’اے بہن سنو ذرا۔۔۔‘‘ ؛ دوسروں کی ’’فکر۔۔۔ تشویش۔۔۔ یا۔۔۔تفتیش؟ ‘‘

فرحی نعیم  منگل 23 مئ 2023
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

’’کیا میں اندر آسکتی ہوں؟‘‘

اس آواز پر عمارہ نے چونک کر داخلی دروازے کی طرف دیکھا، لوہے کے جال کے پار سے سامنے والی آنٹی بغور اسے دیکھ رہی تھیں۔ صبح کے گیارہ بج رہے تھے اور وہ بچوں کے اسکول جانے کے بعد گھر کے کام کاج میں لگی ہوئی تھی۔

’’جی انٹی،آئیے السلام علیکم! کیسی ہیں؟‘‘

عمارہ جلدی سے اٹھی اور جال کے بنے ہوئے دروازے کی کنڈی کھولی۔ چھوٹے چھوٹے فلیٹوں پر مبنی یہ پانچ ممزلہ عمارت تھی، لہٰذا یہاں ایک دوسرے کے گھر وقت ، بے وقت آنا معمول کی بات تھی۔

’’اے بیٹی، ہمیں کیسا ہونا چاہیے؟ ویسے ہی ہیں ،جیسے چار دن پہلے تھے، بلکہ سمجھو پچھلے 50 سال سے ایسے ہی ہیں۔ بس جوانی سے بڑھاپے کی دہلیز پار کر رہے ہیں۔‘‘ آنٹی نے حسب عادت تفصیل سے جواب بیان کیا اور ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ جو کہ ان کی عادت تھی، بات ہے بات لگانے کی۔

’’جی۔۔۔؟‘ اس نے جواب دینے کے انداز میں مخصوص انداز میں ہونٹ پھیلائے۔

’’اور تمھارا کیا حال ہے؟ بچے ٹھیک ہیں؟ اور۔۔۔۔۔۔۔کیا ہو رہا ہے۔۔۔؟ ہانڈی چڑھادی۔۔۔۔؟ کیا پکا رہی ہو، سبزی یا گوشت یا مرغی۔۔۔؟ اے میں کہوں ، گوشت تو بس سے باہر ہی ہو چکا، مرغی بھی بجٹ سے نکل رہی ہے، بھلا بتاؤ چھے، سات سو روپے کلو۔۔۔۔!!!‘‘

یوں وہ حسب سابق اپنی باقاعدہ تقریر کا آغاز کر چکی تھیں۔ اس آفت زدہ حالات میں مرغی بھی روز پکانا مشکل ترین ہو چکا ہے۔۔۔۔ انھوں نے چند لمحوں کا وقفہ لیا تا کہ جواب ملے، ویسے تو وہ جواب کچھ اور ہی سوالات کا لینے آئی تھیں۔

’’جی آنٹی آپ درست کہہ رہی ہیں۔‘‘ عمارہ اس طویل مکالمہ میں ابتدائی سوالات تو بھول چکی تھی، جو اس کے گھر کے باقی افراد کے متعلق تھے۔

’’غلط تو مین نے کبھی کہا ہی نہیں۔۔۔ انھوں نے خود کو جیسے تھپکی دی اور ساتھ ہلکے سے ہنسیں بھی۔ پھر فوراً سنجیدہ ہوئیں۔ ’’اے عمارہ، تین دن سے توفیق میاں نظر نہیں آرہے، کیا بیمار ویمار ہیں؟ خدانخواستہ۔۔۔ یا شہر سے باہر گئے ہوئے ہیں؟ یا کہیں تم سے ناراض واراض ہو کے تو۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘ انھوں نے قریب ہو کر سر گوشی کے انداز میں کہہ کر اپنی آنکھیں گھمائیں۔۔۔۔۔

’’ارے آنٹی ، کیسی باتیں کر رہی ہیں؟ وہ کیوں ناراض ہو کر جائیں گے!‘‘ عمارہ نے گھبرا کر برا مناتے ہوئے کہا۔

