معلّم اعظم ﷺ کی انقلابی جدوجہد

ڈاکٹر عامر عبداﷲ محمدی  جمعـء 21 اکتوبر 2022
آپؐ  کی ساری زندگی اسلام کے غلبے و فروغ کی کوششوں سے لبریز ہے

آپؐ  کی ساری زندگی اسلام کے غلبے و فروغ کی کوششوں سے لبریز ہے

امام الاولین و آخرین، سیّد الانبیاء و المرسلین جناب رسول کریم ﷺ کو بنی نوع انسان کی رشد و ہدایت کے لیے ایک ایسے دور میں مبعوث فرمایا گیا جب انسانیت کی قدریں بدل چکی تھیں، لوگوں میں اچھائی برائی کی تمیز مٹتی جارہی تھی۔

لوگ اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت سے یکسر بیگانہ و لاتعلق ہوچکے تھے۔ دنیا میں مالک ارض و سماوات کے سب سے پہلے قائم ہونے والے گھر خانہ خدا میں تین سو ساٹھ خود ساختہ اصنام کی پرستش ہورہی تھی۔ فحاشی و بے حیائی نے ثقافت اور ادب کا مقام حاصل کرلیا تھا۔

خانۂ خدا کا برہنہ طواف کیا جاتا۔ جو شخص برسرِ محفل فحش قصے اور واقعات جس قدر بے باکی سے بیان کرتا وہ قادر الکلام سمجھا جاتا۔ لوگ جہالت اور گم راہی کی آخری حدود کو پار کرکے انسان تو کُجا جانور بھی نہ رہے تھے کہ اپنی ہی بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا ملّی فریضہ ٹھہرا تھا۔ مقتدر طبقہ ہی کم زوروں کا قانون ساز تھا۔

اخلاقی اقدار، ضمیر کی آزادی، عدل و انصاف، اخوت و مساوات وغیرہ ناصرف یہ کہ مفقود تھے بل کہ اُن کو حاصل کرنے کا کوئی شعور بھی بیدار نہ تھا۔ انسان مستقل ایک فریب کا شکار تھا۔ انسان کُش کھوکھلے نظام کی پشت پر جابر حکام اور اُن کے گماشتے مسلط تھے۔

قومی وسائل اور قومی دولت اس چھوٹے سے گروہ کے لیے مخصوص تھی جو فسق و فجور اور لہو و لعب میں زندگی گزارتے تھے۔ حق و ناحق کو وہ لوگ نہ جانتے تھے اور نہ جاننے کے آرزو مند تھے۔ وہ زندگی گزارنے کے قانون تک سے بے بہرہ تھے گویا جنگل کا قانون تھا۔

جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے مصداق صرف تلوار ہی ہر مسئلے کا حل تھی۔ قومی یکجہتی کے بہ جائے قبائلی اور گروہی قوت تھی جو انتقام کے چکر میں کٹتی، پھٹتی اور لٹتی جارہی تھی اور انسانی خون سے زیادہ اُن کے بازارِ تہذیب میں کوئی شے ارزاں نہ تھی۔

ایسے میں ضرورت تھی ایک ایسی تہذیب کی جو انسان کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلا کر ضمیر کی آزادی بخشے اور حق و انصاف کی راہ دکھائے۔ ضرورت تھی ایسے نظامِ زندگی کی جس میں لوگوں کے معاملاتِ باہمی میں عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا ضروری ہو۔ جو مالک و مملوک اور آجر و اجیر کے تعلقات کو نظم و ضبط کا پابند بنا سکے یہاں تک کہ حق دار کو اپنا حق لینے کے لیے کسی کی خوشامد نہ کرنی پڑے۔

