میر کا حلقہ رہائی دیتا نہیں
یہ کس وصال کی زنجیر سے بندھی ہوئی ہے
ہماری ناؤ کو دریا رہائی دیتا نہیں
(منیر جعفری۔ شاہ پور)

۔۔۔
غزل
اگر تمہاری محبت میں کچھ نہیں رکھا
ہزار میل مسافت میں کچھ نہیں رکھا
طوافِ شمع میں خود راکھ ہو گیا آخر
جو کہہ رہا تھا کہ صورت میں کچھ نہیں رکھا
یقیں کریں کہ محبت ہے دل کا سرمایہ
یقیں کریں کہ کدورت میں کچھ نہیں رکھا
ترے خلوص کی آواز پر چلی آئی
تری زباں کی فصاحت میں کچھ نہیں رکھا
یہ تنگ دل نہیں مانیں گے پر حقیقت ہے
اگر نہ ظرف ہو دولت میں کچھ نہیں رکھا
جو عنبرین نہ بے ساختہ کریں اظہار
یہاں روایت و جدت میں کچھ نہیں رکھا
(عنبرین خان۔ لاہور)

۔۔۔
غزل
کانپتے ہونٹ ہیں آواز میں دھیما پن ہے
کتنا دشوار کنیزوں کاکنوارا پن ہے
یہ کسی ایک کہانی سے نہیں اَخذ شدہ
جھوٹ تاریخ کا مجموعی کمینہ پن ہے
اشک ہیں نوری خزینوں کے نگینے جیسے
تیرے غمگین کی آنکھوں میں اچھوتا پن ہے
معذرت آپ کی آواز نہیں سُن پایا
میرے ہمراہ کئی سال سے بہرا پن ہے
ہم خد و خال سے اندازہ لگا لیتے ہیں
واقعی دشت ہے یا ذہن کا سُوکھا پن ہے
جلتے خیموں کا دھواں ساتھ لیے پھرتا ہوں
غم کا احساس مری ذات کا کڑوا پن ہے
خوبصورت ہے مگر شک میں گھری ہے ساجدؔ
جیسے دنیا کسی مٹیار کا سُونا پن ہے
(لطیف ساجد۔حافظ آباد)

۔۔۔
غزل
پیڑوں کی بات تھی نہ ہی چھاؤں کی بات تھی
میرا سفر کٹا یہ عطاؤں کی بات تھی
وہ چل دیا تو ہونٹ سلے کے سلے رہے
وہ شخص لوٹ آتا، صداؤں کی بات تھی
دل میں ہزاروں درد، مگرمسکرا اٹھے
سب کچھ چھپا لیا، یہ وفاؤں کی بات تھی
ہر آگ بن گئی تھی مرے سر کا سائباں
ماں کے لبوں سے نکلی دعاؤں کی بات تھی
یہ جسم تھا یا ٹوٹا ہوا مقبرہ ظہیرؔ
جلتے رہے چراغ، ہواؤں کی بات تھی
(ظہیر عباس بھٹی۔ ملتان)

۔۔۔
غزل
فصیلِ جُہل میں یوں فکر کا روزن لگاتے ہیں
ہتھیلی کی لکیروں پر کوئی قدغن لگاتے ہیں
ہمیں مذہب نہیں تہوار کے پیغام سے مطلب
محبت بانٹتے ہیں جسم پر روغن لگاتے ہیں
کوئی ان کے مسائل حل کرے، جو لوگ کھانے پر
اکیلے ہیں پہ دو افراد کے برتن لگاتے ہیں
یونہی اولاد کی اولاد کو سینے لگا کر ہم
بڑھاپے کی زمینوں میں کئی بچپن لگاتے ہیں
مری میت پہ ایسی طرز سے شکوے کیے اس نے
کہ جیسے بد ظنوں پر تہمتیں بد ظن لگاتے ہیں
ہم ایسے ہجرتی لوگوں کوزرخیزی سے کیا مطلب
علاقہ جانچ کر ہم کب کہیں مسکن لگاتے ہیں
کچھ ایسی طرز سے لڑتے ہیں جنگِ نام و ننگ اے گُلؔ
گلے ہم کو ہماری جان کے دشمن لگاتے ہیں
(گل جہان۔ جوہر آباد)

