ایسا تھا وہ

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 20 اپريل 2014
بھری جوانی میں دنیا چھوڑ جانے والے ایک نوجوان کی اشکوں سے لکھی کہانی

بھری جوانی میں دنیا چھوڑ جانے والے ایک نوجوان کی اشکوں سے لکھی کہانی

عجیب تھا وہ، ہاں بہت عجیب سا، ہر ایک کی مدد پر تیار، پورا محلہ اس کی وجہ سے مطمئن تھا۔ نعیم ہمارا پانی نہیں آرہا، اچھا خالہ ابھی کرتا ہوں انتظام، نعیم ہمارا سودا ختم ہو رہا ہے، اچھا پریشان نہ ہوں میں لا دیتا ہوں، نعیم بچوں کی چھٹی ہو گئی ہے، گھر پر کوئی نہیں ہے انہیں لے آؤ۔

اور نعیم پھرکی کی طرح ہر وقت گردش میں رہتا، سارے محلے کی آنکھ کا تارا، سب کا سہارا، کتنے ہی ہاتھ اس کے لیے رب کے حضور بلند رہتے۔ اس سب کے باوجود پڑھنے لکھنے میں سب سے آگے، شاید ہی کبھی اس نے پوزیشن چھوڑی ہو۔ یوسف درانی کا چہیتا بیٹا، یوسف صاحب بینکار تھے اور بیرون ملک مقیم، پھر انہوں نے اپنی فیملی کو بھی بلالیا تھا۔ وہ دن بھی کتنا عجیب تھا، جب نعیم اپنی ماں اور بہن بھائیوں کے ساتھ ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہو رہا تھا۔ سارا محلہ کیا عورتیں، بچے، بوڑھے، جوان، بچیاں سب ہی تو اداس تھے۔ ان کی آنکھیں برس رہی تھیں اور نعیم سب کو بس یہی کہے جارہا تھا، ارے آپ پریشان مت ہوں میں جلد ہی تو آجاؤں گا۔ لیکن آنسو تھے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ پھر آنسوؤں کی برسات میں وہ رخصت ہوگیا اور سارا محلہ خزاں آلود۔

وہ سال بھر باہر رہتا، وہیں پڑھتا اور امتحان دینے کے لیے پاکستان آتا۔ اس کے آتے ہی پھر سے محلے میں بہار آجاتی اور ہر طرف نعیم، نعیم کے گیتوں کی جاں فزا پھوار برسنے لگتی۔ وہ جتنے دن بھی رہتا، وہ دن بہار ہوتے، اور جب چلا جاتا تو خزاں۔

اس کے آنے سے موسم بدلتا، ناراض شجر مسکرانے لگتے، ان پر نئے پتوں اور پھولوں کی بہار آجاتی اور معصوم پرندے چہچہانے لگتے اور اس کے جاتے ہی پھر پت چھڑ۔

یوسف صاحب اپنے اہل خانہ کے ساتھ جب حج کرنے گئے تب نعیم کی عمر آٹھ برس تھی۔ چھوٹا سمجھتے ہوئے وہاں کے نگران اسے بیت اﷲ کے چاروں طرف بنے ہوئے دائرے میں اتار دیتے۔ اس دائرے میں تو کوئی بھی نہیں ہوتا تھا، اور نعیم اکیلا طواف کرتا۔ اس دائرے کے باہر تو خالق کی مخلوق اسے پکارتی رہتی، ہزاروں مرد و زن چکر لگاتے، اور ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں، کی صداؤں سے فضاء معطر رہتی اور کمسن نعیم ۔۔۔۔۔۔کتنے قریب سے پکارتا، میں بھی حاضر ہوں ناں ۔۔۔ طواف سے فارغ ہوکر جب وہ سب اپنے کمرے میں آتے تو وہ کہتا، دیکھا میں دوست ہوں اﷲ کا ۔۔۔۔ ہاں وہ ایسا ہی تھا۔