ضرورت تھی ایسے معاشرے کی جس میں عزت و شرافت کا معیار، دولت کے بہ جائے اخلاقی اقدار اور کردار کی بلندی ہو۔ ایسے دور میں اﷲ تعالیٰ نے انسانیت پر احسان عظیم کرتے ہوئے سرورِ گرامی ﷺ کو مبعوث فرمایا کہ دعوت دیجیے اس انسانی انبوہ کو جو جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہے اور اپنے آپ کو ایسے عذاب میں مبتلا کر رہا ہے جو اس کی دنیا و آخرت کو بگاڑ کر خسارے کی طرف لے جارہے ہیں۔

یہ ایسی بھلائی کی طرف دعوت تھی جو انسان کو انسان کی بندگی سے نجات دلائے، جو انسانی برادری کے قیام اور اس کی تاسیس میں ممد و معاون ہو، جس کا رنگ، نسل اور نسبتی تفاخر میں کوئی دخل نہ ہو، جس میں انسان کی فضیلت اور عز و شرف کا معیار صرف تقویٰ ہو۔ اس دعوت کا کلمہ و نعرہ ’’لاالہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ تھا۔

اﷲ تعالیٰ کی بادشاہت کا اظہار اور رؤسائے عرب کی مسندوں سے بغاوت کا اعلان تھا۔ اس اعلان نے ناصرف غرب بلکہ تمام عالم میں کھلبلی مچادی، کیوں کہ یہ اعلان محض خانہ خدا میں پنج وقتہ نمازوں یا تسبیحات و وظیفوں تک محدود نہ تھا، اس کلمے کی شدید مخالفت کی وجہ یہی تھی کہ اُس نے سارے نظام ہائے حیات فرسودہ کو بہ یک جنبش قلم مسترد کردیا تھا، ورنہ آپؐ نے تو برسر ِعام فرمایا تھا کہ اے قوم قریش! کلمۂ توحید کا اقرار کرلو‘ فلاح یاب ہوجاؤ گے اور عرب و عجم کے مالک بنادیے جاؤ گے۔

لیکن وہ جانتے تھے کہ اس کلمے پر ایمان لانے کے بعد زندگی کے تمام شعبہ جات کو اسلام کے اصولوں کا پابند کرنا پڑے گا، پھر اپنی مرضی کے قانون کے بہ جائے اﷲ تعالیٰ کے قانون پر عمل پیرا ہونا پڑے گا۔

آپؐ کی دشمنی میں پیش پیش مکہ کے بااقتدار اور سن رسیدہ لوگ ہی تھے کہ انہیں اپنی بالادستی کے خاتمے کا ڈر تھا، اسی باعث ولید بن مغیرہ جیسے لوگوں نے کہا تھا کہ یہ کیا بات ہوئی کہ ہمیں چھوڑ کر محمد ﷺ پر قرآن اُتارا جارہا ہے۔

ان لوگوں کا سب سے بڑا اعتراض تو یہی تھا کہ اگر نبی بنانا ہی تھا تو کسی اونچے گھرانے سے بنایا جاتا، اس دُرِیتیم کو کس طرح پیغام بر بنایا جاسکتا تھا۔ حالاں کہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک کسی کی بڑائی اونچے گھر یا خاندانی نسبتوں کے باعث نہیں اس کے کردار کی بنیاد پر ہوتی ہے پھر اﷲ تو مختارِکُل جو چاہتا ہے کرتا ہے اور بالکل ٹھیک کرتا ہے۔

نبی کریمؐ مکہ میں پیدا ہوئے وہیں پلے بڑھے، آپؐ کی اعلان نبوت سے قبل کی چالیس سالہ زندگی سے مکہ کا ہر شخص واقف تھا، آپؐ نے نہ کسی درس گاہ سے تعلیم حاصل کی، نہ کوئی ایسی صحبت ملی کہ جس کی وجہ سے آپؐ کو وہ علوم حاصل ہوتے جس کے چشمے یکایک اعلان نبوت کے بعد آپؐ کی زبانِ مبارک سے جاری ہوئے، مشرکوں کے لیے حیران کن تھا آپؐ شرک سے دور رہے، آپؐ کی چالیس سالہ زندگی کو دیکھ کر قریش کو اس قدر علم تو ضرور ہوچکا تھا کہ آپؐ کی طبیعت جھوٹ، فریب، عیاری، بدعہدی اور اس قبیل کی تمام گراوٹوں سے پاک تھی اسی لیے تو بڑے چھوٹے سبھی آپؐ کو صادق و امین کہہ کر پکارتے تھے۔