۔۔۔
غزل
اس اداسی کو نکلنے دے پریشان نہ ہو
یادِ ماضی کے لیے خانۂ زندان نہ ہو
مشکلوں سے مرا بچپن کا ہے یارانہ سا
مجھ کو بھاتا ہے وہی کام جو آسان نہ ہو
مفلسی یوں بھی نہ ہو یار کے بھیجے ہوئے پھول
اپنے کمرے میں سجانے کو بھی گلدان نہ ہو
یہ دعا ہے کہ کبھی میرا خدا مجھ کو نہ دے
آنکھ ایسی جو ترے خواب پہ قربان نہ ہو
دیکھ کچھ پھول خزاؤں میں بھی کھل جاتے ہیں
میں وہی ماریہ مہرین ہوں حیران نہ ہو
(ماریہ مہرین ۔ سرگودھا)

۔۔۔
غزل
زندہ رہنے کے لیے یہ سلسلہ رکھا گیا
آدمی کا آدمی سے فاصلہ رکھا گیا
کون دے کتنا ثمر یہ بھی نہیں دیکھا گیا
جب درختوں پہ نمو کا مرحلہ رکھا گیا
تو رہا تو زندگی بھی چل رہی تھی ساتھ ساتھ
بعد تیرے پھر کہاں یہ حوصلہ رکھا گیا
اس لیے بھی گر گئی دیوار سیدھے ہاتھ کی
رہزنوں کا میرے گھر سے راستہ رکھا گیا
میرے مولا کی شفاعت کھول دے گی در سبھی
خلد کا آسان کتنا داخلہ رکھا گیا
(احسان علی احسان ۔شاہ کوٹ)

۔۔۔
غزل
تمام سلسلے چاہت کے انتہا کے کروں
بدن کو بھینچ لوں سینے سے دل لگا کے کروں
یہ اور بات کہ اب چھپ گیا ہے پردوں میں
جو چاہتا تھا کہ اظہار کھل کھلا کے کروں
میں چاہتا ہوں کہ اب آر پار ہو جائے
سو بات پیار کی کیونکر گھما پھرا کے کروں
کچھ اس طرح سے مٹاؤں اداس دل کی پیاس
لبوں کے چشمے سے سیراب لب لگا کے کروں
بدن کو حسن کی بہتی ندی میں بہنے دوں
میں پیار بیچ کے ساری حدیں مٹا کے کروں
ابل رہا ہے جو سینے میں ایک لاوا ولیؔ
اسی طرح کی کسی آگ سے ملا کے کروں
(شاہ روم خان ولی۔ مردان)

۔۔۔
غزل
بڑھ گئی حد سے آئنوں کی گھٹن
عکس سہنے لگے دلوں کی گھٹن
سرخ آنکھیں دلیل تھیں اس کی
گفتگو میں تھی رتجگوں کی گھٹن
منزلیں پاؤں پڑنے لگ گئی تھیں
ہم نے روکی تھی آبلوں کی گھٹن
قابل ِدید تھی وہ گھبراہٹ
کھا گئے دانت ناخنوں کی گھٹن
رنگ گرد و غبار میں لتھڑا
خوشبوؤں میں رہی گلوں کی گھٹن
معجزے پھر نہ ہو سکیں گے ورید ؔ
پھر نہ ہو گی یوں اس جنوں کی گھٹن
(وریداللہ ورید۔ نور پور تھل)

۔۔۔
غزل
روح آزاد ہوئی اور قفس ٹوٹ گیا
مالکِ کُن ترے زندان کا رس ٹوٹ گیا
ان کی شہوت نہ مٹی،اپنی محبت نہ مٹی
مجھ سیہ بخت پہ کُل زورِ ہوس ٹوٹ گیا
دشت پاتے ہی ترے لمس کو آباد ہوئے
درد ہوتے ہی تری زلف سے مَس،ٹوٹ گیا
پھر اسی راہ کو تکتے ہوئے ہاری آنکھیں
پھر اسی خواب میں اک اور برس ٹوٹ گیا
دوستا! آبِ مقدس کے دھلے تم بھی نہیں
اس کا دل کانچ کا تھوڑی تھا کہ بس ٹوٹ گیا
(داؤد سیدؔ۔ تونسہ شریف)

۔۔۔
غزل
مکاں کو چھوڑ کے جب لامکان میں آئے
ہمارے بھید کے عُنصر جہان میں آئے
ہوا کے ساتھ بہاؤ کا یہ نتیجہ ہوا
کئی چراغ اندھیروں کی کان میں آئے
سمندروں کے لبوں پر تھی ایک خشک سی تہ
جب ایک پیاس کے معنی بیان میں آئے
ہم ایسے لوگ غریبی میں شاہ ہیں اے ابیض
ہمیں غموں کے ذخیرے لگان میں آئے
(عامرابیضؔ ۔دیپالپور، اوکاڑہ)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