’’اے وہ بس،۔۔ مجھے فکر ہو رہی تھی ناں مجھے، تمھاری طرف سے۔۔۔۔ انھوں نے جلدی سے اپنی بات سنبھالی، اب دیکھو آمنے سامنے تو ہمارے گھر ہیں، اور تم میری بیٹیوں کی طرح ہو، آخر محلے داری بھی کوئی چیز ہے، پڑوسیوں کی خیر خبر، رکھنی چاہیے۔

’’جی۔۔۔۔!‘‘ عمارہ نے یک حرفی لفظ کہہ کر ٹالنا چاہا۔

’’ہاں مانتی ہو ناں؟‘‘ جس پر عمارہ نے سنجیدگی سے سر ہلایا، تو پھر تم نے اب بھی نہیں بتلایا کہ تمھارے میاں کہاں ہیں؟ وہ واپس اپنے سوال پر آئیں۔

’’آنٹی وہ اپنے چچا زاد بھائی کی شادی میں شرکت کے لیے شہر سے باہر گئے ہیں۔‘‘ آخر کار عمارہ نے جواب میں کہا۔

’’اے تو تم ساتھ کیوں نہیں گئیں؟ شادی تھی، کوئی سوگ تھوڑا ہی تھا کہ بچوں کو لے کر یہاں رک گئیں؟ یہ تو خاندان کی خوشیوں کی بات ہوتی ہے۔۔۔ اسی طرح خاندان جڑتے ہیں۔‘‘

’’اور خواہ مخواہ کے دخل در معقولات پر تعلق بگڑتے بھی ہیں۔۔۔‘‘ عمارہ نے دل میں کہا، ان سے تو نہ کہہ سکی، لیکن سوچ کر ضرور رہ گئی۔

’’بس میں اتنی دور کا سفر ، بچوں کے ساتھ مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘ اس نے جواباً کہا۔

’’اے تمھارا دیور ہوتا ہے۔‘‘ انھوں نے جھٹ سے ایک اور سوال باندھا۔

’’مگر رشتے کا، آنٹی۔۔۔‘‘ عمارہ نے بھی فوراً تصحیح کی۔ اسے اب ان کے سوالات سے کوفت ہونے لگی تھی۔  وہ خوب سمجھ رہی تھی کہ فکر کی آڑ میں یہ سب ان کا تجسّس ہے، اتنے سوالات، درحقیقت وہ کھوج ہے، جو ان کو سامنے رہتے ہوئے ہو رہی ہے کہ ان کی معلومات میں کمی کیوں رہ گئی کہ توفیق میاں تین دن سے اگر گھر سے غائب ہیں تو پھر آخر کہاں ہیں؟

اپنی پوری تسلی کر نے کے بعد، آنٹی ٹھنڈا شربت نوش کرکے رخصت ہو ئیں تھیں ، اور عمارہ نے ان کے جانے کے بعد گہری سانس لی۔ درحقیقت سچ وہ نہیں تھا جو اس نے آنٹی سے بیان کیا تھا، اس کا میان تین دن قبل، گھر سے کسی شادی میں شرکت کے لیے نہیں بلکہ۔۔۔۔

…………

’’ارے بھابھی کمال ہے، آپ نے خالہ جان کے گھر کی پارٹی چھوڑ دی ، اتنا شان دار انتظام تھا۔۔۔اور آپ آئیں نہیں۔۔۔؟‘‘

’’ہاں وہ کچھ میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔‘‘

’’ہائے نصیب دشمناں کیا ہو گیا میری پیاری بھابھی کو۔‘‘ رشتے کی بھاوج نے مصنوعی محبت دکھائی۔

’’ہاں، بس اب کمر میں تکلیف رہنے لگی ہے، لہٰذا میں صرف ضرورتاً ہی گھر سے باہر نکلتی ہوں۔‘‘