اعلان نبوت سے پانچ سال قبل جب خانہ کعبہ کی تعمیر نو ہوئی تو حجر اسود کے نصب کرنے پر ہونے والی متوقع جنگ و خون ریزی کا خطرہ یوں ٹلا کہ کل صبح سے پہلے جو حرم میں آجائے وہی اس کا فیصلہ کرے گا، اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کو اس دن سب سے پہلے حرم پہنچایا۔ چناں چہ سب نے بڑی خوشی سے آپؐ کا حکم مان کر آپؐ کے فیصلے کو بالاتفاق قبول کرنے کا اعلان کیا اور آپؐ نے نہایت عمدہ طریق پر اشتراکِ عمل کے تحت فیصلے پر عمل کیا۔

اس طرح آپؐ اعلان نبوت سے قبل ہی اﷲ تعالیٰ کے فضل سے پورے قریش سے سیادت کی گواہی حاصل کرچکے تھے۔ آپؐ کی پوری زندگی بہ ذاتِ خود ایک عظیم معجزہ ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا کا کوئی پیغمبر یا بانی مذہب ایسا نہیں ہے کہ جس کی اخلاقی زندگی کا ہر پہلو ہمارے سامنے اس طرح بے نقاب ہو کہ گویا وہ خود ہمارے سامنے موجود ہے۔

صرف معلّم اعظمؐ اور حُسنِ انسانیتؐ کی حیاتِ طیبہ ہی وہ خاص انفرادیت رکھتی ہے کہ اس کا ہر ایک پہلو دنیا میں محفوظ اور اپنی اصل میں سب کے سامنے ہے۔

آپؐ کا خود یہ حکم تھا کہ میرے ہر قول اور عمل کو ایک سے دوسرے تک پہنچاؤ، محرمانِ راز کو اجازت تھی کہ جو مجھے خلوت میں کرتے دیکھو اس کو جلوت میں برملا بیان کردو، جو حجرے میں کہتے سنو اُس کو چھتوں پر چڑھ کر پکارو، حاضر، غائب تک میری بات پہنچا دیا کرے۔

اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کو باطنی خوبیوں کے ساتھ ظاہری حسن و جمال سے بھی خوب نوازا تھا یہی نہیں بلکہ سیدنا آدمؑ سے لے کر سیدنا عیسیٰ ابن مریمؑ تک تمام انبیا و رُسل کی تمام تر ظاہری و باطنی خوبیاں اکیلے جناب رسول کریم ﷺ میں تھیں۔

کہنے والوں نے کہا ہے کہ حسن یوسفؑ سے متاثر ہو کر ذلیخا کی سہیلیوں نے اپنی اُنگلیاں چبا ڈالیں لیکن میرے مصطفیؐ کو جنہوں نے دیکھا، پہلے ایمان لائے پھر گلے بھی کٹوا ڈالے لیکن آپؐ کے دامنِ اقدس کو چھوڑنا گوارا نہ کیا۔

احادیث و سیئر کی کتب میں متعدد اصحابؓ نے آپؐ کے چہرۂ پُرانوار کی خوب صورتی کو بیان کیا ہے لیکن باعثِ حیرت یہ امر ہے کہ کوئی ایک ہی راوی آپؐ کے چہرے کے خدوخال اور حسن و جاذبیت کی تمام تر خوبیوں روایت نہ کرسکا اور اس کی وجہ یہ بیان ہوئی ہے کہ آپؐ کے چہرۂ مبارک پر وقار و دبدبہ اس قدر تھا کہ کوئی ٹکٹی باندھ کر کیسے دیکھتا اور ویسے بھی ادب کا تقاضا تھا کہ جھکی جھکی نظروں ہی سے شوقِ دیدار پورا کرلیا جائے۔