اومان کے شہر مسقط کے ساحل پر وہ ہر شام سائیکل چلاتا اور پھر جیمخانہ جاکر کسرت کرتا۔ میٹرک کے امتحان میں اس نے پھر پوزیشن لی تھی اور فرسٹ ایئر میں داخلہ لے لیا تھا۔ حسب معمول وہ پاکستان آیا ہوا تھا اور پورا محلہ نعیم کی خوشبو سے معطر تھا۔

ایک رات سوتے ہوئے اس نے اپنی ماں سے کہا، ’’امی میری ایک ٹانگ موٹی ہوگئی ہے۔‘‘

ماں کو پریشان دیکھ کر نعیم ہنس پڑا، امی آپ تو ایسے ہی پریشان ہوگئیں، ہوا پتا ہے کیا تھا، میں جیم جاتا ہوں ناں، تو میں نے اس ٹانگ کی بہت ایکسرسائز کی ہوگی، شاید اس لیے موٹی ہوگئی ہے، میں اب دوسری ٹانگ کی بھی کروں گا تو دونوں ایک جیسی ہوجائیں گی۔

لیکن ماں مطمئن نہیں ہوئی، ماں تو ماں ہوتی ہے۔ اس کی ساری رات آنکھوں میں کٹ گئی۔ لیکن ہر شب کی سحر ہوتی ہے تو بس سحر ہوگئی۔ نعیم کالج جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ اسے ماں کی آواز سنائی دی۔
’’بیٹا تم آج کالج نہیں جاؤ گے۔‘‘

’’کیوں امی۔۔۔۔ مجھے آج بہت ضروری جانا ہے۔‘‘

لیکن ماں کا فیصلہ اٹل تھا،’’نہیں تم آج میرے ساتھ ڈاکٹر کے پاس جاؤ گے۔‘‘ سعادت مند بیٹے نے سر جھکا لیا۔ تین بجے ڈاکٹر کے پاس جانے کا وقت طے تھا۔ ماں کے لیے وہ لمحات بہت اذیت ناک تھے۔ عجیب طرح کے خدشات سر اٹھا رہے تھے۔ یہ مائیں چاہے کہیں کی بھی ہوں، سب ایک جیسی ہوتی ہیں، اور نجانے کیوں ہوتی ہیں۔ڈاکٹر نے ٹانگ کا معائنہ کیا اور کچھ ٹیسٹ بتائے اور رپورٹس لے کر آنے کا کہا۔ ماں نے اسی وقت ٹیسٹ کرائے اور بوجھل دل سے گھر آگئی۔ تیسرے دن نعیم اپنی ماں کے ساتھ ٹیسٹ رپورٹس کے ساتھ ڈاکٹر کے روبرو تھا۔ ماہر اور سن رسیدہ ڈاکٹر نے رپورٹس کو بغور دیکھا اور پھر نعیم کو باہر جانے کا کہا۔ نعیم باہر نکل گیا تو ڈاکٹر نے ماں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،’’دیکھیے، ہر دکھ تکلیف اﷲ کی طرف سے آتی ہے، اور اﷲ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اتاری جس کی دوا نہ اتاری ہو، انسان کو صبر کرنا چاہیے اور علاج کرانا چاہیے کہ علاج کرانا حکم خداوندی ہے اور سنت رسول ﷺ بھی اور نتیجہ اس ذات پر چھوڑ دینا چاہیے۔‘‘

نعیم کی ماں کو جب کچھ سمجھ نہیں آیا تو انہوں نے ڈاکٹر سے کہا،’’آپ آخر کیا کہنا چاہتے ہیں، مجھ سے کچھ مت چھپائیے اور صاف صاف بتائیے۔ پھر ماں نے وہ خبر سنی جسے سننے کی ان میں تاب نہ تھی۔‘‘

