ہایئر ایجوکیشن کمیشن اور وومن لیڈر شپ پروگرام

ڈاکٹر مسرت امین  جمعـء 24 مارچ 2023

پاکستان کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے لیکن ملکی ترقی اور لیڈر شپ کے شعبوں میں خواتین کی نمایندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔

پاکستان میں صرف 20 فیصد خواتین ہی ملکی ورک فورس کا حصہ ہیں جب کہ اعلیٰ عہدوں اور فیصلہ سازی میں صرف 4 اعشاریہ 6 فیصد خواتین کی براہ راست شمولیت ہے۔ یہ بھی وہ خواتین ہیں جنہوں نے اپنے زور بازو پر اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اپنے آپ کو منوایا ہے۔

موجودہ صدی انسانی تاریخ کی سب سے تیز رفتار ترین صدی ہے جس میں سائنس، ٹیکنالوجی، سیاسی اور معاشی حالات بہت تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ دنیا میں ہونے والی لمحہ با لمحہ تبدیلیوں اور نئے چیلنجز کا مقابلہ صرف اور صرف اعلیٰ تعلیم ، سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں نئی تحقیق سے ہی کیا جا سکتا ہے۔

اعلیٰ تعلیم کے فروغ اور سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں جدید تحقیق کے لیے 2002 میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی بنیاد رکھی گئی۔ جس وقت پاکستان میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی بنیاد رکھی گئی اس وقت پاکستان کی ایک بھی یونیورسٹی دنیا کی 500 یا 1000 بہترین جامعات کی فہرست میں شامل نہیں تھی۔

صرف 6 سال کے قلیل عرصے میں پاکستان کی جامعات کا شمار دنیا کی 300، 250 اور 400 بہترین جامعات میں ہونے لگا جو کہ کسی معجزے سے کم نہیں تھا اور اس سب کے پس پشت ایچ ای سی کے پہلے چیئرمین ڈاکٹر عطا الرحمان کی شبانہ روز محنت اور دلچسپی کارفرما تھی۔ اب چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار احمد نے ہائیر ایجوکیشن کی ترقی اور جامعات میں تحقیق کے معیارکو بین الاقوامی سطح پر لانے کے لیے انقلابی اقدامات اٹھائے ہیں۔

اس بات کا احساس چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار احمد کو بھی ہے کہ سائنس و تحقیق کا میدان ہو یا لیڈر شپ خواتین کی شمولیت کے بغیر ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ ایچ ای سی کی اپنی تحقیق کے مطابق لیڈر شپ اور انتظامی عہدوں پر خواتین کی کارکردگی کا معیار مردوں کے مقابلے میں بہت بہتر رہا۔ انتظامی عہدوں پر فائز خواتین نہ صرف کرپشن نہیں کرتیں بلکہ مردوں کے مقابلے خواتین زیادہ میرٹ کی پاسداری کرتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ خواتین کو بھی نہ صرف انتظامی عہدوں پر بلکہ جامعات میں وائس چانسلرز کی تعیناتیوں میں مردوں کے برابر مواقع ملنے چاہئیں۔اسی مقصد کے لیے ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے عالمی بینک کے اشتراک سے سندھ میں وومن لیڈر شپ پروگرام کا کامیاب انعقاد کیا۔

یہ ہائیرایجوکیشن کمیشن کا وومن لیڈر شپ کے حوالے سے پانچواں پروگرام ہے، اس سے پہلے اسی طرز کے پروگرام پنجاب ، اسلام آباد ،آزاد جموں وکشمیر اور خیبر پختونخوا میں منعقد کیے گئے۔

یہ پاکستان میں وومن لیڈر شپ کے حوالے سے پہلا پروگرام ہے جس میں پورے سندھ کی میڈیکل، انجینئرنگ اور دیگر جامعات سے 35 قابل ترین خواتین پروفیسرز ، ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹس، رجسٹرار اور ڈپٹی رجسٹرار کو لیڈر شپ اور انتظامی امور کے حوالے سے ٹریننگ دی گئی۔

سندھ بھر کی جامعات سے منتخب ہونے والی ان 35 قابل ترین خواتین کو ٹریننگ میں یہ بتایا گیا کہ وائس چانسلر کی ذمے داریاں کیا ہوتی ہیں اور جامعات میں بجٹ سازی اور انتظامی امور کے حوالے سے فیصلہ سازی کس طرح کی جاتی ہے۔

ابتدائی ٹریننگ کے بعد ان منتخب خواتین کو مزید ٹریننگ کے لیے ہارورڈ اور آکسفورڈ جیسی صف اول جامعات میں بھیجا جائے گا تا کہ جب یہ منتخب خواتین واپس آکر مردوں کے برابر جامعات میں وائس چانسلرز کی پوزیشنز کے لیے کوالی فائی کر سکیں۔

ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے اس انقلابی اقدام میں سندھ حکومت بھی ایچ ای سی کے شانہ بشانہ کردار ادا کر رہی ہے۔ پہلی مرتبہ سندھ حکومت نے صوبے کی 6 جامعات میں سے 3 جامعات میں خواتین وائس چانسلرزکا تقرر کیا ہے۔اسی طرح سندھ کی 27 سرکاری جامعات میں وائس خواتین وائس چانسلرز کی تعداد اب 6 ہوگئی ہے۔

مجھ سمیت پروگرام میں شامل تمام خواتین پروفیسرز اور فیکلٹی ممبران کو اب ایک امید کی ایک کرن نظر آئی ہے کہ ہم خواتین بھی اپنی محنت اور قابلیت کے بل بوتے پر شعبہ تعلیم میں تحقیق کے علاوہ بڑی انتظامی اور لیڈر شپ پوزیشنز حاصل کر سکتی ہیں۔

یہ صرف ایک پراجیکٹ نہیں بلکہ پاکستان بھر کی جامعات میں جدید سوچ اور نئے خیالات کی حامل قابل ترین نئی لیڈر شپ متعارف کروانا ہے۔ چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر مختار احمد کو اس شاندار پراجیکٹ کا کریڈٹ نہ دینا زیادتی ہوگی۔

ڈاکٹر مختار احمد نے نہ صرف پاکستان کی جامعات میں گرتے ہوئے تحقیقی معیارکی وجوہات کی اصل وجوہات کو سمجھا بلکہ ترقی یافتہ ممالک سے حاصل کردہ اپنے قیمتی تجربات کو بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان میں تعلیمی معیارکو بہتر کرنے کے لیے انقلابی اقدامات کا بیڑا اٹھایا۔

ڈاکٹر مختارکی ٹیم میں موجود وومن لیڈر شپ پروگرام کے ریسورس پرسنز محمد رضا چوہان ، خواجہ زاہد حسین، محمد اسد خان اور طاہر عباس زیدی بھی داد کے مستحق ہیں جنہوں نے نہ صرف پورا پروگرام ڈیزائن کیا بلکہ انتہائی جانفشانی اور محنت سے اس پروگرام کا پہلا مرحلہ کامیابی سے مکمل کر لیا۔

پاکستان کی تاریخ میں ہائیر ایجوکیشن کے شعبے میں سب سے زیادہ ترقی 2002 سے 2008 کے درمیان کے ڈاکٹر عطا الرحمان کے دور میں حاصل ہوئی، اس کامیابی کے پیچھے بڑی وجہ پالیسیوں کا تسلسل تھا۔ آج بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈاکٹر مختار احمد کو بھی مناسب وقت ملنا چاہیے تاکہ ان کی زیر قیادت ایچ ای سی کی متعارف کردہ انقلابی پالیسیوں کے تسلسل کو یقینی بنایا جا سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