سیدنا جابرؓ کہتے ہیں: ’’آپؐ کا چہرہ آفتاب و مہتاب جیسا تھا۔‘‘ (مسلم)

خود روح الامین جناب جبرئیلؑ نے فرمایا: ’’میں تمام مشارق و مغارب میں پھرا ہوا لیکن میں نے نبی اکرم ﷺ سے زیادہ کوئی شخص افضل و حسین و جمیل نہیں دیکھا۔‘‘

دربارِ نبوت ﷺ کے عظیم نعت خواں سیدنا حسان بن ثابتؓ نے بجا فرمایا ہے:

واحسن منک لم ترقط عینی

واجمل منک لم تلا النساء

خُلقت مبرء من کل عیب

کانک خلقت کما تشاء

مفہوم: ’’آپؐ سا حسین کسی آنکھ نے نہیں دیکھا اور آپؐ کا سا جمیل کسی ماں نے نہیں جنا۔ آپؐ ہر عیب سے اس طرح پاک صاف پیدا کیے گئے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے گویا آپؐ خالق سے کہتے چلے گئے کہ مجھے ایسا بناتا جا اور وہ بناتا چلا گیا۔‘‘

اس دور فتنہ میں اشد ضرورت اس بات کی ہے کہ قوم کی رُشد و ہدایت کے لیے نبی کریمؐ کے پورے اسوۂ حسنہ کو بیان کیا جائے تاکہ آج کا مسلمان سر سے پیر تک، ظاہر سے باطن تک، گھر سے مسجد اور تمام کاروبار ہائے زندگی تک مکمل مسلمان بن کر ’’اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ‘‘ کی عملی تصویر بن سکے۔

عام طور پر نبی آخر الزماںؐ کی سیرت بیان کرتے ہوئے محض آپؐ کے حسن و جمال کا تذکرہ کافی سمجھ لیا گیا ہے جو کرنا بھی چاہیے لیکن اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ محمد رسول اﷲ ﷺ کی حیثیت سے آپؐ نے دنیا کو امن و آشتی کا جو چلن دیا، اپنے عمل سے انسانی حقوق کا جو چارٹر عطا کیا اور اپنی 23 سالہ نبوی کی زندگی میں جو اُسوۂ حسنہ چھوڑا، اکثر اُسے اس طرح بیان نہیں کیا جاتا کہ وہ موجودہ حالات میں ہمارے لیے انقلاب آفریں ثابت ہو، یہی وجہ ہے کہ اس قدر عظیم الشان پیغمبرؐ کے عظیم اُمتی ہونے کے باوجود ہم احساس کم تری میں مبتلا ہیں، تمدن، وضع قطع اور معاشرتی رکھ رکھاؤ سے ہم کسی بھی طرح محمدی معلوم نہیں ہوتے۔

ہمیں جان لینا چاہیے کہ محض عشق مصطفیؐ کے زبانی دعوے کرلینے سے ہمارا ایمان کامل نہیں ہوتا کہ اطاعت و تابعداری کے بغیر محبت معتبر نہیں کہلائے گی۔ نبی کریم ﷺ کی ساری زندگی اسلام کے غلبے و فروغ کی کوششوں سے عبارت ہے یہی وہ مقصد اولین تھا کہ جس کی تکمیل کے لیے آپؐ کو مبعوث فرمایا گیا: ’’اﷲ وہ ذات ہے کہ جس نے اپنے رسول (ﷺ) کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ وہ اُسے تمام ادیان پر ظاہر و غالب کردے۔‘‘ (القرآن)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