نعیم کو خون کا سرطان ہوگیا تھا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ نعیم کو کیا اور کیسے بتایا جائے۔ راستے بھر نعیم ماں کو پریشان دیکھ کر پوچھتا رہا کہ آخر کیا مسئلہ ہے، لیکن ماں گُم صُم تھی۔نعیم کا بڑا بھائی فہیم میڈیکل کالج میں زیرتعلیم تھا۔ ماں نے گھر پہنچ کر فہیم کو بتایا اور پھر سارے گھر میں اداسی چھاگئی۔ لیکن نعیم کو بتانا تو تھا، تو یہ فریضہ فہیم نے ادا کیا۔

نعیم تم سے ایک بات کرنی ہے، فہیم نے کہا،’’ہاں بھائی، ایک بات کیوں، بہت باتیں کریں۔‘‘نعیم کی شوخی برقرار تھی۔

’’دیکھو نعیم! جو ہونا تھا ہو گیا ہے۔ لیکن اب ہمت سے کام لینا۔ انشاء اﷲ تم ٹھیک ہوجاؤ گے، تمہیں کینسر ہوگیا ہے نعیم۔‘‘ فہیم یہ بتاتے ہوئے رو پڑا۔ لیکن گھر والوں کو حیرت اس وقت ہوئی، جب نعیم کا جان دار قہقہہ گونجا،’’تو مجھے کینسر ہوگیا ہے، اوہو اس لیے سب پریشان ہوگئے ہیں، آپ سب پریشان ہونا چھوڑ دیں اور میرا ساتھ دیں، آپ دیکھیں گے کہ میرا کینسر، ڈاکٹر کے پاس جائے گا، اور رو رو کر کہے گا کہ مجھے نعیم ہوگیا ہے۔

یہ کہتے ہوئے وہ ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہوگیا۔‘‘
نعیم کے ایک ماموں جن کا نام لطیف تھا، کے بڑے بال تھے۔ انہیں دیکھ کر نعیم نے بھی بڑے بال رکھنے شروع کردیے تھے۔ وہ اکثر اپنے ماموں سے کہتا، ’’ماموں! میرا آپ سے بالوں کا مقابلہ ہے، میں آپ کو ہرا کے دم لوں گا۔‘‘ اور ماموں کہتے،’’نہیں، نعیم تم مجھے نہیں ہرا سکتے، اس لیے کہ میں نے سارا جیون آوارگی میں گزار دیا ہے، آزادی سے رہا ہوں، لیکن تم کالج میں پڑھتے ہو اور تمہارے ابا بھی نظم و نسق کے بہت پابند ہیں۔ تم ہار جاؤ گے، بیٹا۔‘‘

نعیم اور اس کے ماموں کی یہ نوک جھونک چلتی رہتی تھی۔ نعیم اپنے خاندان کا ہی نہیں سارے محلے کا چہیتا تھا۔ خلق خدا کی پکار پر ہمیشہ لبیک کہنے والا نعیم۔

نعیم کا علاج شروع ہوا اور وہ باقاعدگی سے ڈاکٹر کے پاس جانے لگا۔ پیسے کی کوئی کمی نہیں تھی۔ ماہر ترین ڈاکٹرز کی زیرنگرانی ایک بڑے نجی اسپتال میں اس کی کیموتھراپی شروع ہوئی، کیموتھراپی کا درد بھرا سلسلہ اور اس کے مضر اثرات نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا۔ لیکن مجال ہے کبھی نعیم کی پیشانی پر بل پڑے ہوں، وہی ہنسی وہی زندہ دلی۔ وہ کینسر جیسے موذی مرض سے لڑنے نکلا تھا اور اس راستے کی ساری مشکلات کو جانتا تھا۔ وہ اس دوران کالج جاتا اور اپنے مشاغل میں مگن رہتا۔ ابتدا میں اس نے سب گھر والوں کو منع کردیا تھا کہ وہ محلے میں کسی کو نہیں بتائیں گے۔ اس لیے کہ پھر محلے والے اسے اپنے کسی کام کا نہیں کہیں گے، جو اسے گوارہ نہ تھا۔ لیکن حقیقت کب تک اور کہاں تک چھپ سکتی ہے۔ ہنستا کھیلتا نوجوان اپنی توانائی کھورہا تھا اور اس کے چہرے پر درد رقم ہو رہا تھا۔ پھر یہ سچ کب تک چھپایا جاسکتا ہے، جب وہ ہفتے میں چار دن اسپتال میں رہتا ہو۔ آخر ایک دن سارے محلے میں یہ خبر کسی بم دھماکے کی طرح سنی گئی کہ نعیم کینسر میں مبتلا ہے۔ اس دن پورے محلے میں کہرام برپا تھا ہر آنکھ اشک بار، گھر میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی، ہر ایک پوری تفصیل جاننے کا خواہش مند تھا۔ نعیم اس وقت بھی مسکرا رہا تھا اور سب کو کہے جا رہا تھا، آپ پریشان مت ہوں بس دعا کریں میں کہیں نہیں جاؤں گا، ہاں آپ کو میں کیسے چھوڑ کے جاسکتا ہوں لیکن ۔۔۔۔۔۔

