اسلام آباد:
ماہر معاشیات ڈاکٹر خالد ولید نے کہا کہ ہر دفعہ یہی بات کی جاتی ہے کہ عوام دوست بجٹ ہے.
ایکسپریس نیوز کے پروگرام کل تک میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پچھلے بجٹ کے بارے میں کہا گیا تھا کہ سٹبلائزیشن کا بجٹ ہے، اس بار کہا گیا ہے کہ سٹیبلائزیشن سے بڑھ کر ٹیک آف کا بجٹ ہے شاید لوگوں کو ریلیف دیا جائے گا لیکن ایک چیز سمجھنے کی ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام ہے، اسٹرکچرل ریفارمز ہیں، آپ نے کلائمٹ چینج کا پروگرام بھی نیگوشی ایٹ کر لیا ہے ، اس کی مد میں بھی آپ پر کچھ نہ کچھ ٹیکسز آ رہے ہوں گے توشاید ٹیکس کا اس دفعہ ریٹ نہ بڑھے لیکن اس کو والیوم یا بیس بڑھ رہا ہو گا.
تجزیہ کار ثنااللہ خان نے کہا کہ اس بجٹ میں عوام کے لیے کوئی خوش خبری نہیں ہے، یہ والا بجٹ تو ایسا ہے کہ اس کو مکمل طور پر آئی ایم ایف نے ڈکٹیٹ کیا ہے اور آئی ایم ایف کے دو پروگرام ہیں ایک نہیں ہے، دونوں کی شرائط ہیں، وہ ساری شرائط بجٹ میں آ رہی ہیں، آپ کی جو ایلیٹ کلاس ہے آپ کے جو بیوروکریٹس ہیں انھوں نے کوئی قربانی نہیں دینی کیونکہ ان کو فری فسیلیٹی حاصل ہے.
ماہر معاشیات ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا کہ پندرہ سال پہلے اٹھارہویں ترمیم پاس کی گئی تھی، پچھلے پندرہ سال میں وہ دن ہیں اور آج کا دن ہے اگر آپ دفاع کا بجٹ کھول کر دیکھیں توخوش خبری دینے کیلیے وفاق کے پاس تو کچھ بچتا ہی نہیں، اس سال آپ دیکھیں گے کہ وزیر خزانہ کھڑے ہوں گے نیشنل اسمبلی کے فلور میں اورآپ کو بتایا جائے گا کہ حکومت پاکستان کی آمدن کوئی ساڑھے سترہ ، اٹھارہ ہزار ارب کی ہے.
ماہر معاشیات ندیم الحق نے کہا کہ ثنا اللہ صاحب نے جو باتیں کی ہیں وہ بڑی اچھی باتیں کی ہیں،خوش خبری تو ہے، حکومتی ملازمیں کیلیے تو بہت بڑی خوش خبری ہے، ایف بی آر کی تنخواہیں میرا خیال ہے کہ کوئی ہزار فیصد بڑھ گئی ہیں، چیئرمین سینیٹ کی تنخواہ پانچ سو فیصد بڑھ گئی ہے تو تنخواہیں ان کی بہت بڑھ رہی ہیں، مراعات ان کی بہت بڑھ رہی ہیں گھر گاڑی سب کچھ بڑھ گیا ہے تو پھر ان کو فارغ کر دیں آئی ایم ایف کو دے دیں ملک کا ٹھیکہ۔