’’ارے کیا کہہ رہی ہیں۔۔۔؟ بھلا رشتے داروں کے ہاں بھی  ضرورت بلا ضرورت جایا جاتا ہے؟ سارے خاندان کو خالہ نے اتنی محبت سے تو بلایا تھا اور آپ کہہ رہی ہیں ضرورتاً!‘‘ رشتے کی بھاوج نے آنکھیں پٹپٹائیں۔

’’سب پوچھ رہے تھے ، رخشی بھابھی کیوں نہیں آئیں؟‘‘

’’میرے خیال سے سب سے زیادہ آپ ہی کے پیٹ میں مڑور اٹھ رہے ہوں گے۔‘‘ رخشی منہ ہی منہ میں بڑبڑائی۔

’’جی کیا کہا ؟‘‘

’’کہا تو ہے، طبیعت ٹھیک نہ تھی۔‘‘

’’ہائے بھابھی، مجھے اتنے ہول آرہے تھے ناں کہ بس۔‘‘ بھاوج نے چہرے کے تاثرات پر فکر مندی ظاہر کی، بس میں اسی لیے خود دوڑی آئی، ورنہ آپ جانتی ہیں کہ اتنی دور سے آنا آسان کہاں۔۔۔‘‘

’’جی ہاں اچھی طرح۔۔۔‘‘ رخشی نے پہلو بدلا گویا اس تشویش کی حقیقت جانتی ہو کہ یہ تشویش کم اور ’تفتیش‘ زیادہ ہے۔ رخشی کے ماتھے پر شکنیں پڑ چکی تھیں۔

’’ارے استغفر اللہ کیا کہہ رہی ہیں؟‘‘ بھاوج بری طرح بگڑگئیں۔

’’بس ا چھی طرح جانتی ہوں کہ کس کو میرے حوالے سے تشویش ہے اور کتنوں کو۔۔۔‘‘ ساتھ ہی رخشی نے بھاوج کو سر سے پیر تک دیکھا اور لمحے بھر کے توقف کے بعد بولیں ’’میرے گھریلو معاملات کی ٹوہ لینی ہے۔‘‘ بس پھر کیا تھا یہ جملہ تو گویا تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔

…………

آج ہمارے معاشرتی رویے، زندگی کے ہنگام میں بدلاؤ لا چکے ہیں۔ زندگی، مثبت ، مفید، تعمیری اور علمی دائروں میں گردِش کرنے کے بہ جائے ، منفی و تنقیدی رویوں پر زیادہ مشتمل ہو چکی ہے۔

ہمیں اپنے حال سے زیادہ ، دوسرے کے حالات سے آگاہی کی فکر ہے۔ یہ فکر مندی، پریشانی، تشویش، دراصل دوسرے کے تجسس، کرید، تفتیش میں زیادہ بدل چکی ہے۔ ہم اپنے پڑوس اور خاندان کے ہر گھر کے بارے میں جاننے اورجھانکنے پر مُصر ہیں، کس کے ہاں کون آتا جاتا ہے؟ ، کس کی شادی ، بچے، بیرون ملک کے دورے ، نوکری، ملازمت ، دکھ ، بیماری، خوشی، ناراضی، جھگڑے، ہم بہ یک وقت ہر خبر جاننا اور رکھنا اپنے فرائض منصبی سمجھتے ہیں اور اس میں کوتاہی کو پسند نہیں کرتے۔ حالاں کہ زندگی تو دکھ سکھ کا گورکھ دھندہ ہے۔

یہاں ہر ایک کے ساتھ لا متناہی مسائل کا سلسلہ ہے، اگر ہم اپنے مسائل کے حل کے ساتھ دوسرے کے لیے بھی کشادگی چاہیں اور ان کے حالات اس لیے جاننے کی کوشش کریں کہ ان کے مسائل کچھ کم ہو جائیں، تو یہ مثبت سوچ اور تعمیری پہلو ہوگا، بہ جائے اس کے کہ مندرجہ بالا واقعات جیسا رویہ اختیار کیا جائے۔

آسانی پسند کیجیے، اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی۔ اور آسانی تقسیم کرنے والی بن جائیے۔ آپ دیکھیے گا زندگی کتنی خوش رنگ ہو جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