دن گزرنے کے لیے ہیں، وقت کسی کے لیے بھی نہیں رکا، وقت کو کون روک سکا ہے۔ نعیم کو علاج کراتے ہوئے ایک سال سے زیادہ ہوگیا تھا اور اس دوران تین مرتبہ اس کی کیموتھراپی ہوچکی تھی۔ امتحانات کے شیڈول کا اعلان ہوچکا تھا اور ایڈمٹ کارڈ مل چکے تھے۔ نعیم اس حالت میں بھی تیاری کر رہا تھا۔ امتحانات شروع ہوئے تو لوگوں نے عجیب منظر دیکھا۔ نعیم کو ڈرپ لگی ہوئی تھی اور وہ ایمبولینس میں اپنے امتحانی سینٹر پہنچا، اس نے اپنے سارے پرچے اسی طرح دیے تھے۔ وہ اذیت جھیلتا رہا اور کینسر اسے گھن کی طرح چاٹتا رہا۔ وہ جسمانی طور پر ختم ہوتا جارہا تھا، لیکن اس کا حوصلہ دن بدن بلند ہورہا تھا، وہ مسکراتا تو محلے اور گھر والوں کی آنکھیں بھیگ جاتیں۔ وہ فیصلہ کرچکا تھا کہ جتنے دن بھی اس کے پاس رہ گئے ہیں وہ جیے گا۔ وہ سب کو کہتا آپ پریشان نہ ہوں، میں ٹھیک ہو رہا ہوں، لیکن سب نابینا تو نہیں تھے، ساری حقیقت ان کے سامنے تھی۔ اس کے والد نے اسے بیرون ملک بھیجنے کا فیصلہ کیا اور تیاری بھی ہوچکی تھی۔

ایک دن ڈاکٹر سے نعیم نے کہا،’’آپ بہت اچھے ہیں، آپ نے میری بہت خدمت کی، لیکن آج کے بعد میں آپ کو زحمت نہیں دوں گا، کیا آج آپ مجھے گھر جانے کی اجازت دے سکتے ہیں؟‘‘

ہم درد ڈاکٹر نے توجہ سے اس کی بات سنی اور پوچھا تم گھر کیوں جانا چاہتے ہو۔۔۔؟ نعیم کا جواب عجیب سا تھا،’’ڈاکٹر! آپ جانتے نہیں ہیں کہ میں نے گھر میں بہت ساری بطخیں پالی ہوئی ہیں، گھر کے لان میں بہت سارے پھولوں کے پودے لگائے ہوئے ہیں، سب لوگ تو مجھ سے ملنے اسپتال آجاتے ہیں، لیکن وہ پودے اور بطخیں تو یہاں نہیں آسکتیں، مجھے معلوم ہے وہ مجھ سے خفا ہیں اور پودے بھی، میں ان سے ملنا چاہتا ہوں، اس لیے کہ میں کسی کو بھی خفا نہیں دیکھ سکتا اور آج تو میں نے ان سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں، انہیں کچھ سمجھانا ہے، انہیں منانا ہے، پھر شاید مجھے موقعہ نہ ملے۔‘‘

گھر والے اور ڈاکٹر حیرت سے اس کی باتیں سن رہے تھے۔ ڈاکٹر نے اسے پیار سے دیکھا اور بولے دیکھو نعیم، تم صحت یاب ہوجاؤ گے میں تمہیں آج گھر جانے کی اجازت اس شرط پر دیتا ہوں کہ کل صبح تم واپس اسپتال آؤ گے۔ نعیم مسکرایا اور کہنے لگا ڈاکٹر آپ نے میری بات توجہ سے نہیں سنی، میں نے آپ سے کہا ہے کہ میں اب آپ کو زحمت نہیں دوں گا، بلکہ کسی کو بھی نہیں۔
اس نے اسپتال کے سارے عملے کا شکریہ ادا کیا، اور اسے ایمبولینس میں لٹا دیا گیا۔

سورج کہیں اور جا نکلا تھا۔ تاریکی نے روشنی کو پسپا کردیا تھا، انہی تضادات میں پوشیدہ ہے راز ہستی۔ خانہ خدا سے بس اسی واحد ذات کی کبریائی کا آوازہ بلند ہوا جو ہمیشہ بلند ہوتا رہے گا۔ مغرب کی نماز اس نے گھر ادا کی۔ خاندان اور پورا محلہ اسے دیکھنے کے لیے جمع تھا۔ آج تو ایسا لگ رہا تھا جیسے نعیم کبھی بیمار ہی نہیں ہوا، وہی جان دار قہقہے، وہی شرارت بھری باتیں، وہی تسلیاں، جو وہ ہر ایک کو دیا کرتا تھا۔ اس نے اپنے لگائے ہوئے پھولوں کے پودوں اور اپنی ساری بطخوں سے مخاطب ہوکر کہا، ’’تم سب مجھ سے خفا نہیں ہوسکتے، میں تم سے ملنے آگیا ہوں، لیکن آج کے بعد تم امی کا کہا مانو گے، اچھے بچے اپنی امی کا کہنا مانتے ہیں اور اپنی صحت کا خیال رکھتے ہیں، تم سب امی کا بہت خیال رکھنا، مجھے تو تم بہت تنگ کرتے رہے ہو، لیکن ہم تو دوست ہیں کوئی بات نہیں، لیکن امی کو نہیں تنگ کرنا اور سنو، میں کہیں نہیں جا رہا، میں یہیں رہوں گا لیکن ہوسکتا ہے ناں کہ تم مجھے دیکھ نہ سکو۔‘‘

سب حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے۔ نعیم کی ماں نے اسے اپنے سینے سے لگا کر روتے ہوئے کہا، یہ کیا کہہ رہے ہو تم نعیم۔ وہ مسکرایا اور کہنے لگا، ’’امی! آپ بھی بس پریشان ہوجاتی ہیں، چلیں مجھے نوڈلز بنا کر دیں۔‘‘ وہ سب سے گپ شپ کر رہا تھا، اور رات تاریک ہوتی جارہی تھی۔ بارہ بجے اس نے سب سے کہا،’’اب آپ سب آرام کریں۔ سب رخصت ہوگئے۔‘‘ اس کی خالہ اور ماموں اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، نعیم نے مسکراتے ہوئے اپنے ماموں سے کہا،’’لطیف ماموں! میں آپ سے ہار گیا، میرے بال ہی جھڑ گئے، چلیں کوئی بات نہیں، اب آپ بھی آرام کریں‘‘۔ اس کے اصرار پر وہ یہ کہتے ہوئے کہ جب ضرورت ہو تم آواز دے لینا اپنے کمرے میں چلے گئے۔ روشنی اور تاریکی کی جنگ میں نصف شب بیت گئی تھی۔

تین بج رہے تھے کہ نعیم نے آواز دی۔

خالہ سب کو جگائیں، سارے گھر والے جاگ گئے۔ اور پھر سب نے سنا، نعیم کہہ رہا تھا۔
’’میں نے آپ سب کو بہت تنگ کیا، میری وجہ سے آپ سب بے آرام ہوئے، راتوں کو جاگے، میری خدمت کی، میں بہت خوش ہوں، آپ سب نے یہ اس لیے کیا تھا ناں کہ میں صحت یاب ہوجاؤں اسی لیے کیا تھا تھا ناں۔۔۔۔۔‘‘

سب نے کہا،’’ہاں تم ہمیں بہت عزیز ہو، پیارے ہو، اسی لیے ہم نے یہ سب کچھ کیا، ہم تمہیں تن درست اور خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’تو بس پھر آپ سب خوش ہوجائیں، آپ سب کی محنت اکارت نہیں گئی، میں تن درست ہوگیا ہوں، خوش ہوں، مجھے کوئی تکلیف نہیں ہے، آپ سب مجھ سے وعدہ کریں کہ اب آپ کبھی اداس نہ ہوں گے، میری تکلیفیں راحت میں بدل گئی ہیں۔ امی! آپ ہی تو کہتی تھیں کہ ہر تکلیف کے بعد راحت ہے، تو آپ نے سچ کہا تھا۔ بھائی! آپ جلد ڈاکٹر بن جائیں گے۔ آپ کو مجھ سے بہت پیار ہے ناں تو بس آپ ہمیشہ ہر مریض کو اپنا نعیم سمجھیں گے۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو مجھے بہت خوشی ہوگی اور آپ کو بھی۔ آپ سب بدر باجی اور احمد یار بھائی کا بہت خیال رکھیے گا۔ اس لیے کہ وہ بول سن نہیں سکتے۔ امی! آپ تو ہیں ہی جنتی، آپ نے ہم سب کا کتنا زیادہ خیال رکھا۔ وہ دیکھیے کتنی اچھی جگہ ہے، میں نے آج تک ایسی خوب صورت جگہ نہیں دیکھی، اتنے پیارے پھول، اتنے اچھے پھل دار درخت ہیں، بہت ہی زیادہ خوب صورت۔ وہ دیکھیے بہت خوب صورت لباس پہنے ہوئے لوگ مجھے لینے آئے ہیں۔ انہوں نے ہی مجھے جگایا تھا کہ اب تم تن درست ہوگئے ہو، ہم تمہیں لینے آئے ہیں، سب گھر والوں کو جگاؤ ان سے ملاقات کرلو، تو میں نے آپ کو جگایا۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اب ان کے ساتھ جانا ہے، میں بہت خوش رہوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

نعیم کو نہ جانے آج کیا ہوگیا تھا، وہ بولے جارہا تھا اور سب مبہوت اسے سن رہے تھے۔ پھر اچانک اس نے آنکھیں موند لیں اور خاموش ہو گیا۔ اس کے ابو نے بے چین ہوکر کہا، ’’نعیم بیٹا! کلمہ پڑھو۔۔۔۔‘‘ نعیم نے مسکراتے ہوئے آنکھیں کھولیں، دوسری طرف دیکھا اور کہا،’’ابو آپ پریشان مت ہوں، ابھی میرے پاس وقت ہے، ان لوگوں نے مجھ سے کہا ہے کہ ہم خود تمہیں کلمہ پڑھائیں گے اور پھر سے آنکھیں موند لیں۔‘‘

وہ لمحات بھی عجیب تھے، ایک عجیب سا سکون طاری تھا، کوئی بھی تو نہیں رو رہا تھا، بس خاموشی، مکمل سکوت، سکون اور طمانیت۔۔۔۔۔ نعیم کی امی سورہ یٰسین کی تلاوت کر رہی تھیں۔۔۔

اچانک اس نے آنکھیں وا کیں، سب کی طرف دیکھا، مسکرایا اور کہا،’’اب آپ سب مجھے مسکرا کر رخصت کردیں۔۔۔۔‘‘
نعیم نے بہ آواز بلند کلمہ طیب پڑھنا شروع کیا ۔
روشنی نے تاریکی کو دھکیل دیا تھا، خانہ خدا سے اذان فجر بلند ہو رہی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